حقوق اور آزادی

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 28 مارچ 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

بلوچستان عشروں سے بدامنی کا شکار ہے، سبوتاژ اور دہشت گردی کے واقعات یہاں عام ہیں، ہمارا حکمران طبقہ اب تک حالات کی بہتری کے لیے بڑی کوششیں کر چکا ہے لیکن بلوچستان کے حالات میں کوئی بامعنی تبدیلی دیکھی نہیں جا رہی ہے، اس قسم کی غیر یقینی صورت حال میں بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ میں 8 روزہ اسپورٹس فیسٹیول کا اہتمام کیا گیا۔

اس فیسٹیول میں عوام نے بھرپور طریقے سے شرکت کی۔ فیسٹیول سے خطاب کرتے ہوئے گورنر بلوچستان نے صوبائی حکومت سے کہا کہ وہ عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہنگامی بنیاد پر کام کرے۔ کمانڈنٹ سدرن کمان جنرل ناصر خان جنجوعہ نے کہا کہ بلوچستان کی حکومت نے اسپورٹس فیسٹیول کا اہتمام کر کے مخالف قوتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ بلوچستان کے عوام محب وطن ہیں اور اب وہ تشدد پسند عناصر کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے، بلوچستان ایک آزاد صوبہ ہے، اسے آزاد کرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بلوچستان کے وزیر کھیل مجیب الرحمن محمد حسنی نے کہا کہ حکومت عوام سے کیے گئے وعدے پورے کر رہی ہے۔

بلوچستان میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ منتخب وزیر اعلیٰ ہیں، پاکستان میں 7 سال سے بلدیاتی نظام معطل ہے، اس کی وجوہات مختلف ہیں، سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات سے گریز کا مقصد یہ ہے کہ ان صوبوں میں اشرافیہ کسی حوالے سے اپنے انتظامی اور مالی اختیارات کی تقسیم نہیں چاہتی، ساری دنیا میں بلدیاتی نظام کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور اختیارات کی تقسیم کی وجہ سے علاقائی مسائل حل کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔

بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے التوا کی بڑی وجہ یہاں کی بدامنی اور مخدوش صورت حال بتائی جاتی رہی لیکن موجودہ مالک حکومت نے چاروں صوبوں میں سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات کروا کر نہ صرف مثال قائم کی ہے بلکہ بالواسطہ طور پر یہ بات بھی ثابت کر دی ہے کہ اس بدقسمت صوبے میں حالات اس قدر ابتر نہیں جتنے عام طور پر بتائے جاتے ہیں۔

بلوچستان کے عوام کی ناراضگی کا سب سے بڑا سبب یہ رہا ہے کہ اس کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان کی نئی نسل کا ایک طبقہ اپنے صوبے میں اپنا اختیار چاہتا ہے اور یہ کوئی نامنصفانہ مطالبہ نہیں۔ بلوچ رہنماؤں کو ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ بلوچستان کے بے بہا قدرتی وسائل ان کے ہاتھوں میں نہیں۔ نہ بلوچستان کے انتظامی اختیارات ان کے ہاتھوں میں دیے جا رہے ہیں۔ یہ ایک عمومی لیکن اہم ترین شکایت ہے جس کا ازالہ غالباً پوری طرح نہیں کیا جا رہا ہے۔

بلوچستان میں مالک کی منتخب حکومت کے قیام کے بعد منطقی طور پر اس شکایت کا ازالہ ہونا چاہیے، لیکن بلوچستان کے حالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ناراض عوام کی ناراضگی ابھی تک دور نہیں کی جا سکی۔بلوچ بھائیوں کی دوسری بڑی شکایت یہ رہی ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو پراسرار طریقے سے لاپتہ کیا جاتا ہے، یہ شکایت صرف جنگجو عناصر کی نہیں ، یہ مسئلہ کسی نہ کسی شکل میں پاکستان کی تاریخ سے جڑا چلا آ رہا ہے۔

کسی بھی ملک میں بڑے سے بڑے مجرم اور جرم کے خلاف قوانین بھی موجود ہیں، آئین بھی۔ ہم ایک طرف آئین اور قانون کی برتری کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف آئین اور قانون کی حرمت کو پامال کرتے نظر آتے ہیں۔ جرم خواہ دہشت گردی کا ہو یا غداری کا، آئین اور قانون میں ان سارے جرائم کی سزائیں بھی موجود ہیں اور ان پر عملدرآمد کا طریقہ کار بھی موجود ہے، لیکن ملک کے مختلف حصوں میں ماورائے قانون و عدالت اقدامات کی شکایات عام ہیں، عوام میں بے چینی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔

