اوتار: فائر اینڈ ایش... ایک طویل مگر مایوس کن واپسی (فلم ریویو)

جیمز کیمرون کی سائنس فکشن سیریز کی تازہ فلم پر تنقیدی نظر


ویب ڈیسک December 24, 2025

جیمز کیمرون کی مشہورِ زمانہ سائنس فکشن فرنچائز کی تیسری فلم ’’اوتار: فائر اینڈ ایش‘‘ ریلیز ہوچکی ہے، مگر ناقدین کے مطابق یہ فلم نہ صرف سیریز کی سب سے طویل بلکہ اب تک کی بدترین قسط ثابت ہوئی ہے۔

تقریباً 197 منٹ پر محیط یہ فلم شاندار گرافکس کے باوجود کمزور مکالموں، بے ربط کہانی اور حد سے زیادہ خود پسندی کا شکار دکھائی دیتی ہے۔


بلاک بسٹر سیریز، مگر سوالیہ نشان

’اوتار (2009)‘اور ’اوتار: دی وے آف واٹر‘ دنیا کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلموں میں شامل ہیں، اس لیے جیمز کیمرون کی جانب سے اس سلسلے کو آگے بڑھانا حیران کن نہیں۔ مگر فائر اینڈ ایش دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید اس سیریز کو یہیں روک دینا بہتر تھا۔ ہر نئی فلم نہ صرف پچھلی سے زیادہ طویل ہو رہی ہے بلکہ معیار میں بھی کمی آتی جا رہی ہے۔

یہ تصور ہی خوفناک لگتا ہے کہ کیمرون نے ابھی مزید دو سیکوئلز بنانے کا ارادہ بھی ظاہر کر رکھا ہے۔


مکمل فلم، مگر ادھوری کہانی

اتنے طویل دورانیے کے باوجود یہ فلم ایک مکمل کہانی کا تاثر دینے میں ناکام رہتی ہے۔ نہ واضح آغاز، نہ مضبوط درمیانی حصہ اور نہ ہی اطمینان بخش اختتام۔ فلم ساز یہ فرض کرلیتے ہیں کہ ناظرین پہلے ہی کرداروں، ان کے رشتوں اور پنڈورا کی دنیا سے گہری واقفیت رکھتے ہیں، اس لیے نئے یا عام ناظر کے لیے فلم میں جڑنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔


پہلی اوتار کا جادو کہاں گیا؟

پہلی اوتار فلم میں زمین کے انسانوں اور پنڈورا کے نیلے رنگ کے باسی ناوی قبیلے کے درمیان ٹکراؤ، ماحولیات کا پیغام اور جیک سلی (سام ورتھنگٹن) اور نیٹیری (زوئی سالڈانا) کی محبت کی کہانی نے ناظرین کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ سادہ الفاظ میں یہ فلم ’پوکا ہونٹس خلا میں‘ جیسا تاثر دیتی تھی، جو دلچسپ بھی تھا اور بامعنی بھی۔ مگر فائر اینڈ ایش میں وہ کشش کہیں کھو گئی ہے۔


مرکزی کردار پیچھے، بچے آگے

اس بار کہانی کا مرکز جیک اور نیٹیری کے بجائے ان کے نوعمر بچے بن گئے ہیں۔ یہی فیصلہ فلم کے لیے سب سے بڑی کمزوری ثابت ہوتا ہے۔ نہ یہ کردار واضح شناخت رکھتے ہیں اور نہ ہی ناظرین ان سے جذباتی طور پر جڑ پاتے ہیں۔ اکثر مناظر میں یہ سمجھنا بھی مشکل ہوجاتا ہے کہ کون سا بچہ کون ہے، اور تقریباً سبھی یکساں حد تک جھنجھلاہٹ کا باعث بنتے ہیں۔


گرافکس بہت، جان کم

اگرچہ فلم میں بڑے بڑے معرکے، اڑتے ڈریگنز اور رنگین مناظر شامل ہیں، مگر سب کچھ حد سے زیادہ مصنوعی محسوس ہوتا ہے۔ پنڈورا اب نیا نہیں لگتا۔ نو گھنٹے سے زائد وقت اس دنیا میں گزارنے کے بعد وہ حیرت باقی نہیں رہی جو پہلی فلم میں تھی۔

کہیں کہیں فلم ایک سنجیدہ ماحول دوست تھرلر بننے کے قریب پہنچتی ہے، مگر فوراً ہی یہ تاثر کسی لمبے، بے جان مکالمے یا روحانیت سے بھرپور منظر میں گم ہو جاتا ہے۔


جدید فلم میں ماضی کی ٹیکنالوجی

ایک وقت تھا جب تھری ڈی اور موشن کیپچر ٹیکنالوجی انقلابی سمجھی جاتی تھی۔ مگر اب یہ انداز پرانا لگنے لگا ہے۔ فائر اینڈ ایش کے مناظر بعض اوقات کسی پرانے آرکیڈ گیم جیسے محسوس ہوتے ہیں، جہاں خطرے کا احساس ہی ختم ہو جاتا ہے۔

جب کسی ناوی کردار کو فضا میں ڈریگن سے گرتے دیکھا جاتا ہے تو بھی سنسنی پیدا نہیں ہوتی، کیونکہ سب کچھ اتنا غیر حقیقی دکھائی دیتا ہے۔


آگے مزید کیا ہوگا؟

چونکہ مزید دو اوتار فلمیں بھی منصوبے میں شامل ہیں، اس لیے یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا واقعی کسی اہم کردار کو کوئی نقصان پہنچے گا؟ اگر یہ سلسلہ اسی رفتار اور انداز سے آگے بڑھا تو ناظرین کے لیے یہ چھ مزید گھنٹے شاید چھ گھنٹوں سے کہیں زیادہ طویل محسوس ہوں۔


اوتار: فائر اینڈ ایش ایک ایسی فلم ہے جو دیکھنے میں تو بڑی اور شاندار ہے، مگر دل و دماغ کو متاثر کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ یہ فلم اس بات کی مثال بن گئی ہے کہ صرف گرافکس اور لمبائی کسی کہانی کو یادگار نہیں بنا سکتے۔ انٹرٹینمنٹ کے شائقین کے لیے یہ ایک مایوس کن تجربہ ثابت ہو سکتی ہے، خاص طور پر ان کے لیے جو پہلی اوتار کے سحر کو اب تک نہیں بھولے۔

(نکولس باربر کی انگریزی تحریر سے ترجمہ)

مقبول خبریں