مسلماناں بخویشاں درستیزند

اوریا مقبول جان  پير 20 اپريل 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا کی جھیل کے کنارے امریکی اور اس کے پانچ اتحادی مارچ کے آخری ہفتے میں ایرانی قیادت کے ساتھ ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کر رہے تھے اور دوسری جانب عراق کے تیل کی دولت سے مالا مال شہر تکریت سے اسلامی ریاست کا قبضہ چھڑوانے کے لیے امریکا، عراق اور ایران کے پاسداران شانہ بشانہ لڑ رہے تھے۔ اس دوران امریکی ’’عادت‘‘ کے مطابق ایک دوستانہ ڈرون حملہ ہوا جس میں ایرانی پاسداران کے دو اہم ارکان علی یزدانی اور ہادی جعفری مارے گئے۔ ایرانی میڈیا ایک دم سیخ پا ہو گیا اور اپنے اتحادی امریکا کے خلاف زہر اگلنے لگا۔

تکریت کے خلاف کارروائی کا آغاز عراقی حکومت کی مرضی سے 21 مارچ کو شروع ہوا اور اسی دن سے امریکی طیاروں اور ڈرونز نے تکریت پر اپنی پروازیں شروع کیں۔ ایرانی پاسداران کمانڈروں کے جسد خاکی تہران پہنچے تو جنازے پر ایک جم غفیر امڈ آیا۔ امریکی ایئر فورس کی سینٹرل کمانڈ نے اعلان کیا کہ 22 مارچ سے 24 مارچ 2015ء کے دوران تکریت پر کوئی فضائی حملہ نہیں کیا گیا، بلکہ پہلا حملہ 23 مارچ کی رات کو ہوا۔ تکریت پر زمینی حملہ عراقی افواج اور ایران کے تحت منظم کردہ ملیشیا کے باہم اشتراک سے شروع ہوا جس کی سربراہی ایرانی پاسداران کا سربراہ جنرل قسیم سلیمانی کر رہا تھا۔ عراقی فوج نے امریکا کو ایران کی مرضی سے اپنے ساتھ ملایا تا کہ فضائی مدد حاصل کی جاسکے۔

امریکی افواج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل لائڈ آسٹن نے سینیٹ کو بتایا کہ یہ حملے دونوں کی مرضی سے شروع کیے گئے۔ تکریت کی یہ لڑائی جو تیل کے ذخائر کے قبضے کی لڑائی ہے، اسے اب مکمل طور پر مسلکی تنازعے میں بدل دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حملے کے بعد تین گروہ جو ایرانی مدد سے وہاں لڑ رہے ہیں ان کے ترجمان نعیم العبیدی نے کہا کہ امریکی ہمارے لوگوں پر ’’غلطی‘‘ سے بم برسا رہے ہیں اور اسلامی ریاست کے لوگوں پر ’’غلطی‘‘ سے امداد۔ یہ وہی عبیدی ہے جس نے بدر ملیشیا، قدس ملیشیا اور اخوان حزب اللہ ملیشیا کے ساتھ مل کر امریکی افواج سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ تکریت کو آزاد کروانے کے لیے ان کی فضائی مدد کرے۔

