کامیابی کے اسباق
زندگی میں جب بھی کامیابی ملے، اسے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ روزمرہ زندگی کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کیجئے۔
بھارت سے تعلق رکھنے والا عظیم پریم جی کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی دنیا میں کامیاب کاروباری ہے۔
اس کی بین الاقوامی شہرت کی حامل کمپنی، وائپرو کئی حوالوں سے امریکہ کی آئی بی ایم کے ہم پلہ بلکہ کچھ حوالوں سے بہتر جانی جاتی ہے۔ اپنی مصروفیات کے ساتھ ساتھ وہ کاروباری دنیا میں نو واردوں خصوصاً نوجوانوں کو اپنے وسیع تجربات کی روشنی میں کامیابی کے اصولوں پر لیکچر دیتے ہیں۔ زیر نظر مضمون انہی کے ایک لیکچر کی تلخیص ہے۔ لیکچر کا موضوع تھا، زندگی کے میرے تجربات، عظیم پریم جی کے خیالات اور کاروباری اصول اس قدر پر اثر ہیں کہ نہ صرف کاروبار بلکہ روزمرہ کی عام زندگی میں بھی بہت کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں، ملاحظہ فرمائیے۔
ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ کامیابی کے حصول میں کام آنے والی باتوں کا ادراک عموماً ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ان سے فائدہ اٹھانے کا بیشتر وقت گزر چکا ہو۔ مثلاً اب میرے بال سیاہ و سفید ہوچکے، تو مجھے جوانی کی اہمیت کا احساس ہونے لگا ہے۔ سب سے پہلی اور اہم حقیقت جسے میں نے جانا یہ ہے کہ ہمیں اپنی مثبت صلاحیتیں بروئے کار لانی چاہیے جو پروردگار نے ساری مخلوق بالخصوص انسانوں کو عطا کی ہیں۔ کسی کی گفتگو بہت شیریں ہے تو کوئی تحریر میں دوسروں سے بہتر۔ کسی کو جسمانی قوت سے نوازا گیا تو کسی کی ذہنی صلاحیتیں عمدہ ہیں۔
اپنے آپ کو پہچانیے آئیے آپ کو ایک خرگوش کی خیالی کہانی سناتے ہیں۔ جسے ایک سکول میں داخل کرایا گیا۔ دوسرے خرگوشوں کی طرح وہ بھی بہت اونچی اور لمبی چھلانگیں مار لیتا لیکن اسے تیرنا نہیں آتا تھا۔ آخر اسے چھلانگ لگانے میں تو بہت اچھے نمبر ملے لیکن تیرنے میں فیل ہوگیا۔ ماں باپ بہت ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ لعنت بھیجو چھلانگوں پر! اگلے سال صرف تیرنا ہی سیکھو۔ لہٰذا انہوں نے اسے پیراکی سکھانے والے سکول میں داخل کردیا۔ اب دیکھیے کیا ہوا... سال کے آخر میں وہ تیرنا تو کیا سیکھتا، چھلانگ لگانا بھی بھول گیا۔
یہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ خرگوش تیرا نہیں کرتے ثابت یہ ہوا کہ جہاں ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ہم میں کیا خامیاں ہیں، وہیں یہ بھی ازحد ضروری ہے کہ ہمیں اپنے اندر چھپی ان خوبیوں اور توانائیوں کا پورا پورا ادراک ہو جن سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں نواز رکھا ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہمارے کردار کی خوبیاں ہی ہمیں اس قابل بناتی ہیں کہ اپنی خامیوں کو دور کر سکیں۔ محنت کی عادت زندگی میں دوسرا سبق میں نے یہ سیکھا کہ محنت سے کمایا ہوا ایک روپیہ اپنی قدر و قیمت میں ان دس روپیوں سے بہتر ہے جو ہمیں بغیر کوشش کے مل جائیں۔
