پی ٹی وی کے پچاس برس

امجد اسلام امجد  منگل 2 دسمبر 2014
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

حفیظ جالندھری مرحوم کے اس مشہور عام شعر کو ذرا سی تحریف کر کے پڑھا جائے تو یہ پی ٹی وی کی گولڈن جوبلی پر تقریباً پورا اترتا ہے کہ

تشکیل و تکمیل فن میں‘ ٹی وی کا جو حصہ ہے
نصف صدی کا قصہ ہے‘ دو چار برس کی بات نہیں

26 نومبر1964کو جب لاہور سے پی ٹی وی کی بلیک اینڈ وائٹ اور مختصر اور مخصوص دورانیے کی نشریات کا آغاز ہوا تو شاید اس وقت خود اس کے کارپردازان کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دہائی کے اندر اندر یہ پاکستانی عوام کے دلوں میں گھر کر جائے۔یہ کیسے ہوا، بہت دلچسپ کہانی ہے جس کا میں ناظر بھی ہوں اور ایک کردار بھی۔ نیا نیا یونیورسٹی میں داخل ہوا تھا کہ میرا لکھا ہوا ایک قومی گیت میرے ہم جماعت اعظم خورشید (مرحوم) کی آواز میں (جو آگے چل کر پی ٹی وی کا جنرل مینجر بنا) جنگ کے دوران ہی Live ٹیلی کاسٹ ہوا اس وقت ریکارڈنگ کی سہولت موجود نہیں تھی۔ 1976 میں لاہور کے موجودہ اسٹوڈیوز سے ہی ’’پھول والوں کی سیر‘ نامی ڈرامے سے (جسے غالباً اشفاق احمد مرحوم نے تحریر کیا تھا) رنگین نشریات کا آغاز ہوا ان اولین بارہ برسوں میں ٹی وی پروگرام صرف شام کے چند گھنٹوں تک محدود ہوا کرتے تھے ۔

اس دور کے جن چند پروگراموں کے نام اس وقت ذہن میں آ رہے ہیں ان میں کمال احمد رضوی کا ’’الف نون‘‘ اطہر شاہ خاں کا ’’لاکھوں میں تین‘‘ اشفاق صاحب کا ’’ٹاہلی تھلے‘‘ ضیا محی الدین کا ’’ضیا شو‘‘ محسن شیرازی کا ’’گر تو برا نہ مانے‘‘ شوکت صدیقی کا ‘‘خدا کی بستی‘‘ صفدر میر کا ’’آخر شب‘‘ منو بھائی کا ’’جزیرہ‘‘ شعیب ہاشمی کا ’’اکڑ بکڑ‘ سچ گپ‘‘ طارق عزیز کا ’’نیلام گھر‘‘ رفیق وڑائچ کا ’’نکھار‘‘ اشفاق صاحب کا ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ حسینہ معین کا ’’شہزوری‘‘ اور عکسی مفتی‘ محمد ادریس اور لیئق احمد کے شوز شامل ہیں۔ اس دور میں ٹی وی کو ہر شعبے میں ماہر اور بے مثال افراد حاصل رہے ۔

اداکار، قلمکار، صدا کار‘ موسیقار‘ گلوکار‘ تکنیکی شعبوں کے ماہرین اور بالخصوص ایسے ڈائریکٹرز (جنھیں ٹی وی کی زبان میں نہ معلوم کیوں آج تک پروڈیوسرز کہا جاتا ہے) سامنے آئے کہ جن میں سے ہر ایک اپنے انداز میں منفرد تھا۔ اسلم اظہر‘ آغا ناصر‘ فضل کمال‘ کنور آفتاب احمد‘ ظفر ہمدانی‘ محمد نثار حسین‘ غفران امتیازی‘ امیر امام‘ محسن علی‘ نثار حسین‘ مصلح الدین‘ ظہیر بھٹی‘ قاسم جلالی‘ ظہیر خان اور یاور حیات سمیت کئی اور نام اس فہرست میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ اس دور کے لکھاریوں میں اگرچہ کم و بیش 95% براستہ ریڈیو ٹی وی اسکرین سے وابستہ ہوئے لیکن جتنی تیزی سے انھوں نے کیمرے کی زبان میں بات کرنا سیکھ لیا اس کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے 1975کے لگ بھگ پی ٹی وی کے دوسرے دور کا آغاز ہوا جسے اس کا سنہری دور بھی کہا جاتا ہے۔۔ طنز و مزاح کے میدان میں ’’ففٹی ففٹی‘‘ ’’سونا چاندی‘‘ ’’اندھیرا اجالا‘‘ ’’کلیاں‘‘ ’’خواجہ اینڈ سن‘‘ ’’یا نصیب کلینک‘‘ انور مقصود‘ معین اختر اور بشریٰ انصاری کے مختلف پروگراموں اور فاروق قیصر‘ عمر شریف اور دلدار بھٹی کے شوز نے مسکراہٹوں اور قہقہوں کی ایک سے ایک نئی کہکشاں تخلیق کی۔

