دسمبر کے صدمات!

اہل وطن 25 دسمبر کو قائد اعظم کا جشن ولادت مناتے ہیں تو دوسری جانب 16 دسمبر کو مشرقی بازو کٹ جانے کا دکھ اور برسی بھی مناتے ہیں


ایم جے گوہر December 26, 2025

دسمبر کا مہینہ پاکستان کی قومی زندگی میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اسی ماہ کی 25 تاریخ 1876 کو قائد اعظم محمد علی جناح پیدا ہوئے جن کی ولولہ انگیز قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں نے آزادی کی تحریک چلائی اور علامہ اقبال کے تصور پاکستان کو حقیقت کا رنگ دیتے ہوئے 14 اگست 1947 کو اپنے لیے ایک آزاد و خود مختار وطن پاکستان حاصل کیا۔

دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی ذہانت، دیانت اور لیاقت سے تاریخ کا دھارا بدل دیں اور ایسے تو معدودے چند ہی ہوتے ہیں جو انقلابی سوچ اور غیر معمولی و معجزاتی صلاحیتوں کے بل بوتے پر دنیا کا نقشہ بدل دیں۔ قائد اعظم کا شمار ایسے معدودے چند افراد میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی ذہانت، ثابت قدمی اور جذبہ صادق کو بروئے کار لا کر برصغیر کا نقشہ ہی بدل دیا۔ ان کی خداداد صلاحیتوں اور کرشماتی شخصیت کے حوالے سے نہ صرف اپنے بلکہ غیر اور ان کے سیاسی مخالفین بھی ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے۔

جواہر لال نہرو نے جب علامہ اقبال سے یہ کہا کہ’’ آپ اسلامیان ہند کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لیں‘‘ تو علامہ نے جواب دیا کہ ’’ہماری کشتی کا ناخدا صرف مسٹر محمد علی جناح ہے اور میں اس کی فوج کا ایک ادنیٰ سپاہی ہوں۔‘‘ مسز وجے لکشمی پنڈت، جو اندرا گاندھی کی پھوپھی تھی کا کہنا ہے کہ اگر مسلم لیگ کے پاس سو گاندھی اور دو سو ابوالکلام آزاد ہوتے اور کانگریس کے پاس ایک لیڈر محمد علی جناح ہوتا تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا۔ برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل کے بقول مسٹر جناح اپنے ارادوں اور اپنی رائے میں بے حد سخت ہیں اور وہ مسلم قوم کے لیے مخلص رہنما اور سچے وکیل ہیں۔

قائد اعظم کی صلاحیتوں اور خوبیوں کا اعتراف ہر سطح پر کیا جاتا رہا ہے۔ انھوں نے سخت محنت و جدوجہد کرکے پاکستان بنایا لیکن ان کے بعد آنے والے عاقبت نااندیش حکمرانوں نے قائد کے پاکستان کے ساتھ ایسے ایسے سیاسی، آئینی اور قانونیکھلواڑ کیے کہ اسی ماہ دسمبر کی 16 تاریخ 1971 کو سقوط بنگال کا المناک سانحہ رونما ہوا اور قائد کا پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا۔

اہل وطن 25 دسمبر کو قائد اعظم کا جشن ولادت مناتے ہیں تو دوسری جانب 16 دسمبر کو مشرقی بازو کٹ جانے کا دکھ اور برسی بھی مناتے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ ہمارے اکابرین حکومت اور ارباب سیاست ہر سال 16 دسمبر کو قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ آیندہ ایسے دلخراش سانحے سے بچنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔ لیکن افسوس کہ آج نصف صدی سے زائد عرصہ گزر گیا سقوط ڈھاکہ کی ذمے داری کسی فریق نے قبول نہ کی، نہ کسی کا کورٹ مارشل ہوا نہ کسی کو انصاف کے ایوانوں سے سزا کا حکم جاری ہوا۔ نتیجتاً معاملات و حالات رواں دواں رہے اور ایسے حوادث کو جنم دینے کا سبب بنتے رہے ہیں جو سانحہ بنگال جیسے کسی دردناک واقعہ کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔ لیکن مقام شکر و اطمینان کہ پاکستان قائم ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا ان شا اللہ تعالیٰ!

