اندھیرے سے روشنی تک کا سفر

ضمیر آفاقی  جمعـء 27 مارچ 2015
ہمیں ایسی خواتین کی عزت و تکریم کرنی چاہیے جو کسی غلط راستے کا انتخاب کرنے کے بجائے محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہیں۔

ہمیں ایسی خواتین کی عزت و تکریم کرنی چاہیے جو کسی غلط راستے کا انتخاب کرنے کے بجائے محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہیں۔

کسی بھی ریاست کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ریاست میں بسنے والے تمام افراد کی بنیادی ضروریات پوری کرے، ان کی روٹی روزی کا انتظام کرے، اُن کی رہائش، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی ضروریات کا حل ریاست کے پاس ہونا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی جو افراد معاشرے میں تنہا رہ جاتے ہیں ان کی پشت بان بھی ریاست ہی کی ذمہ داری ہے۔

ریاست جو ٹیکس وصول کرتی ہے اس کا ایک بنیادی اصول جو پوری دنیا میں رائج ہے، اس کے مطابق ریاست امیر افراد سے ٹیکس وصول کرتی ہے اور غریب افراد کی پرورش پر خرچ کرتی ہے۔ ایسا تمام فلاحی ممالک میں ہورہا ہے بلکہ دنیا کے تمام مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں اسی اصول پر عمل ہو رہا ہے۔ جبکہ ہمارے جیسے ملک میں ٹیکس کا جو نظام ہے وہ اس قدر غیر منصفانہ ہے کہ ایک مزدور بھی اتنا ہی ٹیکس ادا کرتا ہے جتنا کوئی صاحب حیثیت یا ساہوکار اور اس پر تماشہ دیکھیے کہ غریب آدمی کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں۔ مرد تو ایک جانب خواتین جو بے سہارہ ہوجاتی ہیں جن کے خاوند، بیٹے یا بھائی نہیں ہوتے یا مرجاتے ہیں ان کی زندگی تو یہ ’’پاک باز‘‘ معاشرہ جہنم بنا دیتا ہے۔ نہ انہیں کام کرنے دیا جاتا اور نہ ہی ان کی مدد کی جاتی ہے ایسی خواتین معاشرے کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں وہ جو چاہے ان کے ساتھ سلوک کرسکتے ہیں۔

شہروں میں تو پھر شاید کچھ بہتر صورت حال ہو لیکن دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کا حال تو پوچھیے ہی مت۔ ایسے میں اگر کوئی بے سہارہ عورت تمام روایات کو توڑ کر اپنے اور اپنے بچوں کی کفالت کے لئے باعزت روزگار کاراستہ خود منتخب کرتی ہے تو جہاں اس کی مخالفت کرنے والے موجود ہوتے ہیں، وہیں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ پڑھی لکھی خواتین تو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنے لئے جگہ بنالیتی ہیں۔ لیکن ناخواندہ خواتین کے حصے میں لوگوں کے گھروں میں کام کرنا یا کوئی چھوٹا موٹا کام ہی آتا ہے جس سے باعزت زندگی گزارنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

اسی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں خواتین کے لئے ٹیکسی یا رکشہ چلانا ناممکنات میں سے تھا، جسے ممکن بنانے والی خواتین مبارک باد کی مستحق ہیں، انہی خواتین میں ایک نوعمر اور دبلی پتلی لڑکی پشاور کے نواح میں تین پہیوں والا چنگ چی رکشہ چلا رہی ہے۔ یہ شاید پاکستان کی پہلی خاتون رکشہ ڈرائیور ہے۔ رکشہ چلا کر روزی کمانے کے لئے وجیہہ اپنے خاندان کی کفالت میں غیر معمولی حوصلے کا مظاہرہ کررہی ہے۔ وجہیہ اسکول کے بعد اپنے والد انعام الرجمان کے ساتھ قریبی اسٹینڈ سے سواریاں اٹھاتی ہے۔ انعام الرجمان کی پینشن ان کے خاندان کی کفالت کے لیے ناکافی تھی اور اسی لئے انہوں نے سواریاں اٹھانے کے لیے رکشہ خریدا۔ معذور ہونے کے باوجود، انعام نے کبھی اپنی بیٹی سے مدد کرنے کا نہیں کہا لیکن وجیہہ نے اپنی مرضی سے یہ کام اپنے ذمے لیا ہے اور اب وہاں کے لوگ حیرت نہیں کرتے، بلکہ اِس نازک سی لڑکی سے متاثر ہیں کہ وہ اپنے والد کی مدد کررہی ہے۔

