عالمی انصاف کے بھروسے نہ رہنا

جرمن عدالتوں میں پہلے ہی اس اصول کی روشنی میں شام ، کانگو اور عراق کے کچھ باشندوں کے مقدمات زیرِ سماعت ہیں


وسعت اللہ خان December 30, 2025

بین الاقوامی جرائم کی عالمی عدالت ( آئی سی سی) کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے گذشتہ برس مئی میں سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جب نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ کے خلاف آئی سی سی نے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے وارنٹ جاری کیے تو ایک مغربی رہنما نے مجھ سے کہا کہ آئی سی سی کے قیام کا مقصد افریقی و ایشیائی آمروں اور پوتن جیسے بدمعاشوں کو سبق سکھانا ہے ، تم تو ہمارے ہی دوستوں پر چڑھ دوڑے۔کریم خان نے اس لیڈر کا نام تو نہیں بتایا تاہم اسرائیلی رہنماؤں کے خلاف وارنٹ جاری ہونے پر کئی ’’ مہذب‘‘ مغربی ممالک نے جس شدید ردِ عمل کا اظہار کیا اس سے کم ازکم ان کی منافقت ضرور ایک بار پھر عریاں ہو گئی۔

اگرچہ ہنری کسنجر ، جارج بش اور ٹونی بلئیر جیسے کرداروں کے بارے میں انسانی حقوق کے ذمے دار حلقے بارہا کہہ چکے ہیں کہ یہ رہنما عالمی عدالتِ انصاف یا بین الاقوامی جرائم کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہونے کی تمام شرائط پوری کرتے ہیں۔مگر یہ بات کم از کم اس وقت ناقابلِ تصور ہے کہ کوئی مغربی رہنما عدالت کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔

ویسے بھی ان عالمی عدالتوں کے اختیار میں رائے دینا ہے۔ان کے فیصلوں کے نفاذ کا اختیار اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پاس ہے جس میں ویٹو طاقتیں بیٹھی ہوئی ہیں۔ یہ عدالتیں جو رولنگز دیتی ہیں ان میں سے اکثر اصل واردات ہونے کے اتنے برس بعد سامنے آتی ہیں کہ دنیا تب تک یہ واقعات بھی بھول چکی ہوتی ہے۔ایسے بیسیوں مقدمات عالمی عدالت کے سامنے پڑے ہیں جن کے بارے میں عشرے گذرنے کے باوجود کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔

مثلاً دسمبر دو ہزار آٹھ میں اسرائیلی وزیرِ اعظم یہود اولمرٹ نے غزہ میں حماس کے خلاف ’’ آپریشن کاسٹ لیڈ ‘‘ شروع کیا۔تین ہفتے کی کارروائی میں تین سو بچوں سمیت ڈیڑھ ہزار فلسطینی شہید ہوئے۔ ہزاروں گھر تباہ ہوئے ، اسپتالوں ، بجلی گھروں ، اقوامِ متحدہ کی پناہ گاہوں ، واٹر پلانٹس ، خوراک کے گوداموں ، اسکولوں اور مساجد کو تاک تاک کے نشانہ بنایا گیا۔اقوامِ متحدہ کی ایک حقائق جو ٹیم نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ شہری آبادی کو اجتماعی سزا دی گئی اور اس پر فاسفورس بم بھی برسائے گئے۔

ایک ماہ بعد فلسطینی اتھارٹی نے بین الاقوامی عدالت میں جنگی جرائم کی چھان پھٹک کی درخواست دائر کی۔عدالت کے پراسکیوٹر نے نکتہ اٹھایا کہ چونکہ فلسطینی اتھارٹی کی اقوامِ متحدہ میں محض ایک مبصر کی حیثیت ہے اور اسے مکمل ریاست کا درجہ حاصل نہیں لہذا اس کی درخواست کی سماعت نہیں ہو سکتی (اسرائیل کبھی بھی آئی سی سی کا رکن نہیں رہا)۔

 حال ہی میں بلجئیم کی ہند رجب فاؤنڈیشن نے ایک جرمن عدالت میں درخواست دی ہے کہ دو ہزار آٹھ میں غزہ پر فوج کشی کے دوران سابق وزیرِ اعظم یہود اولمرٹ کے کردار کا تعین کیا جائے۔یہ درخواست بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت دائر کی گئی ہے۔ان قوانین کے تحت کوئی بھی ملک کسی بھی جنگی مجرم پر نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ’’ یونیورسل حقِ سماعت ‘‘ کے اصول کے تحت مقدمہ چلا سکتا ہے۔

