رابطہ رکھیں!!!!

شیریں حیدر  اتوار 4 جنوری 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

سب سے پہلے قارئین کرام کو عید میلادالنبی مبارک ہو، سلام اس ہستی ﷺ پر کہ جس کا وجود وجہ تخلیق کائنات ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم ان کی حیات طیبہ کی روشنی سے اپنی زندگیوں کو منور کر سکیں اور حسب استطاعت ان احکام کی تعمیل کر سکیں جو انھوں نے ہمیں حقوق العباد کی بابت بتائے۔

آج کل کے حالات کے تناظر میں جو لطائف گردش کر رہے ہیں ان میں سے کچھ آپ تک بھی پہنچے ہوں گے مثلاً حکومت نے گیس اس لیے بند کر دی ہے کہ دہشت گرد تنور پر روٹیاں لینے جائیں تو زیادہ روٹیاں مانگنے کی صورت میں پکڑے جائیں یا ، گھر پر مہمان آئے ہیں میں نے پچیس روٹیاں کیا مانگ لی ہیں تم نے تو پولیس ہی بلا لی ہے۔

چند برس پہلے تک،(چند برس کا مطلب سو سال نہیں) کم ازکم ہمارے معاشرے میں انسانوں کے مابین روابط بہت مضبوط تھے، ایک گاؤں یا ایک محلے کا مطلب ایک خاندان کی طرح تھا حتی کہ چھوٹے شہروں میں بھی ایک اجنبی چہرہ فوراً نظروں میں آ جاتا تھا ۔پڑوس مین کون رہتا ہے،اس کی ذات کیا ہے، اس کا تعلق کس علاقے سے ہے، وہ اس گھر کا مالک ہے یا کرائے دار، اس کے خاندان کی تفاصیل ، اس کے بچوں کی عمریں اور کردار، اس کی ملازمت یا آمدنی کے ذرائع اور اس کے دکھ اور سکھ سب معلوم ہوتے تھے۔

محلے میں کسی گھر کا مہمان گویا پورے محلے کا مہمان ہوتا تھا کہاں سے اور کس غایت سے آیا ہے، یہ تک معلوم ہوتا تھا۔ہر کسی کا دکھ اور سکھ پورے محلے کا دکھ اور سکھ ہوتا تھا، سب کی بیٹیاں سانجھی، سب کی عزت اور ذلت سانجھی ہوتی تھی۔گھروں کے مسائل باہمی مشاورت سے طے کیے جاتے تھے۔محلے دار رشتہ داروں سے بڑھ کر ہوتے تھے ان سے کاروبار، اپنے ذاتی مسائل اور اپنے بچوں کی شادیوں جیسے اہم مسائل پر بھی مشورہ لیا جاتا۔

چند دن قبل صاحب گھر لوٹے تو میں نے انھیں بتایا کہ ہمارے گھر کی پچھلی طرف کا پڑوس آباد ہو گیا ہے اور آنے والے کا نام ساجد ہے(دائیں اور بائیں کے مکانات ابھی تک زیر تعمیر ہیں )

صاحب نے حیرت سے پوچھا کہ مجھے کس نے بتایا یہ کہ میں ان کے ہاں گئی تھی کیا؟ ہم دونوں میاں بیوی کام پر گئے شام کو لوٹتے ہیں اس لیے ہماری ز ندگیوں میں محلہ داری یا socialising کا وقت نہیں نکل پاتا۔ میں نے تھوڑی دیر تجسس برقرار رکھا اور پھر صاحب کو بتایا کہ ان کے گھر سے انٹرنیٹ کے سگنل آرہے تھے جس سے مجھے یہ معلومات ملی ہیں۔ آپ میں سے بہت سے لوگ میرے جیسے ہونگے جن کی معلومات اپنے پڑوس کے بارے میں اس سے بڑھ نہیں پاتیں ۔

پڑوسی کون ہے، کیا اسے کسی وقت ہماری ضرورت تو نہیں، اس کے گھر میں فاقہ تو نہیں ہو رہا جب ہم پکوان اڑا رہے ہوں ، ہمارے گھر کا شور ان کے گھر کو کسی طرح ڈسٹرب تو نہیں کرتا کہ ان کے گھر میں کسی بچے کے امتحان ہوں یا کوئی مریض ہو یا کوئی بزرگ۔کیا ان کے گھر میں ایسا بزرگ تو نہیں جس کی عیادت کرنا یا اسے تعظیم دینا ہم پر فرض ہو ۔

لگ بھگ دس برس قبل ہم امریکا میں تھے،وہاں سے کینیڈا جانے کا قصد کیا اور ہم نے اپنے پاسپورٹ کینیڈا کی ایمبیسی کو بھیجے، صاحب نے ایمبیسی میں کسی سے بات کر رکھی تھی تاکہ ہمارے قیام کے دوران ہی ہمیں جلد از جلد ویزہ مل جائے اور ہم اپنی کینیڈا جانے کی خواہش کو عملی جامہ پہنا سکیں ۔ جس شخص سے ایمبیسی میں بات کر رکھی تھی اس نے صاحب کو کال کرکے کہا کہ آپ نے فیملی ویزہ کے لیے کہا تھا لیکن جو پاسپورٹ آپ نے بھیجے ہیں ان میں آپ کی والدہ کا پاسپورٹ بھی ہے۔صاحب نے کہا کہ میری والدہ بھی میری فیملی کا ہی حصہ ہیں ۔

