نظم کے مقابلے میں غزل زیادہ فنکارانہ ہنر مندی کا تقاضا کرتی ہے، عشرت آفرین

محمود الحسن  جمعرات 13 نومبر 2014
میں جس کراچی میں پلی بڑھی وہاں تو سب کا جیو اور جینے دو کے فلسفے پر یقین تھا، معروف شاعرہ عشرت آفرین سے مکالمہ۔  فوٹو: فائل

میں جس کراچی میں پلی بڑھی وہاں تو سب کا جیو اور جینے دو کے فلسفے پر یقین تھا، معروف شاعرہ عشرت آفرین سے مکالمہ۔ فوٹو: فائل

اردومیں کبھی تویہ حال تھا کہ خواتین کو اپنا اصل نام ظاہر کئے بغیرشاعری چھپوانا پڑتی لیکن رفتہ رفتہ زمانہ رنگ بدلتا چلا گیا اور انھوں نے اپنی موجودگی کا اس قدراحساس دلایاکہ جب کچھ عرصہ قبل ہمارے ہاں یہ سوال اٹھا کہ ہم جس آشوب سے گزر رہے ہیں۔

اردو کے ادیب اس سے بے بہرہ اس اعتبارسے ہیں کہ عصری مسائل کی گونج ان کی تخلیقات میں نہیں اوربقول شخصے، ہولناک خاموشی کا احساس ہوتا ہے، تو اس رائے کو رد کرنے کے لیے ممتاز ادیب انتظار حسین نے خواتین شعراء کی تخلیقات کا حوالہ دے کر بتایا کہ ہمارے لکھنے والے عصری مسائل سے بے اعتنائی نہیں برت رہے۔ ان کے بقول’’ہمارے ادب میں بالخصوص شاعری میں لکھنے والیاں کچھ اس رنگ میں لکھ رہی ہیں جیسے وہ کسی مشن پرنکلی ہوئی ہیں۔‘‘ گذشتہ تین دھائیوں میں جن خواتین نے شاعری کے میدان میں خود کو منوایا، ان میں ایک اہم نام عشرت آفرین کا ہے۔

سحرانصاری کے بقول’’جدیداردو شاعری کا کوئی بھی سنجیدہ نقاد یا قاری عشرت آفرین کونظراندازنہیں کرسکتا۔‘‘ ان کی شاعری میں شہری ودیہی زندگی، ہردوکے مسائل پرتخلیقی سطح پر بھرپور اظہار ملتا ہے۔ ادب میں ترقی پسند فکر سے متاثر ضرور ہیں مگران کی شاعری میں گھن گرج اور نعرے بازی کہیں نہیں، اس لیے ترقی پسند شاعروں میں وہ اپنا سلسلہ فیض احمد فیض کی شعری روایت سے جوڑتی ہیں۔اس مکتبۂ فکر سے بھی نہیں، جو نظم کو شعری اظہار کا ذریعہ قراردے کرغزل پردوحرف بھیجتا ہے۔شعری سفر میں نظم کے ساتھ غزل بھی برابر کہی۔

عشرت آفرین کا خیال ہے کہ ایسے موضوعات ضرور ہوں گے، جو غزل میں بیان نہ ہوپائے تو غالب کو یہ کہنا پڑا ’’کچھ اورچاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے‘‘ اور پھر یہ بات انھوں نے خطوط لکھ کرثابت بھی کی۔ وہ سمجھتی ہیں کہ غزل میں ردیف اورقافیے کی پابندی ہوتی ہے، اس لیے شعرمیں چارلفظ تو یہ لے لیتے ہیں، نظم میں ایسی پابندی نہ ہونے کے باعث کم جگہ میں زیادہ بات کی جاسکتی ہے۔ ان کی دانست میں، اگر ایسے موضوعات ہیں، جن کا بارصرف نظم اٹھاسکتی ہے تودوسری جانب ایسے موضوعات بھی ہیں،جوصرف غزل میں ہی بیان ہوسکتے ہیں۔ان کے بقول’’نظم کی بہ نسبت غزل زیادہ فنکارانہ ہنرمندی کا تقاضا کرتی ہے۔ نظم کہنی ہے یا غزل اس کا فیصلہ شعوری طور پر نہیں ہوتا بلکہ بالکل جیسا آتا ہے، ویسا کہہ دیتی ہوں۔ درد اور احساس کی شدت ہی آپ سے کچھ کہلواتی ہے۔‘‘

