چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ کے انقلابی فیصلے!

رحمت علی رازی  اتوار 11 ستمبر 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

کسی بھی ملک میں جب خانہ جنگی شروع ہوتی ہے تو اس کی  وجوہات کیا ہوتی ہیں؟ جب انصاف نہیں ملتا، جب جرم پر کنٹرول ختم ہو جاتا ہے اور جب مجرم کو سزا نہیں دی جاتی تو یہ اقدام معاشرے میں عدم توازن پیدا کرتا ہے اور ملک میں باہمی کشمکش جنم لینے لگتی ہے‘ جب آپسی کھینچاتانی کا یہ ماحول ہمارے ہاں پیدا ہو چکا ہے تو پھر کیوں نہ تسلیم کر لیا جائے کہ عدلیہ کی طرف سے عوام کو سستا اور فوری انصاف نہ ملنے کیوجہ سے پرلے درجے کی نااہلی پاکستان کو ایک حیرتناک خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہی ہے!

اگر وطن کی سرحد پر حفاظت کے لیے کھڑا ہوا سپاہی گولی چلانا ہی بھول جائے تو وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اسکو فوجی کہا جائے کیونکہ گولی چلانا ہی کسی فوجی کا اصل فن اور قوت ہے اسلیے فوجی گولی چلانا کبھی نہیں بھولتا‘ عدلیہ کا اصل فن اور طاقت بھی انصاف کی فراہمی تھی جو کہ وہ بھول چکی ہے‘ جج کی سیٹ پر بیٹھا ہوا شخص اپنا وہ کام نہیں جانتا جس کے لیے اسکو جج بنایا گیا تھا، اسکو عزت دی گئی تھی‘ جب جج اپنا اصل کام یعنی انصاف فراہم کرنا ہی بھول گیا تو اس کی سیٹ کا مقصد ہی فوت ہو گیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے خود تسلیم کر لیا کہ 90 فیصد مقدمات پراسیکیوشن کی نااہلی کی وجہ سے ختم ہو جاتے ہیں لیکن چیف جسٹس صاحب اگر یہ وضاحت بھی کر دیتے تو ہمارے جیسے کم فہم بھی سمجھ پاتے کہ پراسیکوشن کی نااہلی کے خلاف ججز نے اپنے عدالتی فیصلوں میں کوئی حکم نامہ کیوں نہ لکھا؟ عدلیہ کی طرف سے کتنے پراسیکیوٹرز کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی؟

حقیقت تو یہ ہے کہ 90 نہیں 97 فیصد مقدمات عدلیہ کی اپنی کمزوریوں کے نتیجے میں ختم ہو جاتے ہیں جس کی ذمے داری ان سفارشی ججوں پر عائد ہوتی ہے جو جج کی سیٹ پر مسلط کر دیئے گئے، اور جب ملک کا چیف جسٹس خود اعتراف کر لے کہ 90 فیصد مقدمات ملزمان کو سزا دیئے بغیر ختم ہو جاتے ہیں تو اس سے زیادہ کسی گواہی کی ضرورت باقی ہی نہیں رہتی! شاید یہی وجہ ہے کہ آہٹیں اور سرسراہٹیںاب بالکل واضح ہو چکی ہیں‘ صفائی مہم کا آغاز ہو چکا ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ جس طریقے سے صفائی کر رہے ہیں، وہ اسی ایجنڈے ہی کا حصہ ہے جسکے تحت نااہل لوگ عدالتی نظام سے ہر صورت میں فارغ کر دیئے جائینگے‘ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ اس صفائی مہم کے دوران نااہل ججز گھر بھیج دیئے جائینگے‘ ملک کو سول وار کے خطرے سے بچانے کے لیے ضروری ہو چکا ہے کہ اب جج کی سیٹ پر جج ہی بٹھائے جائیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ کا ججوں کے کڑے احتساب کا جذبہ قابلِ قدر ہے لیکن ایسا نہ ہو کہ مخالف ججوں کیوجہ سے پسندوناپسند کی بنا پر بعض مثالی شہرت کے حامل جج بھی اس احتساب کی نذر ہو جائیں اور کئی دیانتدار جج بھی اس کی  لپیٹ میں آ جائیں اور اس سے آپ کو اللہ کے حضور جواب دینا پڑے‘ اسلیے ایسا نظام بنایا جائے کہ بددیانت بچ نہ سکے اور بیگناہ اس کی  لپیٹ میں نہ آنے پائے‘ اس کے لیے احتساب کا ایسا کڑا اور ٹھوس نظام بنائیں جس پر کسی کو بھی اعتراض نہ ہو، بہ ایں ہمہ ججوں میں بدعنوانی کی نشاندہی کرنیوالوں کے لیے معقول انعام کا اعلان بھی کیا جائے تو پھر کوئی بھی گناہگار نہیں بچ سکے گا اور جب کسی جج کے خلاف کارروائی کی جائے تو تمام ثبوتوں کے ساتھ میڈیا کے سامنے عوام کو بتایا جائے۔

