ذمے دار

جاوید چوہدری  جمعرات 2 جون 2016
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

آپ مہاتیر محمد کی مثال لیجیے، مہاتیر محمد کو 1989ء میں ہارٹ اٹیک ہوا، ملائیشیا میں صحت کی سہولتیں زیادہ اچھی نہیں تھیں، ملک کے متمول لوگ دل کے آپریشن کے لیے سنگا پور، تھائی لینڈ، آسٹریلیا اور جاپان جاتے تھے، اعلیٰ بیورو کریٹس،وزراء اور ارکان اسمبلی بھی دوسرے ممالک سے علاج کراتے تھے، ڈاکٹروں نے مہاتیر محمد کو بھی سنگا پور، جاپان یا برطانیہ لے جانے کا مشورہ دیا، خاندان نے تیاریاں شروع کر دیں لیکن جب مہاتیر محمد کو ہوش آیا تو انھوں نے باہر علاج کرانے سے انکار کر دیا، ان کا کہنا تھا، مجھے جتنی کیئر اپنے ملک میں مل سکتی ہے وہ دوسرے ملک کے ڈاکٹر نہیں دے سکتے چنانچہ میں باہر نہیں جاؤں گا۔

ڈاکٹروں نے سمجھایا ’’ہمارے پاس میڈیکل کی جدید سہولتیں موجود نہیں ہیں‘‘ مہاتیر کا جواب تھا ’’یہ ظلم ہے ملائیشیا کے لوگ کم تر سہولتوں کے ساتھ علاج کرائیں اور وزیر اعظم کا دنیا کے مہنگے ترین اسپتالوں میں علاج ہو، میں بھی اتنی ہی سہولتیں لوں گا جتنی سہولتیں ملائیشیا کے عام لوگوں کو ملتی ہیں‘‘ ملائیشیا کے ڈاکٹر وزیراعظم کی ضد کے سامنے بے بس ہو گئے، وزیراعظم کا آپریشن ہوا، کامیاب ہوا اور یہ آج تک صحت مند زندگی گزار رہے ہیں، مہاتیر محمد کے اس فیصلے نے ملائیشیا کے ’’ہیلتھ سیکٹر‘‘ میں جان ڈال دی، ڈاکٹروں اور عوام میں اعتماد پیدا ہوا ، امراء بھی مقامی اسپتالوں میں علاج کرانے لگے، مہاتیر محمد کو علاج کے دوران اسپتالوں کے مسائل کا اندازہ ہوا، یہ صحت یاب ہونے کے بعد ہیلتھ سیکٹر پر توجہ دینے لگے اور یوں ملائیشیا میں ہیلتھ انڈسٹری ڈویلپ ہونے لگی اور یہ ملک خطے کے تین بڑے ملکوں میں شمار ہونے لگا۔

آج ملائیشیا دنیا بھر کے مریضوں سے اربوں روپے کما رہا ہے، کیسے؟ یہ ملک ہیلتھ ٹورازم کے پانچ بڑے مراکز میں شمار ہوتا ہے، ملائیشیا میں 16فائیو اسٹار اسپتال ہیں، ان میں سے 9 بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ ہیں ، دنیا بھر کے مریض ان اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، پاکستان سے بھی ہزاروں مریض ملائیشیا جاتے ہیں اور کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں، یہ معاشی انقلاب مہاتیر محمد کے ایک فیصلے کا نتیجہ تھا، یہ اگر 1989ء میں اپنی اوپن ہارٹ سرجری کے لیے برطانیہ یا سنگا پور چلے جاتے تو ملائیشیا کے لوگ آج بھی اسپتالوں میں ایڑھیاں رگڑ رہے ہوتے اور ملائیشیا کی طبی صورتحال آج بھی ناگفتہ بہ ہوتی۔

