مناظرہ… دلائل اور شواہد

عقل اور شعور کا حامل انسان جب دیکھتا ہے کہ صدیوں سے سورج اپنے مدار پر اور زمین اپنے مدار پر گھوم رہی ہے۔ کبھی اس میں معمولی سا بھی تغیّر وتبدّل نہیں ہوا


[email protected]

پچھلے دنوں بھارت کے معروف فلمی شاعر جاوید اختر اور ندوہ کے فارغ التحصیل ایک نوجوان اسکالر مفتی شمائل ندوی کے درمیان جو مباحثہ یا مناظرہ ہوا ، وہ پاکستان میں بھی دلچسپی سے دیکھا گیا۔ ایک تو وجودِ الٰہی کے بارے میں جب بھی اور جہاں بھی بات ہوگی مسلمان اسے دلچسپی سے سنیں گے، دوسرا یہ کہ بھارت میں مودی حکومت نے خاص منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کی زندگی عذاب بنا دی ہے، وہ سماجی، معاشی اور سیاسی طور پر دلّتوں سے بھی نیچے چلے گئے ہیں۔

اب وہ اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت کھو چکے ہیں اور ان کی نئی نسل زندہ رہنے کے لیے اپنے اسلامی نام چھپانے یا تبدیل کرنے پر مجبور ہے، ان دگرگوں حالات میں کچھ معروف لوگوں نے مختلف حربے استعمال کرنا شروع کردیے ہیں، کچھ نے ہندو عورتوں سے شادیاں کرلی ہیں اور کچھ جاوید اختر جیسے اسلام سے لاتعلقی کا اعلان کرتے پھرتے ہیں۔

جاوید اختر اپنے آپ کو مودی سرکار کے ہاں قابل قبول بنوانے کے لیے اللہ کے وجود کا انکار کرتا ہے اور اکثر اسلام اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی بھی کرتا رہتا ہے۔ مئی 2025کی پاک بھارت جنگ کے دوران اُس نے میڈیا پر کہا تھا کہ اگر اسے پاکستان اور دوزخ میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا ہو تو وہ دوزخ کا انتخاب کرے گا۔

اس بیان کے باعث پاکستان کے عوام وخواص میں جاوید اختر کے بارے میں ناپسندیدگی کے جذبات پائے جاتے تھے۔ پہلی نظر میں مناظرہ یا مقابلہ غیر متوازن (Uneven) نظر آتا تھا کیونکہ ایک جانب لفظوں سے کھیلنے والا ایک شاعر اور مکالمہ نگار تھا جو لفاظی کا استعمال خوب جانتا ہے، اور دوسری طرف ایک دینی مدرسے کا پڑھا ہوا نوجوان تھا جن کے بارے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ جدید علوم اور فلسفے سے ناآشنا ہوتے ہیں اور انگریزی زبان کی تو بالکل ہی شدھ بدھ نہیں رکھتے۔ مگر اس مناظرے میں لاکھوں لوگوں نے خود دیکھا کہ نوجوان اسکالر انگریزی اصطلاحات کا استعمال بھی جانتا ہے اور موضوع سے متعلق فلسفیانہ نقاط سے بھی آشنائی رکھتا ہے۔

جاوید اختر نے لفاظی کا سہارا لیا اور وہی گھسے پٹے سوال کیے جو ملحدین صدیوں سے کرتے آرہے ہیں کہ اگر خدا موجود ہے تو دنیا میں برائی کیوں ہے اور لوگ مصائب کا شکار کیوں ہیں؟ کوئی ان عقل کے اندھوں سے یہ پوچھے کہ اگر برائی نہ ہوتی تو اچھائی کا کیسے پتہ چلتا؟ اندھیرا ہی روشنی کو شناخت بخشتا ہے، شر دیکھ کر ہی خیر کی پہچان ہوئی ہے۔ اگر ظلم اور گناہ نہ ہوتا تو پھر یہی دنیا جنّت بن جاتی مگر ان چیزوں کا تو دنیا اور انسانوں کے خالق نے اپنی کتاب میں بڑی تفصیل سے جواب دیا ہے۔