موسیقی کے میدان میں خواجہ نجم الحسن‘ فرخ بشیر اور ایوب خاور نے کمال کے پروگرام پیش کیے۔ بچوں کی موسیقی کے حوالے سے سہیل رعنا اور خلیل احمد نے نئی بلندیوں کو چھوا‘ بہت عمدہ ٹاک شوز کا سلسلہ شروع ہوا۔ ادبی حوالوں سے مشاعروں کے ساتھ ساتھ ’’سخن ور‘‘ ’’داستان گو‘‘ اور ’’غزل سرائے‘‘جیسے عمدہ پروگرام پیش کیے گئے لیکن ان دو دہائیوں یعنی 1975 سے 1995 تک پی ٹی وی کے اس دور عروج کا سب سے اہم اور مضبوط ستون اس کا ’’ڈراما‘‘ ہی ٹھہرے گا کہ اس عرصے میں حسینہ معین‘ حمید کاشمیری‘ فاطمہ ثریا بجیا‘ بانو قدسیہ‘ امجد اسلام امجد‘ منو بھائی‘ ڈاکٹر انور سجاد‘ یونس جاوید‘ عبدالقادر جونیجو‘ نور الہٰدی شاہ‘ اسد محمد خان‘ سلیم احمد‘ سلیم چشتی‘ عاشر عظیم‘ بشریٰ رحمن‘ مرزا اطہر بیگ‘ تاج حیدر‘ فاروق قیصر‘ محمد یونس بٹ اور جلیل‘ عطاء الحق قاسمی اور اے حمید سمیت دیگر کئی مصنفین نے اپنا بہترین کام پیش کیا اور ایسے انفرادی ڈرامے سیریل کھیل اور طویل دورانیے کے ڈرامے سامنے آئے۔

جن کی مقبولیت میں آج بھی کوئی کمی نہیں آئی نمایاں اداکاروں کی طویل صف میں محمد قوی خان‘ طلعت حسین‘ علی اعجاز‘ شکیل‘ سلیم ناصر‘ افضال احمد‘ شیبا حسن‘ نیلوفر عباسی‘ ثمینہ احمد‘ شمیم ہلالی‘ روحی بانو‘ مسعود اختر‘ منور سعید‘ قاضی واجد‘ سبحانی با یونس‘ بیگم خورشید مرزا‘ عذرا شیروانی‘ ڈاکٹر انور سجاد‘ خالد سعید بٹ‘ فاروق ضمیر‘ راحت کاظمی‘عشرت ہاشمی‘ محمود علی‘ ظفر مسعود‘ اورنگ زیب اور کچھ دیگر اداکار تو بلیک اینڈ وائٹ دور میں اپنی موجودگی کا احساس دلا چکے تھے اور آیندہ کئی برسوں تک بھی فعال رہے بلکہ کچھ تو ابھی تک اپنے فن کے جوہر دکھا رہے ہیں مگر جو نسل 1975 سے 1995کے دوران سامنے آئی اس کے صرف چند بہت نمایاں نام ہی درج کیے جا سکتے ہیں کہ یہ فہرست بہت لمبی ہے۔

