2025 میں دنیا بھر کی اہم جنگوں اور تنازعات کی تفصیلات، کتنے لاکھ افراد موت کا شکار ہوئے؟

ان تنازعات کے سب سے بڑے اثرات انسانی جانوں کے ضیاع، اذیت اور تباہی کی صورت میں سامنے آئے ہیں


ویب ڈیسک December 28, 2025

حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں شدید اور دور رس تنازعات کا ایک ایسا سلسلہ دیکھنے میں آیا ہے جو کئی دہائیوں میں پہلی بار اس پیمانے پر سامنے آیا ہے۔

2025 میں یوکرین، غزہ اور سوڈان کی جنگیں اپنے تیسرے یا چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہیں، جبکہ اب تک ہونے والی امن بات چیت ناکام ثابت ہوئی ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران مشرقی جمہوریہ کانگو (DRC) میں لڑائی میں شدت آئی، مئی میں ایٹمی طاقتوں بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک مختصر جنگ ہوئی، اور مشرقِ وسطیٰ کے وسیع تر بحران میں نمایاں توسیع دیکھنے میں آئی۔

ان تنازعات کے سب سے بڑے اثرات انسانی جانوں کے ضیاع، اذیت اور تباہی کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ 2020 کی دہائی میں اب تک لاکھوں افراد براہِ راست جنگوں میں مارے جا چکے ہیں؛ جبکہ اس سے کہیں زیادہ لوگ زخمی، بے گھر، یتیم، بھوکے، تشدد کا شکار اور ذہنی صدمات میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ شدید تباہی کے باعث بعض خطے شاید کبھی مکمل طور پر بحال نہ ہو سکیں۔

کئی ممالک اپنی فوجی سرمایہ کاری اور صلاحیتوں میں اضافہ کر رہے ہیں، جبکہ ان جنگوں کے اثرات عالمی سطح پر سماجی اور معاشی مسائل کو جنم دے رہے ہیں۔ تاہم، دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے سفارتی اور انسانی ہمدردی کی کوششوں کو شدید متاثر کیا ہے، جس کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان ان لوگوں کو ہو رہا ہے جو پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔


روس-یوکرین جنگ

روس اور یوکرین کی جنگ، خاص طور پر فروری 2022 میں روس کے مکمل حملے کے بعد، دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ کی سب سے بڑی جنگ بن چکی ہے۔ دونوں جانب ہلاکتوں کے درست اعداد و شمار واضح نہیں، تاہم مغربی ذرائع کے مطابق 2022 سے اب تک تقریباً 3 لاکھ 50 ہزار افراد براہِ راست اس جنگ میں مارے جا چکے ہیں۔

ان اندازوں کے مطابق تقریباً 2 لاکھ 50 ہزار روسی فوجی ہلاک ہوئے، جبکہ شہری ہلاکتیں چند سو کے قریب ہیں۔ دوسری جانب یوکرینی فوجی ہلاکتیں تقریباً 1 لاکھ کے قریب ہیں، جبکہ شہری ہلاکتوں کی تعداد 15 ہزار تک بتائی جاتی ہے۔ مجموعی جانی نقصان (یعنی ہلاکتیں، زخمی، لاپتہ یا قیدی) روس کی جانب تقریباً 10 لاکھ اور یوکرین کی جانب تقریباً 5 لاکھ کے قریب ہے۔

اس کے علاوہ، 50 لاکھ سے زائد یوکرینی شہری دیگر ممالک میں بطور مہاجر رہ رہے ہیں، جبکہ 2025 کے آغاز تک تقریباً 40 لاکھ افراد اندرونِ ملک بے گھر تھے۔ 2025 کے وسط تک روس یوکرین کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ علاقے کے تقریباً 20 فیصد حصے پر قابض ہے۔ یوکرین کو ہونے والا معاشی نقصان تقریباً 590 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جو جنگ سے قبل یوکرین کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) سے تین گنا زیادہ ہے۔

 

2023 میں تعطل کے بعد، روس نے 2024 اور 2025 میں بتدریج علاقائی پیش رفت کی۔ اگست 2024 میں یوکرین نے روس کے کرسک خطے میں اچانک حملہ کیا اور ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں تقریباً 1,000 مربع کلومیٹر علاقہ حاصل کر لیا، تاہم دسمبر تک اس کا نصف سے زائد علاقہ واپس لے لیا گیا اور 2025 کے وسط تک یوکرین کے پاس صرف ایک چھوٹا سا حصہ باقی ہے۔