ہم نے مغرب سے بہت سی چیزوں کی تقلید کی ہے لیکن سوئے اتفاق ان کے ہاں پائے جانے والے مثبت رجحانات کے بجائے ہم نے منفی باتوں کو زیادہ تیزی سے اپنے معاشرے کا حصہ بنا لیا ہے۔ ابھی تک ہم گاؤں جاتے ہیں تو راہ چلتے لوگ روک لیتے ہیں ، سلام کرتے ہیں، بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں، ان کا نام اور کام پوچھتے ہیں ، اور سوال کرتے ہیں کہ ہم کس لیے اور کتنے دنوں کے لیے گاؤں آئے ہیں۔

بچے ان سوالوں کو برا محسوس کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری ذاتی زندگیوں میں مداخلت ہے ۔ ہم کون ہیں، کیوں گاؤں آئے ہیں یہ ہماری اپنی مرضی ہے… راہ چلتے لوگوں کو ہم سے یہ تفاصیل پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں، بچے کندھے اچکا کر کہتے ہیں ۔ میں نے دس سالوں کے اندر اندر اپنے ملک اور معاشرے کا چہرہ، رسوم و رواج اور بچوں کی سوچ بدلتے دیکھی ہے ، اب ہمارے بچے بھی فیملی کو صرف میں ،میرا شریک حیات اور میرے بچے ہی سمجھتے ہیں ، باقی سب رشتے ثانوی حیثیت کے حامل ہیں ۔

ہم ہیں کون ؟ کس مذہب کے ماننے والے ، کہاں ہے وہ تعلیم جو کہتی ہے کہ مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں جس کے ایک حصے میں درد ہو تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے۔ مسلمان وہ نہیں جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے کو تکلیف پہنچے۔ ہمارے گھر سے چالیس گھر تک ہمارے ہمسائے گنوائے گئے۔بھول گئے ہم کیا نبی کریم ﷺ کا وہ ارشاد کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمسائیوں کے حقوق اس قدر بتائے ہیں کہ ایک مقام پر مجھے یہ لگا کہ شائد انھیں وراثت میں حصہ دار بھی بنایا جائے گا۔

ہم لاتعلقی کے جس مرض میں مبتلا ہو گئے ہیں اس نے ہمارے ملک میں برائیوں ،گناہوں اور جرائم کے نئے باب وا کر دیے ہیں ۔

چونکہ ہم کسی سے رابطہ نہیں رکھتے ، کسی ہمسائے کو جانتے نہیں، یا اپنی زندگیوں میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتے ہیں اس لیے مجرموں اور دہشتگردوں کو کہیں چھپنے کی ضرورت نہیں ، وہ ہمارے سامنے والے گھر میں رہتے ہیں، ہماری حرکات و سکنات کا جائزہ لیتے ہیں ، ہماری مسجدوں میں نام نہاد نمازیں پڑھتے ہیں، ہمارے سامنے دندناتے پھرتے ہیں اور اپنے منصوبوں پر پوری کاملیت سے عمل پیرا ہوتے ہیں۔ وہ ہمارے سامنے والے یا ساتھ والے گھر میں اسلحہ بھی تیار کر سکتے ہیں، کسی کو اغوا کر کے بھی لا سکتے ہیں ، قاتلوں کو پناہ بھی دے سکتے ہیں اور گولی مار کر کسی کا قتل بھی کر سکتے ہیں ۔

انھیں اس کے لیے گن پر سائلنسر لگانے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ ہمیں ایسی کسی گولی سے فرق نہیں پڑتا جو ہمیں نہیں ماری جا رہی۔ مجرم بازاروں میں اور پبلک مقامات پر ہمارے سامنے بھی وارداتیں کرتے ہیں تو ہم انھیں روک نہیں سکتے ہیں، نہ ہاتھ سے اور نہ زبان سے ۔اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ معاشرتی نظام میں جو خرابیاں میڈیا کے ذریعے یا مغربی معاشرے کی تقلید میں در کر آئی ہیں ہم نے انھیں بعینہ قبول کر لیا ہے خواہ وہ ہمارے مذہب اور معاشرت سے کتنی ہی متنازعہ کیوں نہ ہوں ۔

دوسری خرابی یہ ہے کہ جہاں جہاں معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوا ہے ہم نے اسے قبول کر لیا اور سوچ لیا کہ اس میں سدھار اور اصلاح کی گنجائش نہیں ۔اسی لیے ہم نے دہشتگردی کے نام پر وہ نقصانات اٹھائے ہیں جن کا ازالہ قیامت تک ممکن نہیں۔ کتنے سہاگ اجڑے،کتنے بچے یتیم ہوئے، کتنی ماؤں کی گودیں اجڑیں، کیسے چہرے خاک ہوئے،مگر اب بھی ہم نے کچھ نہیں سیکھا،اب بھی ہم نے سوچ لیا ہے کہ یا تو یہ خرابیاں دور ہی نہیں ہو سکتیں یا ہم capable نہیں، ابھی تک ہم راہ تک رہے ہیں اس مسیحا کی جو کسی آسمان سے اترے گا، ابھی تک ہم منتظر ہیں اس معجزے کے جو اﷲتعالیٰ کی طرف سے ہم پر نازل ہو گا ۔بھول جاتے ہیں ہم کہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

نوٹ۔گذشتہ برس آج کے دن میرے والد صاحب اس دار فانی سے کوچ کر گئے تھے اﷲتعالیٰ ان کی آخرت کی منزلیں آسان فرمائے۔آمین۔ آپ سے التماس ہے کہ ایک بار سورۃ فاتحہ پڑھ کر ان کی روح کے ایصال ثواب کے لیے دعا فرمائیں ۔ شکریہ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