تخلیقی بنجرپن کا عرصہ ان پرکبھی نہیں گزرا۔ایسی کیفیت، ان کے خیال میں ،وجود نہیں رکھتی اورجسے تخلیقی بنجرپن سمجھاجاتا ہے، وہ اسے لکھنے والا کا نفسیاتی احساس قراردیتی ہیں۔عشرت آفرین نے بتایا: ’’تخلیقی بنجرپن کی بات وہ کرتے ہیں، جوواقعتا تخلیقی نہیں ہوتے، اور کوشش سے خود کو تخلیقی عمل کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ پیدائشی تخلیق کارجو محسوس کرتا ہے اسے رقم کرتا ہے اوراپنے کہے سے لطف اندوز ہوتا ہے، اور اسے یہ فکر دامن گیر نہیں ہوتی کہ کل شعر ہوگا یا نہیں ہوگا لہٰذا اس پربنجرپن کا دورنہیں آتا۔‘‘

عشرت آفرین اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ نظریے سے شاعری کو نقصان پہنچتاہے لیکن اسے لازمی امربھی قرارنہیں دیتیں۔اس سلسلے میںفیض احمد فیض کی مثال دیتی ہیں، نظریے سے گہری وابستگی نے جن کی شاعری کو نقصان نہیں پہنچایا۔یہی بات ان کے خیال میں اوربھی کئی شاعروں پرصادق آتی ہے۔

عشرت آفرین کا کہنا ہے کہ ترقی پسندوں کی شاعری میں ایسی نظمیں بھی مل جاتی ہیں، جس میں شاعری اورنعرے بازی، دونوں ذائقے موجود ہیں۔اس ضمن میںعلی سردارجعفری کی نظم ’’اودھ کی خاک حسیں‘‘کا حوالہ دیتی ہیں،جس میں ان کے بقول’’آدھی نظم میں شاعرکی اندرونی کیفیت کا بیان ہے۔ بین السطور بہت کچھ کہا گیا ہے۔ نظم میں کہی بھی ہے اور ان کہی بھی۔آگے چل کرنظم نعرہ بن جاتی ہے اورشاعری نہیں رہتی۔‘‘

عشرت آفرین کا پہلا شعری مجموعہ ’’کنج پیلے پھولوں کا‘‘ 1985ء میں شائع ہوا۔بیس برس بعد شاعری کی دوسری کتاب’’دھوپ اپنے حصے کی‘‘ سامنے آئی۔بیس برس کے اس وقفے کا پوچھا توہنستے ہوئے کہنے لگیں کہ بیچ میں جو تین مجموعے(ایک بیٹا۔ دو بیٹیاں) آئے، ان کی وجہ سے یہ تاخیر ہوئی۔بچوں کی پرورش میں مصروف رہیں توشاعری پرپورے طورسے توجہ نہ دے سکیں۔کچھ فرق ہجرت کے عمل سے بھی پڑا۔ پہلی ہجرت پاکستان سے ہندوستان کی تواس سے فرق اس لیے زیادہ نہیں پڑا کہ ماحول میں کوئی بڑی تبدیلی نہ محسوس ہوئی،لیکن وہاں سے پانچ برس بعد امریکا سدھارگئیں جہاں اب چوبیس برس سے ہیں، تو وہاں قیام سے تخلیقی عمل متاثرہوا۔