یہ وہی ملیشیا ہے جو وہاں موجود اسلامی ریاست (آئی ایس) کے خلاف لڑرہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون نے ان لوگوں کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ملیشیا جس علاقے میں داخل ہوتے ہیں وہاں لوگوں کو پکڑتے ہی قتل کر دیتے ہیں، عمارات کو بلڈوز کر دیتے ہیں اور اپنے علاقوں میں لوگوں کو اغوا کرتے ہیں۔ اسی طرح کے الزامات ایرانی اور عالمی میڈیا کی طرف سے اسلامی ریاست کی طرف بھی لگائے جاتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں یہ سب کب سے ہو رہا ہے اور کون اس جنگ کو مسلک کی جنگ میں تبدیل کر کے مسلمانوں کا خون بہا رہا ہے۔ یہ بہت تکلیف دہ موجودہ تاریخ ہے۔ دیگر عرب ممالک کی طرح جب شام کے اقلیتی ڈکٹیٹر بشار الاسد کے خلاف وہاں کی اکثریت اٹھ کھڑی ہوئی تو اس کی آمریت کو بچانے کے لیے ایران اور حزب اللہ نے صرف اسلحہ نہیں بلکہ افرادی قوت تک وہاں پہنچانا شروع کی۔ دوسری جانب سعودی عرب نے وہاں کے لڑنے والوں کو سرمایہ اور اسلحہ دینا شروع کیا۔ محمد علی مرادی جو ایک 45 سالہ افغان تھا، ایران کے ایک قید خانے میں منشیات اسمگل کرنے کے جرم میں قید کاٹ رہا تھا، اسے اس شرط پر رہا کیا گیا کہ وہ شام میں جا کر بشار الاسد کی فوج کے ساتھ لڑے گا۔ شام میں ایران کے پاسداران نے ایک ملیشیا ترتیب دیا تھا جسے ’’لیوا فاطمیون‘‘کہا جاتا ہے۔

محمد علی مرادی کو 600 ڈالر ماہانہ دیے جاتے تھے۔ مرادی نے اپنے خاندان کے لوگوں کو بتایا کہ اسے ایران میں مختصر ٹریننگ دی گئی اور بتایا گیا تمہیں سیدہ زینب، سیدہ رقیہ اور حجر بن عدی کے مزارات کے تحفظ کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔ وہاں وہ ان افغان ہزارہ لوگوں کے ساتھ شریک ہو گئے جو شام میں آباد تھے اور اب بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ مل کر باغیوں سے جنگ کر رہے تھے۔ اسی جولائی 2014ء میں ایرانی میڈیا پر ایک پاکستانی نوجوان جاوید حسین کا جنازہ دکھایا گیا جسے قم کے شہر میں میں دفن کیا گیا۔ یہ پاکستانی نوجوان شام میں باغیوں کے خلاف لڑنے گیا تھا۔ اسی جولائی میں ایرانی میڈیا پر ایرانی پائلٹ شجاعت علمداری مورجانی کی نماز جنازہ بھی دکھائی گئی جو عراق میں ’’باغیوں‘‘ سے لڑتا مارا گیا تھا اور اسے شیراز میں دفن کیا گیا۔

اس وقت فارسی زبان میں کئی سو ویب پیجز ایسے ہیں جو نوجوانوں سے یہ اپیل کر رہے ہیں کہ شام میں جا کر لڑو۔ ’’لیوا فاطمیون‘‘کے ویب پیج پر ایسے افغان افراد جو ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی تصاویر ہیں جو شام میں لڑتے ہوئے مارے گئے۔ گزشتہ ایک سال سے شام کی اس جنگ میں بہت تیزی آ گئی ہے۔ جہاں مغرب سے ہزاروں لوگ اسلامی ریاست کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے وہاں پہنچے ہیں، وہیں ایران کے ذریعے شام اور عراق کی حکومتوں کا ساتھ دینے والے دیگر ملکوں کے لوگ بھی وہاں جا رہے ہیں۔ گیارہ اپریل کو ایرانی میڈیا اور عالمی پریس میں سات پاکستانیوں کے جنازوں کی خبر بھی نشر ہوئی جو شام میں مارے گئے اور ان کا جنازہ قم میں پڑھا گیا۔

اس جنگ میں پڑوسی ملکوں کی مداخلت کا آغاز اس وقت ہوا جب ایران نے قدس فورس کے نام پر 500 پاسداران کو سمارا‘ بغداد اور کربلا کی حفاظت کے لیے بھیجا، آج اس نے پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اب اس جنگ کے دو بنیادی میدان ہیں، ایک تکریت اور دوسرا یمن ۔ دونوں میں لڑائی کی وجہ نہ شیعہ تعصب ہے اور سنی تعصب بلکہ دونوں کی وجہ تیل کی دولت اور تیل کی سپلائی لائن ہے۔ لیکن ایران ہو یا سعودی عرب دونوں اس امت کے نوجوانوں کو مقدسات کے نام پر اس جنگ میں کودنے کو کہہ رہے ہیں۔ اس وقت تک ایران کے گیارہ اعلیٰ افسران عراق میں جنگ کے دوران مارے جا چکے ہیں۔