آپ مہاتیر محمد کی زندگی کا یہ واقعہ ملاحظہ کیجیے، پاکستان کی طبی حالت کا اندازہ لگائیے، ہمارے ملک کو 70 سال ہو چکے ہیں، ان ستر برسوں میں تیس سال فوج حکمران رہی، جنرل ایوب خان ہوں، یحییٰ خان ہوں، جنرل ضیاء الحق ہوں یا پھر جنرل پرویز مشرف ہوں فوجی حکمران مکمل طور پر سیاہ و سفید کے مالک تھے، جنرل ایوب خان نے ملک کو امریکا کی گود میں بٹھا دیا، ملک بیٹھ گیا، یحییٰ خان نے پاکستان توڑ دیا، پاکستان ٹوٹ گیا، جنرل ضیاء الحق نے ملک افغانستان کی آگ میں جھونک دیا، ملک آگ میں کود گیا اور جنرل پرویز مشرف نے ایک ٹیلی فون کال پر 30 سال کی افغان پالیسی ری ورس کر دی، پالیسی ری ورس ہو گئی مگر ملک کے کسی مائی کے لال کو سوال کی جرات نہ ہوئی، پیپلز پارٹی 1972ء سے حکومتی ایوانوں میں موجود ہے، بھٹو صاحب مرنے کے باوجود 37 سال سے زندہ ہیں، میاں برادران اور پاکستان مسلم لیگ ن بھی 1985ء سے حکمران ہے۔

ملک کی یہ دونوں بڑی پارٹیاں تین تین بار وزارت عظمیٰ کے جھولے میں بیٹھ چکی ہیں، پاکستان مسلم لیگ ق ملکی تاریخ کی پہلی سیاسی جماعت تھی جسے پانچ سال پورے کرنے کا موقع ملا، پاکستان تحریک انصاف پہلے ہلے میں صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی اور قدرت نے جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام  اور اے این پی کو بھی خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع دیا لیکن آپ ملک کی بدقسمتی ملاحظہ کیجیے، فوج ہو، پیپلز پارٹی ہو، پاکستان مسلم لیگ ن ہو یا پھر اے این پی، جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم ہو ملک کی کوئی سیاسی جماعت پاکستان میں ایک ایسا اسپتال نہیں بنا سکی جس میں میاں نواز شریف کا چیک اپ ہوسکتا ہو، جس میں وزیراعظم کی اوپن ہارٹ سرجری ہو سکتی ہو، یہ ہمارے لیے کتنے شرم کی بات ہے ہم اپنے وزیراعظم کو ملک میں علاج کی سہولت نہیں دے سکتے، ہم نے دنیا کی پہلی اسلامی جوہری طاقت کے وزیراعظم کو دو ہفتوں کے لیے غیر مسلموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، یہ گوروں کے زیر علاج رہیں گے، کیا یہ قابل شرم نہیں!۔

آپ بدقسمتی ملاحظہ کیجیے، پاکستان پیپلز پارٹی چار بار اقتدار میں آئی لیکن یہ ملک میں آصف علی زرداری کے اسٹینڈرڈ کا کوئی اسپتال نہیں بنا سکی، ن لیگ وفاق میں تین بار اور پنجاب میں چار باراقتدار میں آئی لیکن یہ بھی کوئی ایک ایسا اسپتال نہیں بنا سکی جس میں ان کے قائد کا علاج ہو سکے، ایم کیو ایم 28 برس سے اقتدار کے ایوانوں میں ہے، اے این پی پانچ سال صوبے میں بلا شرکت غیرے اور وفاق میں پیپلز پارٹی کی ’’کولیشن پارٹنر‘‘ رہی، جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی نے کے پی کے میں پانچ سال لمبی اسلامی حکومت بنائی، مولانا فضل الرحمن وفاق میں 30 سال سے فیصلہ کن پوزیشن میں ہیں اور عمران خان کی جماعت تین سال سے صوبائی حکومت چلا رہی ہے لیکن یہ لوگ بھی صوبے میں کوئی ایسا معیاری اسپتال نہیں بنا سکے جس میں ان کے لیڈروں کا علاج ہو سکے، کیوں؟ آج آصف علی زرداری علاج کے لیے لندن، نیویارک اور دوبئی میں کیوں مارے مارے پھر رہے ہیں، میاں شہباز شریف آٹھ سال کے مکمل اختیار کے باوجود ہر ماہ علاج کے لیے کیوں لندن جاتے ہیں۔

میاں نواز شریف کی اوپن ہارٹ سرجری کیوں لندن میں ہوتی ہے، چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی جرمنی، ناروے اور چین کے کلینکس میں کیوں جا رہے ہیں، اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمن کو طبی معائنے کے لیے دوبئی اور برطانیہ کیوں جانا پڑتا ہے، الطاف حسین لندن کے اسپتالوں کے کیوں محتاج ہیں، عمران خان کمر کی چوٹ کے علاج کے لیے برطانیہ کیوں جاتے ہیں اور ملک میں جنرل پرویز مشرف کی کمر کی تکلیف دور کرنے کے لیے بھی کوئی کلینک، کوئی اسپتال نہیں، کیوں؟ یہ ذمے داری کس کی گردن پر عائد ہوتی ہے اور یہ کس کی نااہلی ہے؟اللہ تعالیٰ وزیراعظم میاں نواز شریف کو صحت دے، یہ شفایاب ہو کر ملک میں آئیں اور دوبارہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر جلوہ افروز ہوں لیکن یہ جب اس کرسی پر بیٹھیں اور وہ تمام لوگ انھیں صحت یابی کی مبارک دینے آئیں۔