اس تجربے کے بارے میں بتاتی ہیں’’ ’’زبان کا زمین سے رشتہ بہت گہراہوتاہے۔ہم نے شاعری میں زندہ تجربے لکھے۔ زندہ کردار لکھے۔ نام تک اکثرکرداروں کے حقیقی ہیں، یہ سب زمین سے گہرے رشتے کے باعث ہے۔ یہ سب تجربے جب چھن گئے تولامحالہ اس کا اثرشاعری پرپڑا۔ہم سن کراخذ کرنے والے ہیں، داستان گوئی کی روایت سے نکل کرآئے ہیں اوراب بھی ہمارے ہاں سن کرحاصل کرنے کی جستجو ہے۔ خاص طور پر غزل کہنے کا سلسلہ متاثر ہوا، جوکتاب پڑھ کرنہیں کہی جاسکتی۔اس کے لیے بھرپورادبی فضا کی ضرورت ہوتی ہے۔ بات چیت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ زبان جس میں آپ نے غزل کہنی ہے سماعتوں سے ٹکراتی رہے۔‘‘

شاعری کی طرف آنے سے متعلق پوچھا تو بتایا کہ یوپی والوں میں ادب سے شغف کی بڑی توانا روایت ہے، توکچھ اس وجہ سے، دوسرے سادات خاندان سے ناتا ہونے کی بنا پربچپن میں نعت ، نوحے،سلام اور مرثیے ، ماحول کا حصہ تھے، جس کے زیراثرشاعری کی طرف رجحان ہوگیا۔ گھرمیں مشاعرے ہوتے۔چچا زاد بھائی نے ’’بزم علم ودانش‘‘کے نام سے انجمن بنارکھی تھی ، جس کی نشستوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔زمانہ طالب علمی میں ریڈیو جانے لگیں۔ کئی پروگراموں کی میزبانی کی۔

اس زمانے میں ریڈیو پاکستان کراچی سینٹر، سلیم احمد، قمر جمیل اور ضمیر علی بدایونی جیسے نامورادیبوں کی وابستگی کے باعث ادبی تربیت گاہ بن گیا تھا ،اس لیے وہاں سے بھی عشرت آفرین نے بہت کچھ جانا۔ اسکول کے دور میں نوحوں سے شاعری کا آغاز ہوگیا تھا لیکن باقاعدہ شاعری کی طرف بعد میں آئیں۔

پہلی باران کی تخلیق 1971 ء میں ’’جنگ‘‘اخبارمیں چھپی۔’’سیپ‘‘وہ پہلا ادبی جریدہ تھا جس نے ان کی نگارشات کو شائع کیا۔ فاطمہ حسن کے پرچے ’’اظہار‘‘ میں نظم ’’ایک غیراہم فرد کے لیے‘‘ چھپی تواسے بہت پسند کیا گیا۔مبارک احمد نے خط لکھا جس میں نظم کوبیحد سراہا گیا تھا۔ نظم میں پنجابی لفظوں کے استعمال پرلوگوں کو گمان گزرا جیسے شاعرہ کا کراچی سے نہیں پنجاب سے تعلق ہو۔اس کے بعد شاعری تواترسے ادبی رسائل میں جگہ پانے لگیں۔

شاعری کے ذکرسے کنارہ کرکے اب تھوڑا ان کے سفرزیست پر بات ہوجائے۔

عشرت آفرین نے 25 دسمبر1956کو کراچی میں آنکھ کھولی۔ والد سید محمد ناصر نے 1934ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔ پاکستان میں ہجرت کے بعد وکالت کو ہی پیشے کے طورپراپنایا۔آدمی روشن خیال تھے۔بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے پریقین رکھنے والے۔ کراچی اورٹھٹھہ کے درمیان رن پٹھانی کا اسٹیشن ہے، جدھرانھوں نے زمین خرید رکھی تھی، ہراتوارکو بچوں کو وہاں لے جاتے توخوب مزے سے ان کا وقت گزرتا۔دیہی تہذیب اورمعاشرت سے یہ تعارف عشرت آفرین کے بہت کام آیا اوراس کے اثرات ان کی شاعری میں نمایاں طورپرمحسوس کئے جاسکتے ہیں،جس کی بہترین مثال ان کی نظم ’’مضافات‘‘ ہے۔