کیپٹن علی رضا موشجاری (جون 2014ء سمارا)، کرنل کمال شیر خانی (جون 2014ء سمارا) کرنل شجاعت علمداری مورجانی (جولائی 2014ء سمارا)، بریگیڈر جنرل حامد تقادی (28 دسمبر 2014ئ، سمارا)، کمانڈر مہدی نورزئی (10 جنوری 2015ئ، سمارا)، حسین شاکری، (23 جنوری 2015ء سمارا)، کمانڈر رضا حسین مقدم (7فروری 2015ء سمارا)، محمد ہادی ذلفگاری (15 فروری 2015ء سمارا)، کمانڈر قدس فورس صادق ہادی گولدارہ (20 مارچ 2015ء تکریت) اور علی یزدانی اور ہادی جعفری جن کے بارے میں کہا گیا کہ یہ مارچ 2015ء کے ڈرون حملے میں مارے گئے۔ اسی طرح جولائی 2014ء میں حزب اللہ کا کمانڈر ابراہیم الحج شام میں مارا گیاجو وہاں شامی فوج کے ساتھ بغاوت کو کچلنے کے لیے حزب اللہ کو شریک کر رہا تھا۔

یہ وہ لوگ ہیں جن کے مرنے کا سوگ اور ان کی قربانیوں کو اجاگر خود ایرانی، عراقی، شامی اور دیگر میڈیا نے خود کیا ہے۔ کتنے مزید ایسے ہوں گے جو دیگر مسلمان ملکوں سے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اورشوق شہادت سے سرشار ہو کر عراق اور شام کی سرزمین پر پہنچے ہوں گے، دل میں یہ مقصد لیے کہ ہم نے وہاں کربلا، نجف، دمشق اور کاظمین کا تحفظ کرنا ہے ۔لیکن اب کوئی یہ نہیں بتاتا کہ یمن میں کونسے مقدسات ہیں جن کے تحفظ میں لوگ وہاں لڑنے جا رہے ہیں۔ تکریت میں کس کا مزار ہے جس کو بچانا مقصود ہے۔

اس امت کی موجودہ دور میں بدقسمتی یہ ہے کہ اس پر حکمران اپنی سلطنت کو بچانے کے لیے مقدسات کا نام استعمال کرتے ہیں۔ ایک جانب یہ آواز بلند کی جاتی ہے کہ حرمین شریفین کی تحفظ کے لیے امت اکٹھی ہو جائے اور دوسری جانب مزارات کے نام پر دوسرا گروہ دنیا بھر سے لوگوں کو اکٹھا کر رہا ہے۔ سید الانبیاء ﷺ نے خانہ کعبہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ’’اے کعبہ تو دنیا میں سب سے مقدس اور محترم مقام ہے لیکن ایک مسلمان کی جان اس کعبے سے بھی زیادہ محترم اور مقدس ہے‘‘۔ اقبال نے آخری عمر میں رسول اکرم کے حضور بہت سی رباعیاں تحریر کیں جو انھوں نے حج کے ارادے سے لکھی تھیں کہ یہ توشہ وہ رسول اکرمؐ کے حضور پیش کرنا چاہتے تھے۔ ان رباعیات میں اپنی عرضداشت کے ساتھ انھوں نے اس امت کا حال بھی لکھا ہے۔ اقبال نے فرمایا

مسلمان بخویشاں در ستیزند
بحز نقش دوئی دردل نہ ریزند

بنالندار کسے خشتے بگیرد
ازاں مسجد کہ خوداز وے گریزند

(مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں، ان کے دلوں میں اختلاف کے سوا کچھ نہیں۔ اگر کوئی مسجد کی ایک اینٹ اٹھا کر لے جائے تو آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں لیکن اس مسجد میں داخل ہونا پسند نہیں کرتے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