مجھے اپنے ایک دوست کی بچی کا قصہ یاد ہے جسے باورچی کا بنایا ہوا ناشتہ کبھی پسند نہیں آتا تھا۔ باورچی نے ہزار کوشش کرلی لیکن بچی خوش نہ ہوئی۔ آخر ایک دن میرا دوست اسے ایک بڑے سٹور میں لے گیا اور بنے بنائے ناشتے کے ڈبے دکھا کر کہا کہ پسند کرلو۔ بچی نے ایک درجن ڈبے لیے، ہدایات کے مطابق انہیں مائیکرو ویو میں رکھا اور دو منٹ میں ناشتہ تیار کرلیا۔ اس نے کھایا تو اسے بہت خوش ذائقہ لگا۔ فرق صرف یہ تھا کہ اب اس نے ناشتہ اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ اپنی محنت اور کوشش سے حاصل کیے ہوئے انعام سے بہتر کوئی خوشی نہیں۔ ترکے یا لاٹری سے حاصل شدہ دولت دیرپا ہوتی ہے اور نہ ہی آپ کو حقیقی خوشیاں دے سکتی ہے۔ ناکامیوں سے سبق سیکھیں مجھے زندگی سے تیسرا سبق یہ ملا کہ ذہین سے ذہین طالب علم بھی سو سے زیادہ نمبر نہیں لے سکتا۔ زندگی کامیابی اور ناکامی کے زیروبم ہی کا نام ہے... کبھی آپ کامیاب ہوتے ہو تو کبھی ناکام! کامیابی بہت خوشی کا باعث ہوتی ہے لیکن ہمیں اسے اپنے اوپر اس طرح سوار نہیں کرنا چاہیے کہ وہ غرور بن جائے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوجائے تو جان لیجئے آپ نے ناکامی کی طرف پہلا قدم اٹھالیا۔
زندگی میں جب بھی کامیابی ملے، اسے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ روزمرہ زندگی کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کیجئے۔ ناکامی کی صورت میں اپنی ذات یا کسی اور کو الزام دینے سے بہتر ہے کہ اسے دل سے قبول کرلیں اور غور کریں کہ اس میں آپ کا حصہ کتنا ہے اور بیرونی عناصر نے کیا کردار ادا کیا پھر سبق حاصل کرکے آگے بڑھ جائیں۔ عاجزی و انکساری عاجزی کی اہمیت اور افادیت میری زندگی کا چوتھا سبق ہے۔ بعض اوقات آپ کی زندگی میں اتنا کچھ حاصل ہوجاتا ہے کہ آپ سوچنے لگتے ہیں، آیا میں اس کا اہل بھی ہوں یا نہیں؟
اس موقع پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا بہت ضروری ہے۔ ساتھ ساتھ اپنے والدین، اساتذہ، دوست احباب اور ان تمام لوگوں کا بھی احسان یاد رکھنا چاہیے جن کی محبت اور حوصلہ افزائی کے باعث آپ کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ مزید براں گاہے گاہے ان انسانوں پر بھی نظر دوڑا لیا کریں جو آپ کو حاصل کردہ نعمتوں سے محروم ہیں۔ خوب سے خوب تر کی جستجو زندگی کا پانچواں سبق جو مجھے ملا وہ ہے اپنے کام کو بہترین بنانے کی کوشش... ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں! یہ مقصد پانے کے لیے اپنے سے بہتر اور کامیاب لوگوں کی زندگی میں جھانکیے۔ سوانح حیات پڑھنا ایک دلچسپ اور انتہائی کارآمد مشغلہ ہے۔