اس سے بہت زیادہ اچھا تاثر اُبھرے گا اور کوئی ملزم جج کے خلاف ہونے والی کسی کارروائی کو زیادتی قرار نہیں دے سکے گا‘ اس اقدام سے عدلیہ کی بابت معاشرے میں مثبت پیغام جائے گا اور بدعنوانی کا گراف بھی زیرو ہو جائے گا۔ جسٹس سید منصور علی شاہ لاہور ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج اور 45 ویں چیف جسٹس ہیں‘ ان سے تمام مکاتب ِفکر نہ صرف بہت سی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں بلکہ پراُمید ہیں کہ ان کا دور عدلیہ میں ایک سنہری دور ثابت ہو گا اور سائلین کو بروقت انصاف کی فراہمی کے لیے بہت سے انقلابی اقدامات اٹھائیں جائینگے۔

جسٹس منصور علی شاہ کے دور کا جائزہ لیں تو ان کے اہم فیصلوں کی طویل فہرست ہے‘ وہ15 ستمبر 2009ء کو عدالت عالیہ لاہور کے جج بنے‘ انھوں نے آئینی، انتظامی، انسانی حقوق اور ماحولیاتی استحکام کے حوالے متعدد فیصلے جاری کیے جن میں بیشتر کو نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا‘ فاضل چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اور ضلعی عدلیہ میں ریفارمر جج کے طور پر جانے جاتے ہیں‘ انھوں نے عدالت ِعالیہ لاہور اور ضلعی عدلیہ میں کیس مینجمنٹ سسٹم اور جدید کورٹ آٹومیشن کا نظام بھی متعارف کروایا۔

پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کو جدید خطوط پر استوار کیا اور اس طرح عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار لاہور ہائیکورٹ کے تمام افسران اور ملازمین کی ٹریننگ کا اہتمام کیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ پنجاب میں مصالحتی و ثالثی نظام کے بہت بڑے حامی ہیں اور اس کے نفاذ پر کام کر رہے ہیں، جس سلسلہ میں لاہور میں اے ڈی آر سینٹر بہت جلد کام شروع کر دیگا‘ لاہور ہائیکورٹ میں ریسرچ سینٹر کے قیام کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے۔

وہ درجنوں قومی و بین الاقوامی سیمیناروں اور ورکشاپوں میں شرکت کر چکے ہیں جن میں ویت نام میں منعقدہ ماحولیاتی انصاف سے متعلق گول میز کانفرنس، لندن میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے منعقدہ ورکشاپ، نیپال میں ماحولیاتی انصاف پر ساؤتھ ایشیاء جوڈیشل کانفرنس، پہلی عالمی انوائرنمنٹل لاء کانگریس، برازیل اور ویٹیکن میں انسانی اسمگلنگ اور منظم جرائم کے انسداد کے حوالے سے منعقدہ دو روزہ کانفرنس نمایاں ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عام سائل موجودہ عدالتی نظام سے مطمئن نہیں ہے‘ سالہا سال تک مقدمات کے فیصلے نہیں ہوتے‘ لوگوں کی عدلیہ سے بہت سی توقعات ہیں جو پوری نہیں ہو رہیں۔

