بھارتی ایجنسیاں پاک چائنہ اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر

ویب ڈیسک  منگل 29 مارچ 2016

اسلام آباد: ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ  کا کہنا ہے کہ بھارتی ایجنسیوں کا اہم ہدف پاک چائنہ اقتصادری راہداری کو تباہ کرنا تھا جس کیلیے وہ گوادر کو نشانہ بنانا چاہتے تھے اور اس کام کیلیے ’’را‘‘سے مزید 30 سے 40 ایجنٹ فعال کرنا تھا۔

اسلام آباد میں وزیراطلاعات سینیٹر پرویز رشید اور ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے مشترکہ پریس کانفرنس کی، اس دوران ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ کچھ  دنوں سے’’را‘‘کے ایجنٹ کی گرفتاری پر سوال اٹھ رہے ہیں اور ہماری پریس کانفرنس کا مقصد بھی ’را‘ کے گرفتار دہشت گرد کل بھوشن یادیو سے متعلق معلومات شیئر کرنا ہے کیوں کہ کسی بھی ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی  کے افسر کا گرفتار ہونا بڑی کامیابی ہوتی ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ کل بھوشن یادیو تفتان کے راستے بلوچستان آیا اور اسے بھارتی ایجنسی’’را‘‘ کے چیف، جوائنٹ سیکریٹری ہینڈل کررہے تھے جب کہ کل بھوشن یادیو بھارتی بحریہ میں حاضرسروس ملازم بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’را‘ کا نیٹ ورک پاکستان میں موجود ہے جو پاکستان میں مداخلت کررہا ہے، کل بھوشن یادیو کو جب گرفتار کیا گیا اس وقت اس کے پاس پاکستان کے مختلف علاقوں کے نقشے موجود تھے، اس کے علاوہ پاکستانی، بھارتی اور ایرانی کرنسی بھی موجود تھی۔ ترجمان نے کہا کہ کل بھوشن یادیو انسانی اسمگلنگ، دہشت گردوں کی فنڈنگ اور ہتھیار فراہم کرنے میں ملوث  تھے جب کہ گوادر میں چینی انجینئر کے ہوٹل میں دہشت گردی کی کارروائی کرنے کا ٹاسک بھی دیا گیا تھا، اس کے علاوہ کل بھوشن نے کراچی میں شہید ہونے والے پولیس افسر چوہدری اسلم سے متعلق بھی بتایا۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ انٹرنیشنل کمیونٹی ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہی ہے، بلوچ قوم پرستوں سے رابطے، بلوچستان میں تخریبی کارروائیاں کل بھوشن کے ٹاسک تھے جب کہ اس کا اہم  ہدف پاک چائنا اقتصادری راہداری کو تباہ کرنا اور اس کے لیے مستقبل میں گوادرپورٹ پرحملہ بھی اس کا ہدف تھا جس کے لیے’’را‘‘ سے مزید 30 سے 40 ایجنٹ فعال کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے خلاف ہمیں اس سے بہترین اور کھلا ثبوت کوئی اور نہیں مل سکتا کہ کیسے دوسرے ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی پاکستان میں شدت پسند کارروائیوں میں ملوث ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک کریں گے جب کہ ملک میں دہشتگردوں کےجہاں سلیپرسیلز ہوں گے وہاں کارروائی ہوگی، راولپنڈی لاہور سمیت ملک کے مختلف حصوں میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیز کے درمیان معلومات کا تبادلہ ہوا، یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ ایرانی حکام کو بھارتی سرگرمیوں کا پتا تھا جب کہ ’’را‘‘ ایجنٹ کے خلاف کارروائی پاکستانی قانون کے مطابق کی جائے گی۔

پریس کانفرنس میں وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ اگر کسی گروہ سے متعلق معلومات ملتی ہیں تواس روشنی میں کارروائی کی جاتی ہے اور ضرب عضب کے تحت آپریشن انٹیلی جنس معلومات پر کیے جاتے ہیں جب کہ صوبائی حکومت طےکرتی ہے کارروائی میں کون سی ، کتنی فورس استعمال کرنی ہے۔

دوسری جانب ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے پریس کانفرنس کے دوران بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے گرفتار ایجنٹ کے اعترافی بیان کی ویڈیو چلائی جس میں ’’را‘‘ کے ایجنٹ نے اپنا نام کلبھوشن یادیو بتاتے ہوئے کہا کہ وہ ممبئی کا رہائشی اور بھارتی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے جس میں اس کا تعلق ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ سے ہے جب کہ نیوی میں اس کا نمبر 41558 زیڈ ہے۔ کلبھوشن یادیو نے بتایا کہ اس نے 1987 میں نیشنل ڈیفنس اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد جنوری 1991 میں انڈین نیوی میں اس کی شمولیت بطور کمیشن آفیسرہوئی جہاں سے اس کی بطور کمیشن افسر ریٹائرمنٹ 2022 میں ہونا تھی۔