یہ حملہ جزوی طور پر روسی افواج کو یوکرین کے اہم محاذوں سے ہٹانے اور جوابی کارروائی کے مواقع پیدا کرنے کے لیے کیا گیا تھا، تاہم روس نے دیگر علاقوں سے کمک بلا کر اور شمالی کوریا کی زمینی افواج کی مدد سے اس حملے کو پسپا کر دیا۔

2025 کا آغاز یوکرین کے لیے شدید غیر یقینی صورتحال کے ساتھ ہوا، کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ امریکی صدر منتخب ہو گئے، جو یوکرین کی حمایت پر اکثر تنقید کرتے رہے ہیں۔ جنوری میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ٹرمپ کی یوکرین کے لیے عوامی حمایت اور صدر زیلنسکی کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھاؤ رہا، خاص طور پر فروری میں وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ایک براہِ راست نشریاتی ملاقات کے دوران، جب ٹرمپ اور نائب صدر وینس نے زیلنسکی پر کھلے عام سخت تنقید کی، جبکہ فوجی امداد کی ترسیل میں بھی تاخیر ہوئی۔

اس کے باوجود، امریکہ بدستور یوکرین کا سب سے بڑا بین الاقوامی حامی ہے اور اپریل میں طے پانے والے ایک طویل المدتی معدنیات اور وسائل کے معاہدے سے فائدہ اٹھانے جا رہا ہے۔ دیگر مغربی ممالک نے بھی فوجی امداد میں اضافہ کیا ہے، اور وقت کے ساتھ کئی ممالک نے یوکرین کو روس کے اندر اہداف پر حملے کے لیے ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت دے دی ہے۔

2025 میں دونوں فریقین نے میزائل اور ڈرون حملوں میں نمایاں اضافہ کیا، اور جنگ کے سب سے بڑے ڈرون حملے 2025 کے پہلے نصف میں دیکھنے میں آئے۔ یہ شدت ممکنہ طور پر امن مذاکرات میں برتری حاصل کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔ 2025 میں امن بات چیت میں کچھ پیش رفت ہوئی، جس کے نتیجے میں توانائی کے ڈھانچے اور بحیرہ اسود میں تین ہفتے کی جنگ بندی، اور ایسٹر پر 30 گھنٹے کی جنگ بندی ہوئی، تاہم مستقل امن معاہدے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔


اسرائیل-فلسطین

اگست 2025 کے آغاز تک، غزہ پر اسرائیل کے 20 ماہ طویل حملے میں سرکاری اسرائیلی اور فلسطینی ذرائع کے مطابق 70 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 1,700 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 7 اکتوبر کے حملے میں مارے گئے 1,200 اسرائیلی شامل ہیں۔ تاہم دیگر ذرائع کے مطابق یہ اعداد و شمار مختلف ہیں، اور اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد بہت کم بتائی جا رہی ہے، کیونکہ ہزاروں افراد اب بھی لاپتہ ہیں اور بیماری، غذائی قلت اور صحت کے نظام کی تباہی سے ہونے والی اموات کو شمار نہیں کیا گیا۔

غزہ میں تباہی اور امداد کی کمی نے دنیا کے گنجان آباد ترین علاقوں میں سے ایک میں انسان ساختہ بدترین انسانی بحران پیدا کر دیا ہے۔ اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث لوگوں اور امداد دونوں کی نقل و حرکت شدید طور پر محدود ہے۔ حملے کے آغاز سے اب تک غزہ کی 90 فیصد سے زائد آبادی بے گھر ہو چکی ہے، اکثر کئی بار۔ تمام آبادی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے، جبکہ تقریباً ایک چوتھائی آبادی قحط کے خطرے سے دوچار ہے۔

70 فیصد سے زائد عمارتیں (اور 92 فیصد رہائشی مکانات) تباہ یا شدید متاثر ہو چکے ہیں۔ غزہ کے نصف سے زائد اسپتال اور صحت کے مراکز بند ہو چکے ہیں، اور جو فعال ہیں وہ بھی جزوی طور پر کام کر رہے ہیں۔

 

