مہا بھارت، پھولتا غبارہ

محمد ذوالقرنین خان  جمعـء 31 اکتوبر 2014

آپ محکمہ انکم ٹیکس میں ملازم ہیں، بینک میں اعلیٰ عہدے پر فائز ایک خوبصورت خاتون سے شادی کرنے پر آپ کو ہتک عزت کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑے، جس میں آپ سے ایک کروڑ روپے کا ہرجانہ طلب کیا جائے تو آپ کی کیفیت کیا ہوگی جب کہ مدعی آپ کے والد بزرگوار ہوں؟ بھارت کی ریاست بہار میں ایک صاحب نے اپنے بیٹے کے خلاف ایسا ہی ایک مقدمہ دائر کیا۔ وجہ یہ ٹھہری کہ ان کے سپوت نے نچلی ذات کی لڑکی سے شادی کرکے 400 سالہ خاندانی سطوت تباہ کر ڈالی۔

ساتھ ہی بیٹے کو حکم ہوا کہ اب اپنے نام کے ساتھ آبائی نام کا استعمال ترک کردے۔ اسی ریاست کے وزیراعلیٰ جیتین رام مانجھی کی ایک مندر میں پوجا وہاں کے کرتا دھرتاؤں کے لیے زحمت بن گئی۔ وزیراعلیٰ کے جانے کے بعد انھیں سارا مندر دھونا پڑا۔ جیتین رام مانجھی کا تعلق دلت ذات سے ہے، نچلی ذات کے ہندو نجس تصور کیے جاتے ہیں، برادری کی اکثریت سے ایک دلت وزیر تو بن سکتا ہے مگر وہ مقام کبھی نہیں پا سکتا جس کا حقدار ایک اونچی ذات کے ہندو کو سمجھا جاتا ہے۔

بھارتی دارالحکومت میں اس سال ابھی تک ریپ کے روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً  5 واقعات کا اندارج ہوا ہے، جن میں زیادہ تر نچلی ذات سے تعلق رکھنے والی خواتین کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ بلاشبہ بھارت سرکار کی جانب سے اس ضمن میں سخت سزاؤں کا اطلاق کیا جا رہا ہے، جس میں سزائے موت بھی شامل ہے۔ مگر عمومی طور پر اونچی ذات والوں کے لیے یہ اتنا سنجیدہ معاملہ بھی نہیں کہ اس جرم پر اتنی سخت سزا پر عمل پیرا ہوا جائے۔ اتر پردیش کے قدآور سیاسی رہنما اور سابق وزیراعلیٰ ملائم سنگھ یادو کا اس بابت دیا گیا بیان بہت دلچسپ ہے۔ ان کا کہنا ہے ’’لڑکے ہیں، لڑکوں سے غلطی ہوجاتی ہے، تو کیا انھیں موت کی سزا دی جانی چاہیے۔‘‘

ذات پات کے اس کٹیلے سماج میں، جہاں اپنے ہم مذہبوں کو شدید تفریق کا نشانہ بنایا جاتا ہو، جہاں ’اتم سے اتم ملے اور ملے نیچ سے نیچ‘ جیسے مقولے پر شدومد سے یقین رکھا جاتا ہو، وہاں دوسرے مذاہب کے لیے کتنی جگہ ہوگی؟ اس پر مستزاد حکومت میں موجود عناصر عقائد کو لے کر تنافر اور انتہاپسندی کو ہوا دے رہے ہیں، خاص طور پر جن کا نشانہ مسلم آبادی ہے، جنھیں معاشرے میں دلتوں جتنا مقام بھی حاصل نہیں۔ مضحکہ خیز الزامات سے جنھیں زچ کیا جا رہا ہے۔