یہ جاننے کی کوشش کیجئے کہ وہ لوگ ہم سے کہاں کہاں بہتر ثابت ہوئے۔ اپنی کارکردگی کے حوالے سے تجزیہ کریں کہ کیا آپ بھی مخصوص حالات میں ان جیسے اقدامات ہی کرتے؟ ہمت نہ ہارئیے چھٹا سبق یہ ہے کہ مشکل حالات کا سامنا ہو تو ہمت نہ ہارئیے۔ مشکلات عموماً اچانک آپ کے سامنے آن کھڑی ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں دو ہی راستے ہوتے ہیں... خود کو مجرم گردانتے ہوئے خالی ہاتھ تکتے رہنا یا خود اعتمادی اور ہمت سے نکل جانے کا فیصلہ۔ یاد رکھیے لوہے کی اصل پہچان آگ کی بھٹی سے نکلنے کے بعد ہی ہوتی ہے۔
کبھی ہمت نہ ہاریں۔ ایک دفعہ دیکھا کہ میرے ایک دوست کی بیٹی گتے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جوڑ کر تصویر بنارہی ہے لیکن کامیاب نہ ہوپائی۔ اس کے والد نے کہا کہ بیٹا آج یہ کام آپ سے نہیں ہو رہا، کل کر لینا۔ بچی معصومیت سے بولی ''لیکن ابو سارے ٹکڑے تو موجود ہیں۔ میں آج کیوں نہیں جوڑ سکتی، کل تک چھوڑنے کا فائدہ؟'' اگر ہم اپنے کام میں ثابت قدم رہیں اور ہمت نہ ہاریں تو مشکل سے مشکل مسئلے کا حل ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ لچک دار رویہ اپنائیے میں نے اپنی زندگی سے ساتواں سبق یہ سیکھا ہے کہ ہمیں اپنے رویوں میں لچک پیدا کرنی چاہیے لیکن اصولوں پر کبھی سمجھوتا نہ کیجئے۔
ایک عالم کا قول ہے کہ ذہن کی کھڑکیاں کھلی رکھنی چاہیے لیکن یہ یاد رہے، باہر کی تیز آندھی آپ کو اپنے مقام سے نہ ہٹا دے۔ آپ اپنے اعلیٰ کردار کا ادراک کیجئے اور اقدار پر ثابت قدم رہنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ ان اقدار کا جاننا کوئی مشکل کام نہیں، دیانت داری، نرم دلی اور مستقل مزاجی جیسی خوبیاں جو ہمیں اپنے آباء و اجداد سے وراثت میں ملتی ہیں اور انہیں سنبھالنا اور آگے بڑھانا ہمارا اولین فرض ہونا چاہیے۔ کردار کی خوبیوں کا بیان اتنا اہم نہیں جتنا ان پر عمل کرنا ہے۔
ہمیشہ اچھی عادت اپنائیے آٹھواں اور آخری سبق یہ ہے کہ ہمیں خود پر اتنا اعتماد ہونا چاہیے کہ پوری دنیا مخالفت کرے، تب بھی آپ اپنے صحیح مؤقف پر دلجمعی سے ڈٹے رہیں۔ ایک بااخلاق اخبار فروش کا ایک گاہک روزانہ جب بھی آتا وہ اسے خوش آمدید کہتا۔ لیکن گاہک بغیر جواب دیئے اٹھنی پھینکتا اور اخبار اٹھا کر رعونت سے چلا جاتا۔ دکاندار کہتا ''آپ کا شکریہ، خدا کرے آپ کا آج کا دن اچھا گزرے۔'' لیکن گاہک کوئی نہ دیتا۔ ایک دن اخبار فروش کے ملازم نے اسے سے پوچھا کہ آخر آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ وہ تو آپ کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرتا ہے مگر آپ روزانہ اسے اخلاق سے بلاتے ہیں۔''
دکاندار کہنے لگا ''دیکھو میاں میں اس کی بے اعتنائی کی وجہ سے اپنی اچھی عادت کیوں ترک کردوں؟'' میرے عزیز نوجوانو! میں بھی نوجوانی میں بڑا سرکش تھا اور بعض اوقات یہ سرکشی بغیر کسی مقصد کے ہوتی تھی۔ آج مجھے احساس ہوتا ہے کہ کسی مسئلے کا بہترین حل یہ ہے کہ ہم ٹھنڈے دل سے اس کا جائزہ لیں۔ غصہ یا سرکشی مسئلہ مزید بگاڑ دیتی ہے۔ یاد رکھیے جیت انہی کا مقدر ہوتی ہے جنہیں اپنے جیتنے کا یقین... آج نہیں تو کل۔