والدہ اورنانی سے گہرارشتہ رہا، جس کی وجہ سے شاعری میںایسے الفاظ بھی آتے ہیں، جوخالص یوپی کی گھریلو فضا سے تعلق رکھتے ہیں۔بچپن سے سخن فہم ہیں۔ محلے میں ایک لائبریری ختم ہوئی تو کتابیں اہل محلہ میں تقسیم ہوکررہ گئیں۔ان کے شوقِ مطالعہ کے پیش نظرمحلے دارخاتون نے انھیں بھی تین کتابیں لاکردیں۔اشک بنارسی کی کتاب طباعت کے اعتبارسے باقی دوکے مقابلے میں دیدہ زیب تھی، مگر پڑھنے پروہ انھیں فضول سی لگی تو لوٹا دی۔

البتہ ناصر کاظمی اورن م راشدکی کتابوں کا پڑھنا متاثر کرگیا تو ان پرقبضہ جمالیا۔ راشد کی شاعری پڑھ کریوں محسوس ہوا جیسے کوئی ان کے اندررقص کرنے لگاہو۔ یہ بات نویں جماعت کی ہے۔اس وقت ان کو کیا خبر تھی کہ آگے چل کرانھوں نے راشدکی بہترین نظم ’’حسن کوزہ گر‘‘کا نظم کی صورت جواب لکھنا ہے۔’’جہاں زاد‘‘کے بارے میں ان کی رائے ہے ’’حسن کوزہ گر‘‘میں عورت کا جو کردار ہے، اس کی آوازمجھے وہاں نظر نہیں آرہی تھی،میں نے اپنی نظم میں راشد صاحب سے مکالمہ کیا کہ میرے درد کو سمجھو۔‘‘

کراچی میں ملیرکے علاقے میں ان کا بچپن اورجوانی گزری۔ گورنمنٹ گرلزسیکنڈری اسکول دومنزلہ سے میٹرک، علامہ اقبال کالج سے بی اے کیا۔ والد کے انتقال کے بعد گھریلوحالات میں تنگی ترشی آئی توملازمت کرلی اورساتھ میں کراچی یونیورسٹی سے اردو میں پرائیویٹ ایم اے کیا۔ایک تعلیمی ادارے سے متعلق رہیں۔اشاعتی ادارے میں بھی کام کیا۔فہمیدہ ریاض اس زمانے میں ’’آواز‘‘کے نام سے پرچہ نکال رہی تھیں تویہ ان کی معاون بن گئیں۔

ادھر کام کے دوران بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ایک دن فہمیدہ ریاض نے انھیں پبلونرودااورناظم حکمت کی نظمیں ترجمہ کرنے کو دیں توانھوں نے کہا ’’فہمیدہ باجی میں کیسے کروں، میں نہیں کرسکتی‘‘اس پربڑے پیار سے وہ کہنے لگیں ’’ارے! تم کروگی،اورجب تک کرنہ لوگی اس کمرے میں بند رہوگی۔‘‘یہ کہنے کے کچھ دیربعد وہ ڈکشنری دینے آئیں توعشرت آفرین نے کہا کہ بھلا اتنے بڑے شاعروں کے ترجمے ڈکشنری سے بھی ہوتے ہیں۔ خیر ترجمہ انھوں نے کردیا جو فہمیدہ ریاض کو مطمئن کرگیا۔ نوری نستعلیق کو متعارف کرانے والے مرزا جمیل کے ساتھ ڈکشنری کے کام میں معاون کے طورپر بھی کام کیا۔

