لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب پراپرٹی آنر شپ آرڈیننس معطل کر دیا ہے۔ اور اس آرڈیننس کے تحت لوگوں کو جو قبضہ دلوائے گئے تھے، وہ بھی واپس کر دیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے عدالت کے یہ ریمارکس سامنے آئے ہیں کہ اس قانون سے عدالتی سپرمیسی ختم کر دی گئی ہے۔ عدالت کا موقف ہے کہ کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ تمام اختیارات انھیں دے دیے جائیں۔ اگر معاملہ سول کورٹ میں زیر سماعت ہو تو پھر ریونیو افسر کیسے قبضہ دلو اسکتا ہے، سول سیٹ اپ کو ختم کر دیاگیا ہے۔ قانون کہتا ہے کہ عدالت حکم امتناعی بھی نہیں دے سکتی۔
میں عدالت کی برہمی سمجھ سکتا ہوں۔ لیکن عدالت کو بھی عوام کی برہمی سمجھنی ہوگی۔ میں قانونی نکا ت پر بحث نہیں کرنا چاہتا۔ میں یہ دلائل بھی نہیں دینا چاہتا کہ یہ قانون اچھا تھا یا برا۔ یہ کس قدر قانونی تھا یا غیر قانونی۔ لیکن ایک بات سمجھیں لوگ زمینوں پر قبضوں سے تنگ ہیں۔ عدالت سے انصاف نہیں مل رہا۔ مجھے چیف جسٹس کا بہت احترام ہے۔
مجھے عدالتوں کا بہت احترام ہے۔ مجھے ہائی کورٹ کیا، سول کورٹس کا بھی بہت احترام ہے۔ لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ پاکستان کا جیوڈیشل سسٹم لوگوں کو بروقت انصاف دینے میں ناکام رہی ہیں۔ معزز چیف جسٹس کو یہ بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ انصاف میں تاخیر انصاف میں قتل کے برابر ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کی عدالتوں میں جب روزانہ انصاف میں تاخیر ہورہی ہے تو انصاف کا قتل ہی ہو رہا ہے۔ جب جب جج صاحب تاریخ پر تاریخ ڈال رہے ہیں تب تب ملک میں انصاف ملنے میں تاخیر ہو رہی ہے۔ اور جب جب انصا ف میں تاخیر ہو رہی ہے، تب تب انصاف کا قتل ہو رہا ہے۔
اب جہاں چیف جسٹس کی اس دلیل کا تعلق ہے کہ افسران درست انصاف نہیں کر سکتے۔ وہ قبضہ غلط دلوائیں گے۔ پٹواری تو خود قبضہ گروپوں کے ساتھ ملے ہوتے ہیں، وہ کیسے لوگوں کو قبضہ دلو ا سکتے ہیں۔ میں اس دلیل کو درست یا غلط نہیں کہنا چاہتا۔ یہ چیف جسٹس کے ریمارکس ہیں۔ ہمارے لیے محترم ہیں۔ لیکن کیا عدالتوں سے غلط فیصلے نہیں ہوتے؟ کیا وہاں قبضہ گروپ جعلی کاغذوں سے مقدمات نہیں جیت جاتے؟ کیا وہاں حق داروں کی حق تلفی نہیں ہوتی؟ اس لیے غلطی کا امکان دونوں طرف ہو سکتا ہے۔ عدالتیں یہ نہیں کہہ سکتیں کہ ان سے غلطی نہیں ہو تی۔ سوال جلد انصاف کا ہے۔
کیا یہ بہتر ہوتا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اس قانون کو معطل کرتے ہوئے اپنی سول کورٹس کو یہ ہدایت بھی دیتیں کہ زمینوں کے تنازعہ کے تمام مقدمات کے فیصلے تیس دن میں کیے جائیں۔ طویل مدت سے جاری تمام حکم امتناعی ختم کیے جائیں۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کوئی کسی کی زمین پر ناجائز قابض ہے تو اسے جیل بھیج کر اس پر ایف آئی آر درج کروا دی جائے۔ ہائی کورٹ کو ہدایت کرتیں کہ سول کورٹ کے خلاف اپیل دس دن میں سنی جائے اور فیصلہ کیا جائے۔
وہ اس قانون کو معطل کرتے ہوئے پنجاب کی عوام کو یہ پیغام دیتیں کہ عدالتیں ان کو جلد انصاف دینے کے لیے حاضر ہیں ۔ اس لیے عدالتوں کے متوازی قانون کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن ابھی تو صورتحال یہ ہے کہ عدالتوں سے بھی مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو رہا۔ اور حکومت کو بھی ایکشن کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ جب عدالتوں نے بھی فیصلہ ریونیو ریکارڈ پر ہی کرنا ہے تو پہلے ریونیو افسران کو کام کرنے دیا جائے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ سول کورٹس اصل میں ریونیو افسران کے کام میں مداخلت کر رہی ہیں۔