اسرائیل نے حملہ حماس کو ختم کرنے اور 7 اکتوبر کو یرغمال بنائے گئے 251 افراد کی رہائی کے مقصد سے شروع کیا تھا۔ جون 2025 کے وسط تک، 50 یرغمالی اب بھی غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے صرف 23 کے زندہ ہونے کا امکان ہے۔ اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی فوج کے تقریباً 425 اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے 20 ہزار سے زائد حماس جنگجوؤں کو ہلاک کیا ہے۔

2025 کے آغاز میں دو ماہ کی جنگ بندی ہوئی، جس کے تحت یرغمالیوں کی مرحلہ وار رہائی، ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی رہائی، امداد میں اضافہ اور مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات شامل تھے، تاہم یہ جنگ بندی پہلے مرحلے سے آگے نہ بڑھ سکی اور اسرائیل نے 18 مارچ کو دوبارہ حملے شروع کر دیے۔

جنوری 2025 میں اسرائیل نے UNRWA کو فلسطین میں کام کرنے سے روک دیا، یہ الزام عائد کرتے ہوئے کہ یہ ادارہ حماس کے لیے فرنٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ فروری سے اسرائیل اور امریکہ کی حمایت یافتہ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) نے UNRWA کی جگہ لی، تاہم اس پر شدید تنقید ہوئی، کیونکہ مئی اور جون میں امداد حاصل کرنے کے دوران 500 سے زائد فلسطینی مارے گئے۔

یہ تنازع صرف غزہ تک محدود نہیں رہا، بلکہ مغربی کنارے میں بھی اکتوبر 2023 کے بعد تشدد میں شدید اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے، جن میں بڑی تعداد آبادکاروں کے تشدد کے باعث ہوئی۔


2023 کے بعد مشرقِ وسطیٰ کا بحران

مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے ایران، لبنان، شام اور یمن کے ساتھ تنازعات میں ہزاروں افراد ہلاک اور دسیوں ہزار زخمی ہوئے۔ سب سے زیادہ جانی نقصان لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ جنگ کے دوران ہوا، جہاں سرحد پار حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک اور دونوں جانب لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔

 

2024 کے اواخر میں اسرائیل کی دو ماہ طویل زمینی کارروائی کے بعد لبنان میں ایک وسیع تر بفر زون قائم کیا گیا، جس کے بعد نومبر 2024 میں جنگ بندی طے پائی، اگرچہ فضائی حملے جاری رہے۔

دسمبر 2024 میں شام میں اسد حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں سے آگے اپنی بفر زون میں توسیع کی اور سابقہ حکومتی فوجی اڈوں پر حملے کیے، جس سے نئی حکومت کی دوبارہ مسلح ہونے کی صلاحیت محدود ہو گئی۔ جون 2025 تک نئی شامی حکومت اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کی خواہاں نظر آتی ہے۔

یمن میں حوثی ملیشیا نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خلاف احتجاجاً اسرائیل اور مغربی تجارتی جہازوں پر میزائل حملے کیے۔ 2024 میں امریکہ اور برطانیہ نے اسرائیل کی حمایت کی، تاہم 2025 میں ایک جنگ بندی کے بعد کشیدگی میں کمی آئی۔

ایران اسرائیل جنگ

2025 کا سب سے اہم واقعہ اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 روزہ جنگ تھی۔ 13 جون 2025 کو اسرائیل نے ایران پر اچانک فضائی حملے کیے، جن میں اعلیٰ فوجی، سیاسی رہنما اور جوہری سائنسدان مارے گئے۔

 

ایران کے مطابق 600 سے 1,000 افراد ہلاک ہوئے، جبکہ اسرائیل میں تقریباً 30 افراد مارے گئے۔ 22 جون کو امریکہ نے بھی ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کیے، جن میں فردو کی زیرِ زمین تنصیب شامل تھی۔ 24 جون کو جنگ بندی نافذ ہوئی اور اس کے بعد کشیدگی کم ہو گئی۔


سوڈان کی خانہ جنگی

سوڈان کی خانہ جنگی اپریل 2025 میں اپنے تیسرے سال میں داخل ہو گئی اور یہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران ہے۔ 2024 کے آخر میں اندازاً 1 لاکھ 50 ہزار شہری ہلاک ہو چکے تھے، جبکہ 2025 کے وسط تک مجموعی ہلاکتیں اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ 90 لاکھ افراد اندرونِ ملک بے گھر ہو چکے ہیں، جبکہ 30 لاکھ سے زائد پڑوسی ممالک میں پناہ لے چکے ہیں۔

