تضادات کی کہانی

آجکل مرزا آفریدی کا بہت ذکر ہے، آج دنیا بھر کی برائیاں ان میں نظر آرہی ہیں ، مثلاً انھوں نے نو مئی کی مذمت کی


مزمل سہروردی July 16, 2025

تحریک انصاف بھی عجب جماعت ہے۔ اس میں پیسے دینے والاکرپٹ ہے، پیسے لینے والا ایماندار۔یہ آج کی بات نہیں ہمیشہ سے یہی اصول رہا ہے کہ پہلے پیسے لے لو، پھر کرپٹ قرار دے دو۔ دینے والے کو ولن بنا دو، لینے والے کو ہیرو رہنے دو۔ حالانکہ ہم نے تو ہمیشہ یہی سنا اور پڑھا ہے کہ لینے اور دینے والے دونوں برابر کے مجرم ہیں۔

آجکل مرزا آفریدی کا بہت ذکر ہے، آج دنیا بھر کی برائیاں ان میں نظر آرہی ہیں ، مثلاً انھوں نے نو مئی کی مذمت کی، اس لیے انھیں سینیٹ کا ٹکٹ نہیں دینا چاہیے۔ وہ برے وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے، انھیں پارٹی کا ٹکٹ نہیں دینا چاہیے۔ وہ پیسے کی سیاست کرتے ہیں، اس لیے ان کو ٹکٹ نہیں دینا چاہیے۔ لیکن انھوں نے کپتان کے کیس لڑنے کے لیے کسی کے مطابق اچھی خاصی مالی مدد کی ہے لیکن مرزا آفریدی مالی مدد دے کر برے بن ہیں لیکن جس کپتان کے مقدمات لڑنے کے لیے پیسے لیے گئے، وہ اچھا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر پیسے لیے گئے ہوں۔

اگر نو مئی کی مذمت کی وجہ سے ٹکٹ نہیں دیا جا سکتا تو نو مئی کی مذمت کرنے والوں سے مقدمات لڑنے کے لیے مالی تعاون کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ اگر فرض کر لیں حالانکہ ایسا ممکن نہیں کہ کپتان کی مرضی کے بغیر ان کے مقدمات لڑنے کے لیے مالی مدد لے لی گئی تو پھر پی ٹی آئی کے جس صاحب کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ ان کے ذریعے یہ مالی تعاون لیا گیا،  تو ان کو بھی پارٹی سے نکالو۔ یہ کیا انصاف ہے کہ مالی تعاون کرنے والا برا ہے لیکن وہ تعاون یا مدد لینے والا اچھا ہے ۔ جب آپ برے لوگوں سے اپنا کوئی مفاد لیتے ہیں تو آپ بھی اس میں حصہ دار بن گئے ہیں۔ یہ کیا منطق ہے کہ ہم برے لوگوں سے چندہ لیں گے اور ہم اچھے ہیں۔

یہ آج کی بات نہیں ہے۔ آپ تحریک انصاف کے سارے اے ٹی ایم کی داستانیں اٹھا لیں۔ انھوں نے کروڑوں روپے دییے ہیں لیکن آج وہ برے ہیں لیکن جس نے ان سے لیے وہ اچھا ہے۔ اس میں ایک مثال نہیں ہے، درجنوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ جہانگیر ترین کی مثال لے لیں۔کپتان ان کے جہاز پر سیر کرتا رہا، وہ پیسہ خرچ کرتا رہا لیکن جہانگیر ترین برا ہے لیکن کپتان اچھا ہے۔ علیم خان کی بھی یہی مثال ہے۔ اور بھی کئی مثالیں ہیں۔ سیاسی جماعت یا سیاسی قیادت جب برے لوگوں سے پیسے لیتی ہے تو وہ بھی بری ہے۔ اس کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔سب سے دلچسپ مثال توشہ خانہ کی گھڑی کی ہے۔

جس نے گھڑی خریدی ہے، وہ برا ہے۔ جس نے بیچی ہے، وہ اچھا ہے۔ جس نے تحائف خریدے ہیں، وہ برا ہے۔ جس نے بیچے ہیں وہ اچھا ہے۔ خریدینے والا مجرم اور بیچنے والا معصوم ہے۔یہ کرپشن کی نئی تعریف ہے جو ہمارے سامنے آئی ہے۔ جس میں ایک فریق مجرم اور دوسرا معصوم ہے۔ جس نے فرح گوگی کو پیسے دیے وہ مجرم اور فرح گوگی معصوم۔ ایسی منطق سمجھ سے بالا ہے۔سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت ایسے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت اگر برے اور کرپٹ لوگوں سے پیسے لیتی ہیں تو وہ کرپشن کرتی ہیں۔