میں ایک سچی مثال سامنے رکھتا ہوں۔ ایک کرایہ دار نے ایک جعلی بیع نامہ بنا کر سول کورٹ سے حکم امتناعی لے لیا کہ مالک مکان نے مجھ سے رقم لے لی ہے۔ اس نے بیع نامہ کیا ہے لیکن اب رجسٹری نہیں کر رہا ہے۔ دوسری طرف بیع نامہ جعلی ہے۔ اس پر دستخط جعلی ہیں۔
سول کورٹ کا طریقہ کار یہی ہے کہ وہ حکم امتناعی دے دیتے ہیں۔ زمین کا اصل مالک عدالت پہنچا۔ اس نے کہا کہ بیع نامہ جعلی ہے، فرانزک کرالیں۔ لیکن عدالت کا طریقہ کا رہی مختلف ہے۔عدالت کہتی ہے، پہلے جواب دعویٰ دیں۔ حکم امتنا عی کی درخواست کا جوا ب دیں۔ پھر جب شہادت کا موقع آئے گا تو آپ دوران شہادت اس بیع نامہ کے فرانزک کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ عدالت اس وقت کرے گی کہ فرانزک ضروری ہے کہ نہیں۔ اور آپ یقین کر لیں کہ مقدمہ شہادت تک پہنچنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔
اب اس قانون کو دیکھیں۔ یہاں ریونیو افسران کے سامنے ملکیت کا فیصلہ پہلے دن ہو جاتا ہے۔ کسی تاریخ پر تاریخ کی ضرورت نہیں۔ فرانزک پر پہلے دن جاتا ہے۔ قبضہ گروپ کو پتہ ہے کہ ایف آئی آر بھی ساتھ ہی درج ہوگی۔ نہ صرف قبضہ چھڑایا جائے گا بلکہ جیل بھی بھیجا جائے گا۔ میری ذاتی علم ہے کہ اس قانون کے بعد میرے ایک جاننے والے نے لاہور میں اپنے فلیٹ پر قبضہ کی درخواست دی تو قبضہ گروپ معاملہ حل کرنے پہنچ گیا۔ پیسے دینے کو تیار ہو گیا۔ اس کو جیل نظر آرہی تھی۔ وہ پریشان ہوگیا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ بے شک چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے آرڈیننس کو معطل کر دیا ہے۔ لیکن اگر عوامی سروے کروایا جائے تو لوگ اس قانون کے حق میں ہیں۔ عوام اس قانون کے حق میں ہیں۔
میں ایک اور مثال دیتا ہوں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ پنجاب میں سی سی ڈی خلاف قانون کام کر رہی ہے۔ لیکن لوگ سی سی ڈی سے خوش ہیں۔ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ سی سی ڈی خلاف قانون کام کر رہی ہے۔ یہ ’’ہاف فرائی‘‘، ’’فل فرائی‘‘ کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن جس باپ کی بیٹی کو راہ چلتے ہراساں کیا جاتا ہے۔ وہ اپنی عزت کی خاطر چپ رہتا ہے ۔ وہ ہاف فرائی فل فرائی سے خوش ہے۔ سی سی ڈی نے مجرموں پر ایک خوف پیدا کر دیا ہے۔ آپ بدمعاشوں کو دیکھ لیں۔ یہ سب قانون کی عدالت سے بچ جاتے تھے۔ لیکن اب پنجاب میں بد معاشی کلچر ختم ہوگیا ہے ۔کراچی میں بھتہ کی پرچیاں آرہی ہیں۔ پنجاب ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ عدالتوں کا خوف نہیں۔ عدالتیں سندھ اور پنجاب کی ایک جیسی ہیں۔ یہ انداز حکمرانی کا فرق ہے۔
مریم نواز کے انداز حکمرانی نے لوگوں کے مسائل جلد حل کرنے کی راہ نکالی ہے۔ مجرم عدالت سے بچ جاتے تھے۔ ضمانتیں مل جاتی تھیں۔ نظام عدل کو یہ احساس نہیں کہ جب مجرم ضمانت پر باہر نکلتا ہے تو مدعی کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ اس پر کتنا دباؤ ڈالتا ہے۔ اس کو اپنی بدمعاشی سے مزید ڈراتا ہے۔ سی سی ڈی نے عام آدمی کو بر وقت انصاف دیا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ وہ قانونی نہیں۔ لیکن لوگوں کو اس سے غرض نہیں کہ قانونی ہے یا غیر قانونی لوگوں کے مسائل حل ہو رہے ہیں۔ منشیات فروشی کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عدالت سے منشیات فروش بھی بچ جاتے تھے ۔ اب ختم ہو رہے ہیں۔ لوگ خوش ہیں۔ اس لیے یہ سمجھنا ہوگا کہ مریم نواز کا انداز حکمرانی عوام کے مسائل حل کر رہا ہے۔ لوگ تجاوزات کے خاتمہ سے خوش ہیں۔ لوگ خوش ہیں تو حکمران کامیاب ہے۔