کلبھوشن یادیو نے بتایا کہ وہ دسمبر2001 تک انڈین نیوی میں خدمات سرانجام دیتا رہا، اس کے بعد بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا اور یہ وہ وقت تھا جس کے بعد 2002 میں اپنی 14 سالہ نیوی کی سروس کے بعد 2003 میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے لیے جاسوسی کے فرائض سرانجام دینا شروع کردیئے جب کہ اس کے لیے اپنا کوڈ نام حسین مبارک پٹیل رکھا جو بھارتی ایجنسیوں کے لیے کام کرنے کی وجہ سے اپنایا۔ بھارتی ایجنٹ نے مزید اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ جاسوسی کے لیے ایران چلا گیا اور چاہ بہار میں اپنا ایک چھوٹا کاروبار شروع کردیا، اس دوران 2003 اور 2004 میں اپنے خفیہ نام کے ساتھ  کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد ’’را‘‘ کے لیے کچھ بنیادی اہداف پورے کرنا تھے اور اس کے عوض اسے 2013 کے اوآخر میں بھارت کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ میں شامل کرلیا گیا۔ کل بھوشن نے بتایا کہ بطور ’’را‘‘ آفیسر اسے بلوچستان اور کراچی میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کا ہدف بھی دیا گیا تھا جب کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا مقصد عوام میں خوف ہراس پھیلانا تھا۔

بھارتی خفیہ ایجنٹ نے اپنے اعتراف میں بتایا کہ وہ ’’را‘‘ کے جوائنٹ سیکرٹری انیل کمار گپتا کے ماتحت کام کرتا ہے، انیل کمار گپتا کے پاکستان میں موجود رابطوں خاص طور پر بلوچ اسٹوڈنٹ تحریک کو چلانا اس کا کام تھا، ’’را‘‘ کی طرف سے بلوچ باغیوں کے لیے فنڈنگ بھی کی جاتی تھی جب کہ اس کا مقصد بلوچ باغیوں کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھنا، ان کی مدد اور اشتراک سے کارروائیاں کروانا تھا، یہ کارروائیاں مجرمانہ اور قومی سالمیت کے خلاف تھیں جنہیں دہشت گردانہ کارروائیاں کہہ سکتے ہیں اوران کا مقصد شہریوں کو ہلاک کرنا یا نقصان پہنچانا تھا۔

کلبھوشن یادیو نے بتایا کہ اس پورے عرصے میں اسے پتا چلا کہ بلوچ لبریشن کی کارروائیوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ پوری طرح ملوث ہے اور ان کارروائیوں کی زد میں پاکستان اور ارد گرد کا خطہ بھی شامل ہے، ان تمام تر سرگرمیوں کا زیادہ دائرہ کار اس کی معلومات پر مبنی ہوتا جوکہ گوادر ، پسنی جیونی اور پورٹ کے گرد بہت ساری دوسری تنصیبات پر مشتمل ہوتیں جن کا مقصد بلوچستان میں موجود تنصیبات کو نقصان پہنچانا اور بلوچ لبریشن میں مجرمانہ سرگرمیوں کی ذہنیت کو مضبوط کرنا ہوتا تھا تاکہ پاکستان کو عدم استحکام کی طرف دھکیلا جائے۔

کلبھوشن کے مطابق 3 مارچ کو ’’را‘‘ کے افسران کی طرف سے اسے دیئے گئے مختلف اہداف  کے حصول کے لیے پاکستان جارہا تھا جہاں داخل ہونے کا بنیادی مقصد بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ بلوچستان میں کارروائیاں کرنے کے لیے میٹنگ کرنا تھا اور وہ پیغامات بھارتی ایجنسیوں کو دینا تھے، میٹنگ کا بنیادی کام یہی تھا کہ ’’را‘‘ مستقبل میں بلوچستان میں کچھ بڑی کارروائیاں پلان کرنا چاہتی تھی اورکارروائیوں کے متعلق بلوچ علیحدگی پسندوں سے بات چیت کرنا تھی لیکن ایران کے ساراوان باڈر سے پاکستان کی سرحد عبور کرتے ہوئے پاکستانی حکام کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا۔

بھارتی ایجنٹ نے بتایا کہ اسے پتہ چل گیا کہ اس کے انٹیلی جنس آپریشن ناکام ہوچکے ہیں اور وہ پاکستانی حکام کی حراست میں آچکا ہے جس کے باعث اپنی شناخت ظاہر کردی۔ کلبھوشن کے مطابق دوران تفتیش پاکستانی حکام نے اس کے ساتھ اچھا اور پیشہ وارانہ برتاؤ کیا جب کہ اس نے اپنے بیان میں جو کچھ کہا وہ بغیر کسی دباؤ کے دے رہا ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