اپنے بچپن اور جوانی کا کراچی انھیں رہ رہ کریاد آتا ہے، جہاں ان کے بقول سب مل جل کررہتے اورجیواورجینے دو کے فلسفے پرعمل ہوتا لیکن پھرسب کچھ بگڑ گیا۔ اپنے زمانے کے ملیرکی ماڈل کالونی کا ذکرکرتے ہوئی بتایا کہ بارش کے بعد وہ سہیلیوں کے ساتھ بیربہوٹیاں پکڑنے جاتیں۔ بتایا کہ والد کے انتقال کے بعد دودھ بند کرنے کا فیصلہ کیا تواس پرگوالہ اس قدربگڑا کہ دودھ دروازے پرانڈیل کرچلا گیا ، اس دکھ کے ساتھ کہ اب ان کے گھرانے سے اس کا تعلق ختم ہوجائے گا۔

کراچی کے حالات کی خرابی ان کے خیال میں ایوب دورمیں اس وقت شروع ہوئی جب مہاجرپٹھان فساد ہوا۔لیکن ان کے بقول جس طرح وبائی بیماری آتی ہے اورچلی جاتی ہے، اس جھگڑے کو بھی لوگ بھول گئے اور حالات پھرسے معمول پر آگئے۔ ان کو پہلی بارحالات کی خرابی کا اس وقت اندازہ ہوا جب پگڑ پہنے افراد پہرہ دیتے اورلوگوں کو چوکنا کرنے کے لیے بجلی کے کھمبوں کو بجاتے۔ ماں کے چہرے پرخوف کے آثار دیکھ کران کو حالات کی کا اندازہ ہوا۔

ادبی تقریبات کے لیے اندرون سندھ بھی جانا رہتا۔ دریائے سندھ کی سیرکے واسطے جانا رہاجہاں رات کو مچھلی کھانا انھیں خوب یاد ہے۔سکھرمیں مشاعرے میں شرکت کے لیے بھی گئیں۔ ان کی دانست میں حالات میں اصل بگاڑ ضیاء دورمیں شروع ہوا اورپھرحالات دن بدن بگڑتے چلے گئے۔ نوے کی دہائی میں کراچی میں پہلی بارمسجد میں دھماکہ ہوا جس کی امریکا میں خبر ملی تو دو دن وہ روتی رہیں۔

80ء کی دھائی کے ابتدائی برسوں میں شاعری انھوں نے خوب کی اورہوتے ہوتے اتنی شاعری ہوگئی کہ شعری مجموعہ کا ڈول ڈالا جاسکے۔ 5 مئی 1984ء کو کراچی میں شعری نشست کے بعد علی سردارجعفری سے متعارف ہوئیں توان کو شعری مجموعے کا دیپاچہ لکھنے کی فرمائش کردی۔ علی سردارجعفری کا ان کی شاعری سے تعارف نہیں تھا اس لیے انھوں نے جان چھڑانے کے لیے کہا’’پہلے مجموعے کی اشاعت میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔‘‘مگرجب کراچی میں نجی محفلوں میں ان کا کلام سنا توعلی سردارجعفری ان کی شاعری کے قائل ہوگئے اور دیپاچہ لکھنے کی ہامی بھرلی اورہندوستان میں مشاعرہ پڑھنے کی دعوت بھی دے ڈالی۔

ہندوستان جانا ان کے لیے شاعرہ کی حیثیت سے ہی یادگارسفرنہیں رہا بلکہ ذاتی حوالے سے بھی ان کے لیے اچھی خبرلایا۔ اس دورے میں ان کی اپنے ہونے والے شوہر پرویزجعفری سے ملاقات ہوئی ،جوعلی سردارجعفری کے بھتیجے ہیں۔ جنوری 1985ء میں عشرت آفرین کی شادی ہوئی۔ کراچی سے ہندوستان ہجرت کے بارے میں بتاتی ہیں’’ہجرت کرکے اگرآپ نئے ماحول میں یاایسی جگہ جاتے ہیں جہاں نئے سرے سے زندگی آپ نے شروع کرنی ہوتی ہے تووہاں توآپ کو جدوجہد کرنی پڑتی ہے، لیکن میں نے ہندوستان جو ہجرت کی تواس میں ایسے مسائل نہیں تھے، میں جہاں گئی تووہاں کا کلچر اور تہذیبی فضا توویسی ہی تھی جدھر سے میں گئی تھی، بس یہ تھا کہ کراچی بڑا شہرتھا اور میں چھوٹی جگہ بلرام پورگئی، جہاں حویلیوں جیسا ماحول تھا، اس میں رہنا پڑا۔‘‘