جنہوں نے صدقے دے دے کر ملک میں بکرے مہنگے کر دیے ہیں اور جو پورا مہینہ بکروں کے ساتھ تصویریں اتروا کر میڈیا اور سوشل میڈیا پر جاری کرتے رہے،میاں صاحب اس وقت ایک لمحے کے لیے اتنا ضرور سوچیں ’’میں لندن سے علاج کروا کر واپس آیا ہوں، کیا یہ میری ناکامی نہیں‘‘ مجھے یقین ہے جب میاں نواز شریف یہ سوچیں گے تو یہ چند سیکنڈ میں ان وجوہات تک پہنچ جائیں گے جن کے ہاتھوں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے 165 مریض انتقال کر گئے تھے، جن کی وجہ سے لیہ کے 35 لوگ وقت پر معدے صاف نہ ہونے سے قبروں میں جا پہنچے، جن کی وجہ سے تھر میں466 بچے فوت ہو گئے، جن کی وجہ سے پورے بلوچستان اور پورے خیبر پختونخوا میں دل کے امراض کا کوئی اسپتال نہیں، جن کی وجہ سے کے پی کے سے روزانہ پانچ ہزار مریض اسلام آباد اور راولپنڈی آتے ہیں اور یہ حنیف عباسی کی کوششوں سے بنے راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے علاج کراتے ہیں۔

جن کی وجہ سے سندھ حکومت 6 ارب روپے لگانے کے باوجود کراچی کا سول اسپتال نہیں چلا سکی، جن کی وجہ سے لوگ اپنے بیمار بچے لے کر ملک ریاض کے گھر اور دفتر کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں اور جن کی وجہ سے چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ طبی معائنے کے لیے ملک سے باہر جاتے ہیں، میاں نواز شریف جس وقت یہ سوچیں گے یہ سمجھ جائیں گے ملک بھر کے اسپتالوں میں آگ بجھانے کے آلات کیوں نہیں ہیں، ڈاکٹروں کا معیار کیوں نیچے آ رہا ہے اور ڈاکٹر عاصم نے سو جعلی میڈیکل کالجوں کو کیوں اجازت دی تھی، ملک میں جعلی ادویات کیوں ملتی ہیں، فارما سوٹیکل کمپنیوں کا ایشو کیوں ہے اور ایک وفاقی وزیر کے عزیز ہیپاٹائیٹس سی کی دواء کیوں مہنگی بیچتے رہے اور یہ اب اعتراض کرنے والی کمپنی کے ساتھ پرافٹ شیئرنگ کیوں کر رہے ہیں اور یہ کیس کیوں ’’کھو کھاتے‘‘ چلا گیا، مجھے یقین ہے وزیراعظم جب بھی یہ سوچیں گے یہ خود کو اس صورتحال کا ذمے دار سمجھیں گے۔

اللہ تعالیٰ وزیراعظم کو صحت دے اور یہ واپس آ کر ملک کے تمام ڈویژنل اسپتالوں کو ہارلے اسٹریٹ کلینک جیسا بنانے کا اعلان کر دیں، یہ اعلان کر دیں ہم اگلے دو سال میں ملک کی ہر ڈویژن میں ایسا اسپتال بنائیں گے جس میں عام شہری سے لے کر وزیراعظم تک کا علاج ہو گا، جس میں وہ ساری سہولتیں ہوں گی جو میں نے لندن کے کلینکس میں دیکھی تھیں ،وزیراعظم اگر یہ اعلان کر دیتے ہیں، یہ اگر ملک میں 31 جدید اسپتال بنا دیتے ہیں تو آپ یقین کیجیے یہ اوپن ہارٹ سرجری ان کی بخشش کا ذریعہ بن جائے گی اور اگر خدانخواستہ یہ موقع بھی ضایع ہو گیا تو پھر یہ اور یوسف رضا گیلانی دونوں ایک ہوںگے، تاریخ اور وقت دونوں کو بھلا دے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