بس! افسوس اور دکھ یہ ہے کہ دسمبر میں حوادث رونما ہو رہے ہیں 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے مستقبل کے 132 ننھے نونہالوں اور علم کی روشنی پھیلانے والے 9 اساتذہ کو شہید کر دیا۔ قوم ہر سال 16 دسمبر کو سقوط بنگال کے پہلو بہ پہلو سانحہ پشاور معصوم بچوں کے دکھوں کو بھی تازہ کرتی ہے۔

حسب سابق ارباب حکومت آیندہ ایسے سانحات کی روک تھام کی یقین دہانیاں کراتے ہیں لیکن افسوس کہ دہشت گردی کا یہ سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ بجا فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں پاک فوج دہشت گردوں کے دو اہم سلسلوں فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے خلاف پوری قوت اور سرعت کے ساتھ کارروائیاں کر رہی ہے لیکن افغانستان کی پراکسی بن کر ہندوستان کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی کی وقفے وقفے سے جو کارروائیاں کر رہا ہے اس کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ پاک فوج بھارت کے خلاف مئی25 جیسے کسی ’’بنیان مرصوص‘‘ معرکے کا آغاز کرے۔

دسمبر کا ایک دکھ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا ہے جب 27 دسمبر 2007کو راولپنڈی میں دہشت گردوں نے ملک کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل، اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم اور پاکستان کی سب سے زیادہ مقبول سیاسی لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا تھا۔

بے نظیر کی اچانک شہادت نے ملک کے سیاسی حلقوں میں ایک ہلچل اور خلا پیدا کر دیا تھا۔ انتشار عروج پر تھا۔ ایسے نازک موقع پر آصف زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر تیزی سے بڑھتے سیاسی و عوامی درجہ حرارت کو یکدم نیچے کر کے پارٹی کی بقا اور ملک کی سالمیت کے لیے مدبرانہ کردار ادا کیا۔ بے نظیر بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی فلسفے کی وارث تھیں۔ اگرچہ کے ایک آمر جنرل ضیا الحق نے ان کے والد کی حکومت کا تختہ الٹا۔ ملک کو مارشل لا کے اندھیروں میں دھکیل دیا اور بھٹو کو پھانسی دی لیکن بے نظیر بھٹو نے انتقام لینے اور محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کی پالیسی اپناتے ہوئے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کی اقتدار سے معزولی سے لے کر پھانسی اور پھر اپنی شہادت تک جمہوریت کی بحالی، عوام کی خوشحالی اور ملک کی سلامتی و ترقی کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔

قید و بند کی صعوبتوں سے لے کر جلاوطنی تک اور اسلامی دنیا کی پہلی وزیر اعظم بننے سے لے کر اپنی شہادت تک طویل سیاسی جدوجہد کی۔ وہ اپنے والد کے سیاسی فکر و فلسفے کی وارث تھیں۔ آج پاکستان کی سیاست میں بڑی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ جمہوری نظام کو ہائبرڈ نظام سے بدل دیا گیا ہے اور پیپلز پارٹی بھی ’’ہائبرڈ نظام‘‘ کا حصہ بن کر اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہے۔ بظاہر آئین، قانون، پارلیمنٹ، عدلیہ، انتظامیہ، میڈیا اور سول سوسائٹی کے تمام کردار موجود ہیں لیکن جمہوریت کی اصل روح بے قرار ہے۔ بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی روحوں کو قرار کیسے آئے گا۔ دسمبر کے صدمات میں نہ جانے ابھی اور کتنے صدمات خوابیدہ ہیں۔

مقبول خبریں