انھیں صاف لوگوں سے صاف مقصد کے لیے پیسے لینے ہیں ورنہ اس طرح تو سرمایہ دار لوگ سیاسی جماعتوں کو خرید لیتے ہیں۔ دیکھ لیں پی ٹی آئی کی سب اے ٹی ایمز اپنے اپنے وقت میں تحریک انصاف پر قابض رہے ہیں، انھوں نے اپنے اپنے وقت پر تحریک انصاف پر حکومت رہی ہے۔ لیکن مجھے گلہ تحریک انصاف کی حکمت عملی سے ہے۔ جب وہ پیسے لیتے پکڑے جاتے ہیں، سوال اٹھتے ہیں۔ تو دینے والے کو خود ہی گالیاں نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔

اور لینے والے کے گن گانے شروع کر دیتے ہیں۔ اور ہم سب ان کی اس حکمت عملی کا شکار ہو جاتے ہیں۔  دوسروں سے مال وصول بھی کرلینا ، جب تک مفاد ہے ، اس کی تعریف کرنا اور جیسے ہی مفاد ختم ہوجائے یا وہ بیچارا اپنے مفاد کا تحفظ کرنے لگے تو اسے کرپٹ قرار دے دینا، یہی کپتان کا کمال ہے اور پھر کرپشن کے خلاف تحریک چلانی بھی تحریک انصاف کا کمال ہے۔ اے ٹی ایم جیب میں رکھتے ہوئے اے ٹی ایم کو برا کہنا کوئی ان سے سیکھے ۔ 2024کے انتخابات میں پیسے والوں کو مار کھانے والوں پر ترجیح دی گئی۔ پی ٹی آئی نے ہمیشہ انھیں گلے سے لگا کر رکھا ہے۔

یہ ایسے ہی ہے کہ امریکا کے خلاف مہم چلاتے ہوئے، امریکا کی مدد سے پاکستان میں اقتدار میں آنے کی کوششیں کرنا۔ ایک طرف امریکا مردہ باد کے نعرے اور دوسری طرف ٹرمپ سے لابنگ کرنا۔ ایک طرف حقیقی آزادی دوسری طرف ٹرمپ سے مداخلت کی اپیل۔ ایک طرف ہم کوئی غلام ہیں دوسری طرف امریکا کے قدموں میں۔ ڈونلڈ لو برا ہے۔ لیکن ٹرمپ اچھا ہے۔ٹرمپ ابھی تک اسی لیے اچھا ہے کہ اقتدار میں ہے۔ اس تضاد کے ساتھ سیاست کرنا ہی تحریک انصاف کا کمال ہے۔

وہ سوشل میڈیا کی طاقت سے اپنے جھوٹ کو سچ بنانے کی کمال طاقت رکھتے ہیں۔ لوگوں کو گمراہ کرنے کی کمال طاقت رکھتے ہیں۔ آپ گنڈا پور کی مثال لے لیں۔ ساری تحریک انصاف ان کے اسٹبلشمنٹ سے تعاون کو برا کہہ رہی ہے۔ لیکن جب کہتے ہیں کہ اس کو ہٹا دیں تو جواب ملتا ہے پھر خیبر پختونخوا کی حکومت چلی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کے پی میں اسٹبلشمنٹ کے تعاون سے اقتدار بھی قبول ہے، آپ اس کو بھی کھونے کے لیے تیار نہیں۔ آپ گنڈا پور کو رکھے بھی ہوئے ہیں، اور برا بھی کہہ رہے ہیں۔ گنڈا پور برا ہے۔ لیکن اس کا اقتدار اچھا ہے۔

یہ بھی عجب منطق ہے۔ اگر نظریاتی جماعت ہو تو نظریہ پر اقتدار کو ٹھوکر مار دے۔ اقتدار گنڈا پور کی شکل میں بھی ملے تو قبول ہے۔ سب گنڈا پور کو برا کہہ رہے ہیں لیکن کوئی کپتان سے سوال نہیں کر رہا کہ آپ انھیں ہٹاکیوں نہیں رہے؟ کپتان نے گنڈا پور رکھا ہوا لیکن کپتان اچھا ہے، گنڈاپور برا ہے۔اگر تحریک انصاف نظریاتی جماعت ہوتی تو نتائج کی پرواہ کیے بغیر گنڈا پور کو ہٹانے کا اعلان کر دیتی۔لیکن اقتدار کی متلاشی جماعت خود مصلحت کا شکار ہے۔ کپتان مصلحت کا شکار ہو تو کوئی بات نہیں۔ کوئی اور کیسے مصلحت کا شکار ہو سکتا ہے۔ یہی تضاد ہے۔

مقبول خبریں