بعض وکلاء کی جانب سے ججز کے ساتھ بدتمیزی اور تالابندی جیسے واقعات کے پیش ِنظر عام آدمی اپنے جائز حقوق کے حصول کے لیے بھی عدالت جانے سے کتراتا ہے‘ عدالتیں انصاف کی بروقت فراہمی کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کے باوجود بھی عام سائل کو عدالتی نظام سے مطمئن نہیں کر سکیں لیکن اب جسٹس سید منصورعلی شاہ کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بننے پر سائلین اور وکلاء سمیت پنجاب کے لوگوں نے ان سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کر لی ہیں‘ ان کا شمار بہت زیادہ پڑھے لکھے، انتہائی قابل، ذہین اور بلاخوف و خطر آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنیوالے جج کے طور پر ہوتا ہے۔

ان کی یہ اہلیت بھی اپنی جگہ درست ہے کہ وہ موجودہ عدالتی نظام کو تبدیل کر کے ایسا نظام وضع کرنا چاہتے ہیں جہاں عام غریب سائل کو بغیر کسی رکاوٹ کے بروقت اور سستا انصاف مل سکے‘ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بروقت انصاف فراہم نہ ہونے کی حقیقت کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور اس کے حل کے لیے مثبت سوچ اور ویژن بھی رکھتے ہیں‘ ان کا ماننا ہے کہ موجودہ عدالتی نظام میں نسلیں تھک جاتی ہیں مگر انصاف نہیں ملتا‘ ثالثی نظام وقت کی عین ضرورت ہے‘ چیف جسٹس صاحب ضلعی عدالتوں سے بدعنوانی اور وکلاء سے مافیا ختم کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔

ان کے نزدیک زیرالتواء مقدمات عدلیہ کے نظام پر دھبہ ہیں جب کہ  بروقت انصاف کی فراہمی کے لیے عدالتی اصلاحات وقت کا تقاضا ہے‘ امکانات واضح ہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ کے دور میں ثالثی نظام فعال ہو جائے گا‘ ثالثی نظام کو وقت کی عین ضرورت قرار دیا جا رہا ہے۔ ثالثی و مصالحتی نظام مقدمات کے بروقت فیصلے کے لیے بہترین معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

لاہور ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ میں زیرسماعت مقدمات کی تعداد تناسب سے زیادہ ہے جو کہ اوسط کے حساب سے عالمی معیار سے مطابقت نہیں رکھتی اور ایسا ممکن نہیں کہ موجودہ حالات میں اتنی تعداد میں مقدمات کے فیصلے کیے جا سکیں لہٰذا مصالحتی نظام کو اپنائے بغیر عدلیہ کے پاس اور کوئی چارہ نہ ہو گا۔ جسٹس سید منصور علی شاہ اپنی بطور قاضی القضاۃ تعیناتی کے دن سے اعلیٰ و ماتحت عدلیہ میں انقلابی اصلاحات لاگو کرنے کے لیے ہر حکومتی، انتظامی و قانونی فورم پر جدوجہد میں غلطاں ہیں۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ سے گزشتہ دنوں ہماری تفصیلی ملاقات ہوئی‘ ملاقات کے دوران انھوں نے اپنے اصلاحاتی اعلانات و اقدامات کی ایک طویل فہرست ہمارے گوش گزاری‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’بدقسمتی سے ضلعی عدلیہ فعال نہیں ہے‘ جسے فعال بنانا ہماری اولین ترجیح ہے اور اللہ رب العزت کی مدد سے ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہونگے۔ ضلعی عدلیہ میں نااہل و بدعنوان ججز اور وکلاء میں مافیا کو بالکل برداشت نہیں کیا جائے گا‘ کرپٹ اور بدعنوان عناصر کو نکالنے کے لیے اتنا ہی کافی ہو گا کہ ان کی شہرت ناقابلِ تردید ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ داغدار ہے۔