تقریباً 5 کروڑ آبادی والے ملک میں دو تہائی افراد امداد کے محتاج ہیں، جن میں 1 کروڑ 60 لاکھ بچے شامل ہیں۔ دارفور میں RSF پر نسل کشی، اجتماعی قتل، اجتماعی زیادتیوں اور جنگی جرائم کے الزامات ہیں۔ سوڈان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں قحط کی تصدیق ہو چکی ہے۔ جنوری 2025 میں سوڈانی ڈاکٹروں کی یونین نے رپورٹ کیا کہ 18 ماہ میں غذائی قلت کے باعث 5 لاکھ 22 ہزار شیر خوار بچے ہلاک ہوئے۔

سوڈان میں ملکی فوج اور نیم فوجی دستے کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری ہے

سوڈان میں ملکی فوج اور نیم فوجی دستے کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری ہے

یہ جنگ اپریل 2023 میں RSF اور فوج (SAF) کے درمیان شروع ہوئی۔ مارچ 2025 میں خرطوم پر فوج کے دوبارہ قبضے کو اہم سنگ میل سمجھا گیا۔ RSF دارفور کے بیشتر حصے پر قابض ہے، جبکہ فوج دارالحکومت سمیت باقی علاقوں پر کنٹرول رکھتی ہے۔ کئی علاقائی اور عالمی طاقتوں کی مداخلت نے جنگ کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔


جمہوریہ کانگو (DRC)

2025 میں مشرقی کانگو میں تنازع شدت اختیار کر گیا۔ صرف جنوری اور فروری میں 7,000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ پانچ ملین سے زائد افراد بے گھر ہیں۔ معدنی وسائل پر قبضے کے لیے مسلح گروہ سرگرم ہیں، جن پر جنگی جرائم اور جنسی تشدد کے الزامات ہیں۔ M23 گروہ نے جنوری 2025 میں گوما اور بعد میں بوکاوو پر قبضہ کیا۔

 

جون 2025 میں امریکہ کی ثالثی سے کانگو اور روانڈا کے درمیان معاہدے ہوئے، تاہم M23 اس میں شامل نہیں تھا۔


بھارت-پاکستان تنازع

مئی 2025 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان چار روزہ جنگ ہوئی۔ 22 اپریل کو کشمیر میں ایک حملے میں 26 شہری مارے گئے۔ 7 مئی کو بھارت نے پاکستان پر حملے کیے، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی کارروائی کی۔ دونوں جانب میزائل اور ڈرون حملوں میں بھارت میں تقریباً 30 اور پاکستان میں 50 سے زائد افراد موت کا نشانہ بنے، جن میں 75 فیصد شہری تھے۔ 10 مئی کو جنگ بندی ہو گئی، جو اب تک برقرار ہے۔


میانمار کی خانہ جنگی

2021 سے جاری جنگ میں 80 ہزار سے زائد افراد ہلاک، 30 لاکھ بے گھر اور 10 لاکھ ملک چھوڑ چکے ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے زیادہ منقسم جنگ ہے، جس میں 1,600 سے زائد گروہ شامل ہیں۔

 

فوجی حکومت پر جنگی جرائم، شہریوں پر بمباری اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں۔ مارچ 2025 کے زلزلے کے بعد عارضی جنگ بندیاں ہوئیں، مگر زیادہ تر ٹوٹ گئیں۔


سب صحارا افریقہ میں بغاوتیں

مغربی افریقہ میں نائجر، مالی اور برکینا فاسو میں شدت پسند گروہ سرگرم ہیں۔ تینوں ممالک میں حالیہ برسوں میں فوجی بغاوتیں ہوئیں اور روسی ویگنر گروپ کے ساتھ تعاون کیا گیا۔ دہشت گردی کے پھیلاؤ کا خدشہ دیگر ممالک تک بڑھ رہا ہے۔ نائجیریا، کیمرون، موزمبیق اور صومالیہ میں بھی شدید بدامنی جاری ہے۔ موزمبیق میں 2024 کے متنازع انتخابات کے بعد مظاہروں میں کم از کم 250 افراد مارے گئے۔


مقبول خبریں