خواتین میں غزالہ کیفی‘ ساحرہ کاظمی‘ ثمینہ پیر زادہ‘ خالدہ ریاست‘ شہناز شیخ‘ مرینہ خان‘ عظمی گیلانی‘ طاہرہ نقوی‘ عارفہ صدیقی‘ ہما نواب‘ ندا ممتاز‘ سکینہ سموں‘رومانہ‘ صبا حمید‘ نگہت بٹ‘ زیبا شہناز‘ روبینہ اشرف‘ فضیلہ قاضی‘ فائزہ حسن‘ زیبا بختیار‘ عفت رحیم‘ نوید شہزاد‘ مدیحہ گوہر‘ فریال گوہر اور مردوں میں اظہار قاضی‘ مظہر علی‘ شفیع محمد‘ نجیب اللہ انجم‘ محمود اسلم‘ فردوس جمال‘ محبوب عالم‘اورنگ زیب لغاری‘ آغا سکندر‘ شجاعت ہاشمی‘ نثار قادری‘ عرفان کھوسٹ‘ حامد رانا‘ فخری احمد‘ وسیم عباس‘ آصف رضا میر‘ نبیل‘ سہیل احمد‘ سہیل اصغر‘ اسماعیل شاہ‘ ایوب کھوسو‘ ارشد محمود‘ ریحان اظہر‘ جاوید رضوی‘ حامد رانا‘ راشد محمود‘ خالد عثمان‘ شاہنواز‘ جمیل فخری‘ایوب خان‘ محسن رضوی‘ خالد بٹ‘ عابد کشمیری‘ توقیر ناصر‘ خیام سرحدی‘ عمر شریف‘ اسماعیل تارا کے نام لیے جا سکتے ہیں مگر واضح رہے کہ فہرست مکمل نہیں ہے ۔

اسی طرح ڈائریکٹرز کی مختصر ترین فہرست بھی ان چند ناموں کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی شعیب منصور‘ ایوب خاور‘ حیدر امام رضوی‘ نصرت ٹھاکر‘ راشد ڈار‘ غضنفر علی‘ اقبال انصاری‘ ساحرہ کاظمی‘ جہانزیب سہیل‘ ہارون رند‘ سلیم طاہر‘ بختیار احمد‘ در محمد کاسی‘ عزیز اعجاز‘ مشتاق احمد چوہدری‘ عبدالعزیز‘ شیریں پاشا‘ اقبال لطیف اور بہت سے دوسرے۔ اسی طرح موسیقی کے میدان میں بھی پی ٹی وی سے عمومی شہرت پانے والے ناموں میں طاہرہ سید‘ مہ جبیں قزلباش‘ ترنم ناز‘ نیرہ نور‘ ٹینا ثانی‘ ریشماں‘ بنجمن سسٹرز‘ شاہدہ پروین‘ محمد علی شہکی‘ عالمگیر‘ نازیہ حسن‘ اقبال باہو‘ زوہیب‘ افشاں‘ غلام عباس‘ رجب علی‘ ڈاکٹر امجد پرویز‘ حدیقہ کیانی‘ ناہید اختر‘ مہناز‘ افراہیم‘ سجاد علی‘ اخلاق احمد‘ حمیرا عابد علی‘ حمیرہ چنہ کے نام فوری طور پر ذہن میں آ رہے ہیں جب کہ ان کے سینئرز میں مہدی حسن‘ استاد امانت علی خان فتح علی خاں‘ روشن آرا بیگم‘ سلامت نزاکت‘ غلام علی‘ پرویز مہدی‘ حسین بخش گلو‘ طفیل نیازی، حامد علی بیلا‘ پٹھانے خان‘ غلام فرید صابری‘ اقبال بانو‘ فریدہ خانم‘ زاہدہ پروین‘ اعظم چشتی‘ نذیر بیگم‘ شہناز بیگم‘ فردوسی بیگم اور رونا لیلیٰ جیسے اپنے اپنے فن کے استاد لوگ شامل تھے۔