مناظرے میں لوگوں نے حیرت سے دیکھا کہ جاوید کو مفتی شمائل سے کئی الفاظ کا مطلب اور مفہوم پوچھنا پڑا جس سے اس کے سطحی علم اور پست درجے کی دانش کی قلعی کھل گئی اور وہ پوری طرح بے نقاب ہوگیا۔ مفتی شمائل ابھی نوجوان ہیں، عمر کے ساتھ جب ان کے مطالعے اور تجربے میں اضافہ ہوگا تو ان کے دلائل میں مزید پختگی، گہرائی اور گیرائی پیدا ہوگی، مگر اس کے باوجود اس مناظرے میں مفتی شمائل نے جاوید اختر جیسے گھاگ قلمکار کو چاروںشانے چِت کردیا۔ اس کے متنازعہ بیانات کے پس منظر میں ایک نوجوان کے ہاتھوں جاوید اختر کی علمی ٹھکائی بہت اچھی لگی۔

حقیقت یہ ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کا وجود مناطروں اور مباحثوں کا ہرگز محتاج نہیں۔ جن کے دلوں پر مہر لگ چکی ہو، جو لوگ نفرت کی حدوں کو چھوتے ہوئے شدید قسم کے تعصّب کا شکار ہوں وہ تو شاید ’میں نہ مانوں‘ کی ضد پر قائم رہیں، ورنہ وہ لوگ جو عقل اور شعور کو تعصّب کے بغیر استعمال کرتے ہوں، انھیں اپنے اردگرد ہی بیسیوں ناقابلِ تردید شہادتیں مل جائیں گی جو پکار پکار کر ایک قادرِ مطلق کے وجود کی گواہی دے رہی ہیں۔

وجودِ باری تعالیٰ کے منکر، فطرت (Nature) کو ہر چیز کا خالق قرار دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہر چیز مادّے سے وجود میں آئی ہے اور اسی سے پوری کائنات بن گئی ہے۔ مگر مادے میں زندگی کیسے پیدا ہوئی یا اسے زندگی کس نے بخشی؟ اس کا ملحدین کے یا سائنسدانوں کے پاس کوئی جواب نہیں۔ سائنسدان خود تسلیم کرتے ہیں کہ نیچر شعور نہیں رکھتی تو کیا خود شعور سے محروم نیچر کسی مخلوق کو شعور سے بہرہ مند کرسکتی ہے؟ اس کا جواب بھی ناں میں ہی ملتا ہے۔ تو پھر انسان کو شعور کس نے عطا کیا؟ اس کا جواب بھی سائنسدانوں کے پاس نہیں ہے۔ اِن سوالوں کے جواب خالقِ کائنات اپنے پیغمبروں کے ذریعے دیتا ہے۔

عقل اور شعور کا حامل انسان جب دیکھتا ہے کہ صدیوں سے سورج اپنے مدار پر اور زمین اپنے مدار پر گھوم رہی ہے۔ کبھی اس میں معمولی سا بھی تغیّر وتبدّل نہیں ہوا۔ کبھی ان میں کوئی خرابی یا defect پیدا نہیں ہوا، اگر سورج اور زمین کا فاصلہ تھوڑا سا کم ہوتا تو زمین پر موجود ہر چیز جل کر راکھ ہوجاتی اور اگر فاصلہ کچھ زیادہ ہوتا تو ہر چیز جم کر برف بن جاتی، کیا اس سے صاف نظر نہیں آتا کہ کسی نے بہت بڑی پلاننگ کے تحت ہر چیز کو پیدا کیا ہے، ہر جگہ ایک توازن قائم کیا ہے، اور ہر چیز کو اتنی مقدار میں پیدا کیا جتنی انسان کی بقا اور نشونما کے لیے ضروری ہے۔

کیا یہ کسی عظیم الشّان منتظم کاکرشمہ نہیں ہے؟ انسان کی اپنی ساخت پر غور کریں تو ایک جہانِ حیرت کھل جاتا ہے۔ جو ڈاکٹر دل، دماغ، جگر، گردے، آنکھ، کان یا زبان کے تمام functions سے آگاہ ہیں ان سے پوچھیں تو وہ بآواز بلند کہتے ہیں کہ ’’یہ اعضا خود بخود وجود میں آگئے اور اپنے آپ سے انھوں نے اس قدر مشکل اور پیچیدہ فرائض انجام دینے شروع کردیے‘‘، ایسا کہنا یا سوچنا بھی پرلے درجے کی جہالت کے سوا کچھ نہیں۔

