جاپان نے ایک ایسے مجرم کو پھانسی دے دی جس نے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کر کے 9 افراد کو قتل کیا تھا۔ یہ جاپان میں تقریباً تین سال بعد کسی سزائے موت پر عملدرآمد کا پہلا واقعہ ہے۔
’ٹوئٹر کلر‘ کے نام سے مشہور تاکاہیرو شیریشی نے 2017 میں 8 خواتین اور ایک مرد کو گلا گھونٹ کر قتل کیا اور ان کے جسموں کے ٹکڑے کر کے اپنے اپارٹمنٹ میں رکھے۔ یہ واقعات ٹوکیو کے قریب کیناگاوا کے شہر زاما میں پیش آئے تھے۔
جاپان کے وزیرِ انصاف کیسوکے سوزوکی نے پھانسی کی منظوری دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ بہت غور و خوض کے بعد کیا گیا کیونکہ مجرم کے جرائم کی نوعیت ’انتہائی خودغرض اور سفاکانہ‘ تھی، جس نے پورے معاشرے کو صدمے میں ڈال دیا۔
یہ سزائے موت جاپان میں جولائی 2022 کے بعد پہلی بار دی گئی، جب ایک شخص کو 2008 میں ٹوکیو کے شاپنگ ڈسٹرکٹ میں چاقو حملے پر پھانسی دی گئی تھی۔
وزیرِ اعظم شیگرو اشیبا کی حکومت کے اکتوبر میں اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ پہلی سزائے موت تھی۔
یاد رہے کہ جاپان میں پھانسی پھندے کے ذریعے دی جاتی ہے اور قیدی کو صرف چند گھنٹے پہلے اطلاع دی جاتی ہے، جس پر انسانی حقوق کے ادارے کئی بار شدید اعتراض کر چکے ہیں۔
وزیرِ انصاف نے کہا، "جب تک ایسے پرتشدد جرائم ہو رہے ہیں، سزائے موت کو ختم کرنا مناسب نہیں ہوگا۔" ان کے مطابق اس وقت جاپان میں سزائے موت کے 105 قیدی موجود ہیں۔