ہندوستان میں قیام کے دوران انھیں علی سردارجعفری اورسلطانہ جعفری کے ساتھ وقت گزارنے کا جو موقع ملا اسے زندگی کی قیمتی سرمایہ گردانتی ہیں۔’’دھوپ اپنے حصے کی ‘‘کا انتساب کرتے ہوئے لکھا ’’دودا اور اماں کے نام جنھیں دنیائے ادب علی سردارجعفری اور سلطانہ جعفری کے نام سے جانتی ہے۔ شوہر پرویز جعفری نے ان کی ادبی سرگرمیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اورہمیشہ ان کا حوصلہ بڑھایا۔

اولاد کوب اردو میں بات چیت سکھانے کے لیے انھوں نے اپنی دوست حمیرا رحمان کی بات پلے سے باندھی جنھوں نے امریکا جاتے ہی باور کرادیا کہ بچے امریکا میں رہ کرانگریزی ہی سیکھیں گے ، بس تم اردو کی خیرمنانا۔اس لیے جب بچوں نے انگریزی میں پہلی بارگفتگوکرنے کی کوشش کی توانھوں نے یوں ظاہرکیا جیسے انھیں کچھ سمجھ نہیں آیا اس سے یہ فائدہ ہوا کہ ان کے بچے تو اردو زبان میں بات چیت کرلیتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کی آئندہ نسل انگریزی میں ہی بات چیت کرے گی۔

انھوں نے بتایا کہ ا مریکا میں مقیم مسلمان اپنے بچوں کو اردو سے زیادہ عربی سکھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں، اوراس رجحان میں نائن الیون کے بعد زیادہ تیزی آئی ہے کیونکہ عربی زبان ان کے دین سے جڑی ہے۔ عشرت آفرین کا کہنا ہے کہ وہ عورتوں کے مسائل پرلکھتی ہیں، اوران کی شاعری مرد نہیں، مرد مرکوزسماج کے خلاف احتجاج ہے۔ بستی ایک ایسا استعارہ ہے، جو ان کی شاعری میں باربارآتا ہے، ان کی بہترین نظم ’’یہ بستی میری بستی ہے‘‘کو روداد ہستی قراردیا جاسکتا ہے۔

یہ ایک طرح سے آپ بیتی بھی ہے اورجگ بیتی بھی۔نظم میں حقیقی کردارہیں، جن کے تھوڑے لفظوں میں میں خاکے کھینچے گئے ہیں، خاص طور سے مائے کا کردار۔کچھ دن قبل ضیاء محی الدین کا اس طویل نظم کو پڑھ کرسنانا انھیں سرشار کرگیا۔ ایک امریکی یونیورسٹی میں وہ اردوتدریس کے پروگرام سے وابستہ ہیں اورلاہوربھی وہ اردو سے ناآشنا ان طالب علموں کو جوپاکستان کے بارے میں کام کررہے ہیں، اردوپڑھانے کے لیے موجود ہیں۔ طالب علموں کو انھوں نے گذشتہ دنوں ’’بستی‘‘ناول پڑھایا اور پھر اس کے مایۂ نازمصنف انتظارحسین سے ان کی ملاقات بھی کرائی۔ ان کا کہنا ہے کہ لاہورمیں بیتا وقت ان کو ہمیشہ یاد رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