جرمن عدالتوں میں پہلے ہی اس اصول کی روشنی میں شام ، کانگو اور عراق کے کچھ باشندوں کے مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔دنیا کی ایک سو چالیس ریاستیں بین الاقوامی حقِ سماعت کا اختیار استعمال کرنے کی اہل ہیں اور ان میں سے انیس ریاستیں یہ حق استعمال بھی کر رہی ہیں۔

اس وقت اس نوعیت کے لگ بھگ پچانوے کیسز سولہ ممالک میں زیرِ سماعت ہیں۔جب کہ امریکا ، کینیڈا ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، اٹلی اور برازیل سمیت پچیس سے زائد ممالک میں اسرائیلی عہدیداروں اور فوجیوں کے خلاف وکلا کے عالمی نیٹ ورک کی جانب سے انسانیت سوز جرائم کی سماعت کی درخواستیں دائر ہو چکی ہیں۔چنانچہ اسرائیلی عہدیداروں اور فوجیوں کے لیے بیرونِ ملک سفر کے دوران حراست میں لیے جانے کے امکانات خاصے بڑھ گئے ہیں۔

مثلاً برازیل کی ایک عدالت نے ملک میں آئے ہوئے ایک اسرائیلی فوجی کے خلاف سمن جاری کیے تاہم وہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ چنانچہ حکومتِ اسرائیل نے فوجیوں کو بیرونِ ملک غیر ضروری سفر سے پرہیز کا مشورہ دیا ہے۔اسرائیلی فوج نے بھی میڈیا کے لیے ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ فوجیوں کے چہرے واضح نہ دکھائیں اور ان کی پوری شناخت بھی ظاہر نہ کریں۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ریاستی عدالتیں جنگی جرائم میں ملوث ’’ چھوٹی مچھلیوں ‘‘ کو اور بین الاقوامی عدالتیں بڑی مچھلیوں کو کٹہرے میں لانے کی کوشش کریں تو مقدمات کو تیزی سے نمٹایا جا سکتا ہے۔اسرائیلی فوجیوں نے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر غزہ میں ڈیوٹی کے دوران اپنے شرمناک کارناموں کا جو مواد شئیر کیا اب یہی مواد ان کے خلاف گواہی میں استعمال ہو رہا ہے۔ کئی ممالک میں سیاحت پر گئے اسرائیلی فوجیوں کو وہاں کے انسانی حقوق کارکن جب پہچان لیتے ہیں تو ان فوجیوں کو بھاگنا پڑتا ہے۔

کیا آپ نے نازیوں کے شکاری سائمن ویزنتھال کا نام سنا ہے۔وہ نازی کنسنٹریشن کیمپوں سے بچ نکلنے والے خوش قسمت یہودیوں میں سے تھا۔جنگ کے خاتمے کے بعد اس نے نازی جنگی مجرموں کے تعاقب کو مقصدِ حیات بنا لیا اور روپوش نازیوں کی تلاش میں اتحادی افواج کی خاصی مدد کی۔

سائمن نے وی آنا میں جیوش ڈاکومنٹیشن سینٹر بنایا۔ مفرور نازیوں کا جتنا ڈیٹا اس سینٹر کے پاس جمع تھا کہیں اور نہیں تھا۔سائمن کی مدد سے ہی اسرائیلیوں نے انیس سو ساٹھ میں سرکردہ نازی مجرم ایڈولف آئخمین کو ارجنٹینا سے اغوا کیا اور اسے تل ابیب لا کر انیس سو باسٹھ میں پھانسی دے دی۔

آج صورتِ حال یہ ہے کہ جو یہودی نازیوں کو تلاش کر کر کے سزائیں دلوا رہے تھے اب انھیں یہودیوں کے وارثوں کو بطور جنگی مجرم اپنی سلامتی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔وہ آگے آگے اور انسانی حقوق کے کارکن اور وکلا پیچھے پیچھے۔

اچھی بات یہ ہے کہ بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت جنگی جرائم پر مقدمہ چلانے کی مدت لامحدود ہے۔جس نے بیس برس کی عمر میں کوئی جرم کیا وہ نوے برس کی عمر میں بھی اتنا ہی بڑا مجرم تصور ہو گا تاوقتیکہ وہ اپنی سزا نہ بھگت لے یا پھر بری کر دیا جائے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

مقبول خبریں