بلوچستان رقبے کے حوالے سے ملک کے تینوں صوبوں سے بڑا صوبہ ہے لیکن سرداری اور قبائلی نظام کی وجہ سے عوام نہ صرف قبائل میں بٹے ہوئے ہیں بلکہ ان کی وفاداریاں قبائلی سرداروں کے گرد گھومتی ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے عوام کی اجتماعی طاقت کا مثبت استعمال نہیں ہو پاتا لیکن بلوچوں کی نوجوان نسل کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ صوبے کی بدامنی کا نقصان بلوچ قوم کو ہو رہا ہے۔

بلوچستان کی اس صورت حال کی پیچیدگی میں اضافہ اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ مسلح تحریکوں کے ساتھ ساتھ یہاں مذہبی انتہا پسند طاقتیں بھی متحرک ہیں، بعض اوقات ان کی کارروائیوں میں شناخت بھی مشکل ہو جاتی ہے، حکومت مخالف طاقتوں کو یقینی طور پر یہ احساس ہونا چاہیے کہ دہشت گرد طاقتوں کا ایجنڈا مختلف ہی نہیں اس ملک کے عوام کے مستقبل کے لیے بھی خطرناک ہے۔

اس نازک اور پیچیدہ صورت حال میں ناراض عوام کو بھی بہت محتاط ہونا چاہیے۔بلوچستان میں بہت سارے اہل دانش گزرے ہیں اور اب بھی یہ سرزمین آفاقی سوچ رکھنے والوں سے خالی نہیں ہے جنھیں اس حقیقت کا شعور ہے کہ صرف بلوچستان ہی کے عوام نہیں بلکہ چاروں صوبوں کے عوام 67 سال سے استحصالی طبقات کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں اور محرومیوں کا شکار ہیں، مذہب، قومیت، زبان کے حوالے سے متعصب اور نفرت پھیلانا ہر حال میں اشرافیہ کے مفاد میں جاتا ہے اور اس تقسیم کی وجہ سے حقوق کی لڑائی ہی بدنام نہیں ہوتی بلکہ غریب عوام کا نقصان اور عوام دشمنوں کا فائدہ ہوتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ظلم و استحصال سے تنگ آئے ہوئے عوام بعض اوقات اپنے اجتماعی مفادات کو بھی بھلا بیٹھتے ہیں لیکن اس کا نقصان جلد یا بدیر عوام ہی کو ہوتا ہے۔

بلوچستان میں زبان اور قومیت کے حوالے سے کی جانے والی کارروائیوں کا سدباب انتظامی حوالے سے ممکن نہیں بلکہ اس کا سدباب وہ ترقی پسند دانشور، ادیب اور شاعر کر سکتے ہیں جنھیں عوام کے اجتماعی دکھوں کا احساس اور ادراک ہوتا ہے، بلوچستان کی سر زمین ایسے لوگوں سے تہی دامن نہیں ان محب عوام دوستوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ حقوق کی اس جنگ کو گنجلک ہونے سے بچائیں اور عوام میں طبقاتی شعور پیدا کر کے انھیں استحصالی طاقتوں کے خلاف صف آرا کریں اس بات کو سمجھنے اور اس میں امتیاز کرنے کی ضرورت ہے کہ حقوق کی جنگ اور جنگ آزادی میں فرق ہوتا ہے جب تک اس فرق کو سمجھا نہ جائے حقوق کی جنگ ابہام کا شکار رہتی ہے۔

اہل عقل اور اہل علم بجا طور پر یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا صرف بلوچستان کے عوام ہی اشرافیائی مظالم کا شکار ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے اور چاروں صوبوں کے عوام ہی اشرافیائی مظالم کا شکار ہیں تو کیا یہ بات منطقی نہیں رہتی کہ وہ یہ جنگ الگ الگ لڑکر مشکلات کا شکار ہونے کے بجائے یہ جنگ اجتماعی طور پر اس پورے کرپٹ استحصالی اور ظالمانہ نظام کے خلاف لڑیں؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی جنگ کی رہنمائی کے لیے ملک میں نہ کوئی مخلص قیادت موجود ہے نہ کوئی سیاسی پارٹی موجود ہے لیکن یہ خلا زیادہ دیر تک باقی نہیں رہنا۔ ظلم اپنی قبر خود کھودتا ہے اور حالات مظلوموں کے حق میں جلد یا بدیر استوار ہوتے ہیں یہی تاریخ بتاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