انسان کا دماغ (Brain) بذاتِ خود ایک تخلیقی کرشمہ ہے۔ اس میں 86 ارب نیورون ہوتے ہیں۔ یہ ایک عام 20 واٹ کے بلب کی انرجی کے ساتھ ایسے حیرت انگیزفرائض سرانجام دیتا ہے جو شاید سُپر کمپیوٹرز بھی صحیح طور پر انجام نہ دے سکیں۔ انسان کے جگر کو بھی ڈاکٹر (Biological marvel) یعنی انسانی جسم کا ایک ششدر کردینے والا معجزہ قرار دیتے ہیں، انسانی جسم کا یہ عضو پانچ سو مختلف انتہائی اہم اور پیچیدہ قسم کے کام کرتا ہے۔ یہ ایک قسم کا کیمیکل پلانٹ ہے جس میں اربوں سیل ہیں اور جسم کے لیے ضروری انرجی شوگر، گلوکوز اور کولیسٹرول یہی پیدا کرتا ہے۔ یہ ایک منٹ میں ڈیڑھ لٹر خون فلٹر کرتا ہے۔ اس کے فنکشنز میں جس قدر پیچیدگی، اور جس قدر توازن ہے اس کا مشاہدہ کرکے ماہرین دنگ رہ جاتے ہیں،بلاشبہ یہ سب کچھ ایک عظیم خالق اور منتظم کے حسنِ تخلیق کا کرشمہ ہے جسے اس نے بجا طور پر احسنِ تکویم کہا ہے۔

 اور اب سائنس کی جدید ترین تحقیق یہ بتارہی ہے کہ انسان کا دل بھی سوچتا ہے انسانی دل میں 40000 سے زائد نیورونز ہیں اور اب سائنسدان کہہ رہے ہیں کہ دل صرف خون پمپ کرنے والی مشین نہیں بلکہ یہ سوچتا ہے اور فیصلے کرتا ہے۔ یہی بات صدیوں پہلے قرآن میں کہی گئی تھی کہ ’’ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے نہیں‘‘ ملحدین اب تک اس آیت پر اعتراض کرتے رہے ہیں کہ سوچنا سمجھنا تو صرف دماغ کا کام ہے۔

یورپ کی مذہب سے یا خدا سے بغاوت کا ایک خاص پس منظر ہے۔ وہاں صدیوں تک چرچ اور clergy کا شکنجہ بڑا سخت رہا۔ اور عام لوگ اس کے ظلم اور ناانصافیوں کا شکار ہوتے رہے لہٰذا اس کے خلاف تحریک چلائی گئی جو بالآخر چرچ کی بالادستی کے خاتمے پر منتج ہوئی۔ لہٰذا یورپ میں چرچ یا چرچ سے جڑی ہر چیز (بشمول خدا کے) خلاف بڑے منفی جذبات پیدا ہوئے جس کے اثرات ابھی تک قائم ہیں۔ اس لیے وہاں کے سائنسدان تخلیقی معجزات کا مشاہدہ کرنے کے بعد ایک بہت طاقتور ہستی کی موجودگی کو تو تسلیم کرتے ہیں مگر واضح طور پر خدا یا اللہ کے وجود کا اعتراف کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

مناظرے کے بعد پاکستانی لبرلز نے جو دراصل گروہِ ملحدین میں ہی شامل ہیں اپنے اپنے انداز میں ردِّعمل کا اظہار کیا، زیادہ تر نے جاوید اختر کی حمایت کی اور اسے ’’مفید‘‘ مشورے دیے کہ اسے یہ کہنا چاہیے تھا اور یہ کمزور دلیل نہیں دینی چاہیے تھی وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ اللہ پر ایمان رکھنے والا تو ایک ملحد سے ہمدردی نہیں رکھ سکتا، نہ ہی اس کی حمایت کرسکتا ہے۔ جو لوگ ایک ملحد کو مشورے دے رہے ہیں ظاہر ہے کہ وہ خود بھی اُسی کے ہم خیال ہیں۔ فرق یہ ہے کہ یہاں کے ملحد بزدل بھی ہیں اور منافق بھی۔ اس گروہِ منافقین سے جاوید اختر بہرحال بہتر ہے کہ وہ انکار کا اقرار تو کرتا ہے مگر یہاں کے منافقین نے اسلامی عقیدے کا چوغہ بھی پہنا ہوا ہے مگر وہ اپنے اصل عقیدے کا اظہار کرنے کی جرأت نہیں کرتے اور لوگوں کود ھوکا دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

مقبول خبریں