قوم پرستوں کا الزام ہے کہ مسلمان ایک سازش کے تحت ہندو لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر انھیں اپنے مذہب سے متنفر کر رہے ہیں۔ اس حربے کے لیے انھوں نے ’’لو جہاد‘‘ جیسی احمقانہ اصطلاح ایجاد کی ہے۔ جوابی حکمت عملی کے طور پر ہندو لڑکے گھر گھر جا کر اپنی ہم مذہب لڑکیوں کو راکھی باندھ کر انھیں سمجھا رہے ہیں کہ وہ مسلمان لڑکوں سے ہوشیار رہیں جو انھیں بہلانے پھسلانے میں مہارت حاصل کیے ہوئے ہیں۔ حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک رکن اسمبلی دور کی کوڑی لائے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ نوراتری کے تہوار میں ڈانڈیا رقص کے بعد ہر سال چار لاکھ لڑکیاں مسلمان ہوجاتی ہیں۔ اس لیے ایسے تہواروں میں مسلمانوں کی شمولیت پر پابندی عائد کی جائے۔ بہتر یہ ہوتا اگر وہ ہندو لڑکوں پر رقص سیکھنے پر بھی زور دیتے۔

اس سب میں حکومتی بغل بچہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ پیش پیش ہے۔ یہ تنظیم مسلسل اس خدشے کا اظہار کررہی ہے کہ چونکہ مسلمان خاندانی منصوبہ بندی پر یقین نہیں رکھتے اس لیے کہیں ان کی آبادی ہندوؤں کے برابر نہ ہوجائے، لہٰذا وہ چاہتے ہیں ہندو ڈھیر سارے بچے پیدا کریں۔ ماضی میں اس خوف کو لے کر مسلم کش فسادات ہوتے رہے ہیں جن پر مختلف توجیہات کی دبیز چادر ڈال دی گئی۔ کئی دفعہ سیکڑوں لاشیں اٹھانے کے بعد بھی مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ مذہبی رسوم کی ادائیگی پر بھی اعتراض اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ بھوپال میں گزشتہ عیدالاضحیٰ پر مسلمانوں کو تلقین کی گئی کہ وہ گوشت کے بجائے سبزی کھائیں۔ جس پر احتجاج بھی کیا گیا۔ ایک سینئر مرکزی وزیر نے الزام عائد کیا مذبح خانوں میں گوشت کی تجارت سے ہونے والے منافع کا کثیر حصہ دہشتگردی کی کاروائیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس کاروبار میں مسلمانوں کو تفوق حاصل ہے۔

مہا بھارت کی مالا جپنے والے ہر معاملے کو اپنی خودساختہ عینک سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ نریندر مودی نے گجراتی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم منتخب ہوتے ہی وہ بھارت کو مطلوب داؤد ابرہیم کو پاکستان سے لے کر آئیں گے۔ اس تناظر میں بھارت میں ڈی ڈے نامی فلم منظر عام پر آئی، جس میں نریندر مودی کی ناآسودہ خواہش کی آسودگی کا تمام سامان موجود تھا۔ فلم میں اس قدر مبالغہ اور پھکڑپن تھا کہ بھارتی شائقین نے ہی اسے رد کردیا۔ کشمیر جیسے متنازعہ موضوع پر حال ہی میں حیدر نامی فلم بنائی گئی، جس کا لب لباب یہ تھا کہ کشمیر میں آزادی کے لیے جاری جنگ پاکستان کی طرف جھکاؤ رکھنے والے کشمیریوں اور بھارت نواز کشمیریوں کے مابین لڑی جارہی ہے۔ مسلمان ہی مسلمان کو قتل کررہا ہے۔

بھارتی فوج سرحدوں پر صرف دفاع کے لیے موجود ہے۔ آئی ایس آئی کشمیر میں انارکی پھیلانے کا موجب ہے، کشمیری تو بھارت کے سایۂ عاطفت میں خوش ہیں۔ کوئی بھی ہوش مند شخص کسی بھی نزاعی موضوع پر اس قدر جانبداری کا مظاہرہ نہیں کرسکتا جتنا بھارتی فلم حیدر میں جھوٹ اور تنگ نظری دکھائی دیتی ہے۔ جس دیش میں گنگا ہی الٹی بہتی ہو وہاں یہ سب اتنا حیران کن بھی نہیں۔ یقین نہ آئے تو بھارتی نصاب میں شامل کتب کا مطالعہ کرلیا جائے۔

