میں بے اشک بہنا چاہتی ہوں

میرا بے سایہ جسم اب دھوپ چھاؤں کا محتاج نہیں رہا، ماں! مجھے دفن مت کرنا، قبروں کے شہر میں، ہوا کو دفن مت کرنا۔


نصیر احمد ناصر November 19, 2014
میرا بے سایہ جسم اب دھوپ چھاؤں کا محتاج نہیں رہا، ماں! مجھے دفن مت کرنا، قبروں کے شہر میں، ہوا کو دفن مت کرنا ۔ فوٹو ریحانے جباری فیس بک پیج

QUETTA: میں نے قتل کیا ہے
ایک مرد کی پرچھائیں کو
جو میرے جسم میں چھید کرنا چاہتا تھا
میں نے قتل کیا ہے
ہاں میں نے قتل کیا ہے

تیز دھار چاقو سے
تا کہ خون بہے
اور بہتا رہے
چوتھی منزل سے
تفتیش گاہ کے تہہ خانے تک
جہاں مجھے کئی بار زندہ مار ڈالا گیا
اور میں نے لکھ دیا
بیانِ حلفی میں
جو انہوں نے کہا
تا کہ بادوک زندہ رہے
اور کسی اور ٹین ایجر کو چیرا توڑا نہ جا سکے
جیل میں اور عدالت میں
موجود ہونے کے باوجود
خدا مجھے نہیں بچا سکا
خدا انسانوں کے لیے بنائے ہوئے قانون کے ہاتھوں مجبور ہے
آنکھ کے بدلے آنکھ
کان کے بدلے کان
جسم کے بدلے جسم
لیکن پرچھائیں کے بدلے.........
میری، بادلوں کی چھاؤں جیسی، کم سِن روح کو پھانسی دے دی گئی
دیکھو تو، شب ختم ہونے سے قبل
میری صبح دار پر طلوع ہو چکی ہے
میرا بے سایہ جسم اب دھوپ چھاؤں کا محتاج نہیں رہا
ماں! مجھے دفن مت کرنا
قبروں کے شہر میں
ہوا کو دفن مت کرنا
اور ماتمی لباس پہن کر
رونا مت
میں بے نشان رہنا
اور بے اشک بہنا چاہتی ہوں
اس زمین پر کوئی جگہ ایسی نہیں
جہاں ہوا، ابر اور آنسوؤں کی قبر بنائی جا سکے
مٹی میرا جوف، میرا اُطاق نہیں
ماں !
دروازہ کھول
میرا راستہ ختم ہو گیا ہے !

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے نظم لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

مقبول خبریں