یہ سب نام جو میں نے اوپر درج کیے ہیں میرے حافظے اور برادرم ایوب خاور کے افسانوں کا ماحصل ہے عین ممکن ہے کہ اس کے باوجود بہت سے اہم نام رہ گئے ہوں لیکن میرا مقصد صرف اس کہکشاں کی خوب صورتی کو اجاگر کرنا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی عظیم روایت اور ایسی نادر روز گار شخصیات کے ہوتے ہوئے کیوں گزشتہ تقریباً بیس برس سے پی ٹی وی کے پاس اپنے گزشتہ پروگراموں کی رائلٹی کے سوا باقی سب کچھ تقریباً معدوم ہو گیا ہے اور فی الوقت پی ٹی وی اسٹوڈیو میں نیوز اور کرنٹ افیئر سے متعلق چند پروگراموں کو چھوڑ کر چاروں طرف سناٹا ہے۔ ڈراما ختم اور موسیقی قریب الختم ہے شو میکرز میں ضیا محی الدین‘ طارق عزیز‘ اشفاق احمد‘ محمد ادریس‘ قریش پور‘ خوش بخت شجاعت‘ دلدار پرویز بھٹی‘ انور مقصود‘ معین اختر‘بشریٰ انصاری‘ لیئق احمد‘ فاروق قیصر‘ عکسی مفتی‘ عبید اللہ بیگ اور جاوید جبار جیسا ایک نام بھی اب اس کی اسکرین سے منسلک نہیں ہے۔

طارق عزیز اپنے شو اور انور مقصود‘ خراج تحسین کے حوالے سے کبھی کبھی نظر آ جاتے ہیں مگر نہ آنے کی طرح۔آج جب کہ ہم اس عظیم اور عہد ساز ادارے کی گولڈن جوبلی کے موقعے پر اس کے ماضی حال اور مستقبل پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو دیکھنے کے قابل تمام چیزیں ’’ماضی‘‘ کا حصہ بن چکی ہیں۔ ایسا کیوں اور کیسے ہوا اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے میں بھی گاہے گاہے اس کا رونا روتا رہتا ہوں پی ٹی وی نے اپنے اثاثے اور ورثے کی حفاظت نہیں کی اور پرائیویٹ چینلز کی آمد پر جس بدحواسی‘ غیر ذمے داری‘ مستقبل بینی اور عصری شعور کی کمی اور شکست خوردہ ذہنیت کا مظاہرہ کیا ہے اسے دیکھ کر حیرت سے زیادہ افسوس ہوتا ہے کہ اتنی بڑی عمارت کا اس قدر تیزی گر جانا زلزلے سے تو شاید ممکن ہو مگر اور کسی وجہ سے اس کی تفہیم واقعی سمجھ سے بالاتر ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سرکاری اداروں کی مخصوص خرابیوں‘ ضرورت سے زیادہ اور نااہل عملے کی بھرتیوں‘ اپنی روایت کی طاقت کے عدم استعمال اور جدید دور کے تقاضوں کو سمجھنے کے شعور اور کمٹ منٹ کی کمی سے وہ سب کچھ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن یہ کوئی ناقابل علاج مرض نہیں علامہ صاحب نے کہا تھا کہ

دل مردہ‘ دل نہیں ہے‘ اسے زندہ کر دوبارا
کہ یہی ہے ملتوں کے مرض کہن کا چارا

تو ضرورت اس امر کی ہے کہ خلوص نیت سنجیدگی اور معاملہ فہمی کے ساتھ اس مسئلے پر غور کیا جائے میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کوریج کی رینج‘ اسٹوڈیوز‘ عملے کی تعداد‘ وسائل اور تجربے کے اعتبار سے آج بھی کوئی پرائیویٹ چینل پی ٹی وی جتنا مضبوط اور ثروت مند نہیں ہے ضرورت اسے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور ان خرابیوں کو دور کرنے کی ہے جو اسے دیمک کی طرح سے چاٹ رہی ہیں اگر اس کا قبلہ درست کر لیا جائے اور اس کے وسائل کو بہتر تعمیری اور مستقبل گیر انداز میں ترتیب دیا جائے تو بقول اقبال‘ بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی پوشیدہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