عدالتِ عالیہ اور ضلعی عدلیہ کے مابین رابطوں کے فقدان کے خاتمے کے لیے ایڈوائزری بورڈ تشکیل دیا جا رہا ہے‘ میں نے اپنی حلف برداری کے پہلے ہی دن ضلعی عدلیہ سے متعلق پالیسی واضع کر دی تھی‘ موجودہ نظام میں جوڈیشل افسران تنِ تنہا کام نہیں سکتے، جب تک کہ عدالت عالیہ انکو سپورٹ نہ کرے‘ میرے چیمبر کے دروازے ایک فراش سے لے کر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تک کے لیے کھلے ہیں، آئیں اپنی تمام جائز باتیں مجھے بتائیں‘ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں‘ ایماندار ججز کے پیچھے پہاڑ کی مانند کھڑا ہوں‘ کسی بھی جوڈیشل آفیسر کے چیمبر میں وکلاء کا داخلہ ممنوع ہو گا۔

ڈسپلن اور خواتین کے تحفظ کے حوالے سے عدالت عالیہ کے سینئر ججز پر مشتمل کمیٹیاں قائم کر دی گئی ہیں‘ تمام ضلعی عدالتوں میں کیمرے لگائے جائینگے جن کا کنٹرول میرے چیمبر میں ہو گا‘ عدالتوں کو تالے لگا کر فیصلے کروانا ہرگز برداشت نہیں‘ خواتین ججز ہماری بہنیں اور بیٹیاں ہیں، ان کے ساتھ بدتمیزی کرنیوالے کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں‘ انفراسٹرکچر، کتابوں اور جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فراہمی کے لیے پنجاب حکومت سے فنڈز کا مطالبہ کر دیا ہے‘ بار ایسو سی ایشنوں کے تمام جائز مطالبات کو پورا کرینگے۔

ہم نے عہد کرنا ہے کہ ہم نے آیندہ نسلوں کے لیے اس نظام کو ٹھیک کرنا ہے‘ میں تمام اضلاع کے دورے بھی کرونگا اور جائز مسائل کو حل کرنے کے لیے تمام ممکن اقدامات بھی کیے جائینگے‘ عوام کو فوری اور معیاری انصاف کی فراہمی میں حائل تمام رکاوٹیں دور کی جائینگی تاکہ صوبے میں انصاف کے نظام کو بہتر بنایا جا سکے‘ جوڈیشری اور انتظامیہ ملکر ایسے اقدام کریں کہ پنجاب دوسرے صوبوں کے لیے ایک مثالی صوبہ بن سکے‘ عدلیہ میں خوداحتسابی کا عمل جاری ہے، آیندہ کچھ عرصہ میں بدعنوان، نااہل اور منفی رویے والے جوڈیشل افسران نہیں رہیں گے۔

پنجاب کے عدالتی نظام کو مثالی بنانا چاہتے ہیں‘ آنیوالی نسلوں کو بہترین نظامِ عدل دینا چاہتے ہیں‘ ناتجربہ کار جوڈیشل افسران کو جدید تربیتی کورسز کروائے جائینگے، اگر وہ خود کو بہتر نہ کر سکے تو عدلیہ میں ان کی کوئی جگہ نہیں رہے گی‘ حکومت کی جانب سے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کی جا چکی ہے جسکے سامنے عدالتوں اور بارز کو درپیش مسائل رکھیں گے‘ جوڈیشل افسران کو کرپشن، بدعنوانی، سوالیہ شہرت، نااہلی اور منفی رویوں کے تناظر میں پرکھا جا رہا ہے‘ نئے بنچوں کے قیام پر غوروخوض کرنے کے لیے مزید اجلاس ہونگے اور فل کورٹ اجلاس صوبے کی عدلیہ کا اعلیٰ ترین فورم ہے۔