اسی طرح پاکستان کی پہلی خاتون ٹیکسی ڈرائیور کا اعزاز حاصل کرنے والی باہمت 51 سالہ زاہدہ کاظمی کی مثال بھی ہمارے سامنے موجود ہے، جنہوں نے اپنی زندگی کی تلخ حقیقتوں کو بدلنے کے لئے ٹیکسی چلانے کا پیشہ اختیار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ 1992 میں جب اُن کے شوہر کا حادثہ میں انتقال ہوگیا تو اُنہیں 6 بچوں کی کفالت کیلئے ڈرائیونگ کا پیشہ اپنانا پڑا، حالانکہ میرے خاندان والوں نے میری مدد کے بجائے اُلٹا میری مخالفت شروع کردی تھی، لیکن اس کے باوجود میں نے وقت ییلوکیب اسکیم کے تحت ٹیکسی حاصل کی اور آج 20 برس سے زائد عرصہ سے ٹیکسی چلا رہی ہوں۔

اُن کا کہنا تھا کہ شروع کے دنوں میں ٹیکسی چلاتے وقت وہ اپنے ساتھ پستول رکھتی تھی، تاہم اب اُنہیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ زاہدہ کاظمی نے مزید کہا کہ میں اسلام آباد سے قبائلی علاقوں کے سنگلاخ پہاڑوں تک مسافروں کو منازل تک پہنچا چکی ہوں اور الحمد اللہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا چکی ہوں۔

یقینی طور پر یہ ایک احسن قسم ہے مگر افسوس کا پہلو یہ ہے کہ یہ معاشرہ کسی عورت کی مدد نہیں کرتا اور نہ ہی اسے باعزت روزگار کمانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ معاشرتی روئیوں میں تبدیلی لاتے ہوئے ایسی خواتین کی عزت و تکریم کرنی چاہیے جو کسی غلط راستے کا انتخاب کرنے کے بجائے محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہیں۔ ایسی خواتین ہی دراصل کسی بھی معاشرے کا حسن ہوتی ہیں۔

ہمارے ہمسایہ ملک ایران اور بھارت میں تو اب باقائدہ کیب کمپنیاں کام کررہی ہیں جن میں خواتین کو بطور ڈرائیور رکھا جاتا ہے۔ ان کیب کمپنیوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ خواتین ڈرائیور کی کارکردگی مرد ڈرائیور سے زیادہ اچھی ہے۔ افغانستان میں بھی خواتین ٹیکسی چلارہی ہیں جبکہ بنگلہ دیش میں تو ریل کار کی ڈرائیور بھی خواتین ہیں۔

اگر ریاست اپنے شہریوں کی کفالت نہیں کرسکتی تو ان کے لئے ایسا سازگار ماحول ضرور فراہم کرنا چاہیے کہ وہ کام کاج کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں، خصوصاً ناخواندہ خواتین کے روزگار کے آسان ذرائع اور مواقع پیدا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے جو اُسے ہر حال میں پوری کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی معاشرے میں موجود افراد کوبھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان خواتین کی مدد کرنی چاہئے جو باعزت روزگار سے اپنا گھر چلارہی ہیں، نہ کہ ان پر تنقید کرتے ہوئے بے جا پابندیاں لگائیں۔ خواتین ہماری آبادی کا آدھا حصہ ہیں اور اُن کی فعالیت سے معاشرہ ترقی کرسکتا ہے، مگر شرط صرف اتنی ہے کہ ان کے لئے ایسا ماحول فراہم کیا جائے جس میں یہ بلا خوف خطر وہ عزت و آبرو کے ساتھ کام کرسکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی سینئر صحافی، انسانی حقوق خصوصاً بچوں اور خواتین کے حقوق کے سرگرم رکن ہیں جبکہ سماجی ٹوٹ پھوٹ پران کی گہری نظر ہونے کے ساتھ انسانی تکریم اوراحترام کے لئے جدو جہد ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