جس میں یہ دعویٰ شامل ہے کہ سٹم سیل (وہ بنیادی خلیات ہیں جو کسی بھی اعضا کی شکل لے سکتے ہیں) پر ایک ہندوستانی ڈاکٹر نے پیٹنٹ حاصل کرلیا ہے اور یہ کارنامہ انھوں نے مہا بھارت کی ہزاروں سال پرانی کہانیوں پر ریسرچ کرکے سر انجام دیا ہے۔ سٹم سیل سے ہی ان بھائیوں کا جنم ہوا تھا جو کورو کہلائے، جن کی 5 پانڈو بھائیوں سے جنگ کا تذکرہ مہا بھارت میں موجود ہے۔ گاڑیوں اور ٹیلی وژن کی ایجاد کے ڈانڈے بھی مہا بھارت کے زمانے سے جا ملتے ہیں۔ دینا ناتھ بترا کی کہانیوں میں اور بھی بہت سے حیرت انگیز انکشافات موجود ہیں۔

ان تمام باتوں سے عیاں ہے کہ ہم ایک ایسے ملک کے ساتھ 1800 میل کی سرحد رکھتے ہیں جو زمینی حقائق سے زیادہ دیو مالائی کہانیوں پر یقین رکھتے ہوئے اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھتا ہے۔ جو معاشی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود سے زیادہ اس بات میں دلچسپی رکھتا ہے کہ ہمسائیوں سے چھیڑ چھاڑ ہوتی رہنی چاہیے۔ پاکستان دشمنی پر تو ووٹ لیے جاتے ہیں۔ ایک ایٹمی طاقت کی حامل مملکت، جس کے پاس بہترین بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی ہے، اسے سبق سکھانے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ دراصل یہ سارا طنطنہ اور اکڑفوں صرف مہا بھارت کی کہانیوں کے مرہون منت نہیں، امریکا کا بھی اس میں خاطر خواہ کردار ہے۔

حالانکہ بھارت کی امریکیوں کی نظر میں کیا حیثیت ہے، نیویارک ٹائمز کے کارٹون سے اس کا اظہار بخوبی ہوتا ہے، جس میں ایک کسان کو گائے کے ساتھ مریخ پر پہنچ کر اس کمرے کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے دکھایا گیا تھا جس میں دو شخص بیٹھے ہوئے بھارت کے مریخ مشن کے بارے میں کچھ پڑھ رہے ہیں اور کمرے پر ایلیٹ اسپیس کلب لکھا ہوا ہے۔ تصویر تضحیک اور تعصب کا انوکھا امتزاج ہے۔ تاریخ شاہد ہے کسی بھی بھارتی وزیراعظم کے امریکا یاترا کے بعد باسی کڑی میں ابال ضرور آتا ہے، سرحدوں پر کشیدگی میں اضافہ ہوجاتا ہے، مذاکرات میں تعطل آجاتا ہے۔ یہ بات امریکا کے خصوصی نمایندے ڈینیئل فیلڈ مین کے بیان سے مزید واضح ہوجاتی ہے، جس میں ناصحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے انھوں نے بھارت سے کہا کہ ’’بھارت کا عالمی قیادت کا خواب پاکستان سے بہتر تعلقات بنائے بنا پورا نہیں ہوسکتا۔‘‘

’عالمی قیادت کا خواب‘ سے امریکا اوربھارت کے عزائم بالکل عیاں ہیں۔ اس طرح کی پھونکوں سے امریکی اس غبارے میں ہوا بھرتے رہتے ہیں، مگر وہ یہ بات بھول جاتے ہیں اگر کسی دن یہ غبارہ پھٹ گیا تو عالمی امن تہہ و بالا کر ڈالے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