ایماندار، اہل اور محنت و لگن سے کام کرنے والا جوڈیشل آفیسر میرا پسندیدہ جج ہے اور جو جج میرا پسندیدہ نہیں ہے اور میرے معیار پر پورا نہیں اُترتا، وہ عدلیہ میں نہیں رہیگا‘ متعدد جوڈیشل افسران کو عہدوں سے ہٹا کر جوڈیشل اکیڈمی میں تربیت کے لیے بھیج دیا ہے، جو جوڈیشل آفیسر تربیتی کورس پاس کریگا وہ عدالت کریگا، جو ناکام رہا وہ گھر جائے گا‘ ضلعی عدلیہ نظام عدل میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اسی کی وجہ سے یہ نظام قائم ہے‘ ضلعی عدلیہ کے ججز مشکل حالات کے باوجود فرنٹ مین کا کر دار ادا کر رہے ہیں۔

پنجاب کی دس کروڑ آبادی کے لیے 1800 جوڈیشل آفیسر کام کر رہے ہیں جب کہ اس وقت 800 مقدمات فی جج کے حصہ میں آتے ہیں جو کہ بین الاقوامی معیار سے چار گنا زیادہ ہے‘ محدود سہولیات کے باوجود محنت و لگن سے کام کرنیوالے جج صاحبان قابل ستائش ہیں‘ وژن اور ٹارگٹ کے بغیر چلنے والے ادارے بیکار ہوتے ہیں اسلیے ہمیں اپنی منزل کا تعین کرنا ہے‘ عدلیہ صوبے کا سب سے بڑا ادارہ ہے‘ اس کے باوجود اتنے بڑے ادارے کی ایگزیکٹو باڈی نہیں تھی‘ محنتی اور اچھی شہرت والے اہل ججز پر مشتمل ایڈوائزری کمیٹی قائم کر دی ہے جو تمام ضلعی عدلیہ کے مسائل، معاملات اور تجاویز عدالت ِعالیہ تک پہنچائے گی‘ معیار پر پورا اترنے والے جوڈیشل افسران ہی کمیٹی کا حصہ بنیں گے۔

ٹرانسفرز اور پروموشن کے لیے شفاف میرٹ پالیسی ہماری اولین ترجیح ہے، کسی سفارش یا اپروچ کی ضرورت نہیں‘‘۔ یہاں چیف جسٹس صاحب کو ہماری تجویز ہے کہ موجودہ نظام کے تحت ضلعی عدلیہ سے پوچھ گچھ ممکن نہیں، اسلیے عدالت ِعالیہ اور مسلمہ دیانتدار مثبت سوچ کے حامل اور خوفِ خدا رکھنے والے ضلعی عدلیہ کے قابل ججوں پر مشتمل بورڈ بنایا جائے‘ اس میں ٹیکنیکل افراد اور فرانزک کے ماہر افسران کو بھی شامل کیا جائے‘ اس طریقہ کار سے کوئی بھی گناہگار بچ نہیں سکے گا‘ اس کے لیے جامع اور ٹھوس تحقیقاتی کمیٹی بنانے کی غرض سے عوام، وکلاء اور صحافیوں سے رائے لے کر ایسا نظام تیار کیا جائے جس سے کوشش کے باوجود اگر کوئی ملزم ہو گا تو اپنے آپکو نہیں بچا سکے گا۔

اسی بورڈ کی مشاورت سے پروموشن اور ٹرانسفر پالیسی سمیت دیگر معاملات کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے‘ علاوہ ازیں ضلعی عدلیہ اور ہائیکورٹ کے درمیان رابطوں کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے تا کہ ضلعی عدلیہ کی آواز لاہور ہائیکورٹ تک پہنچ سکے گی۔ چیف جسٹس صاحب کا مزید کہنا تھا کہ ’’ہم جانتے ہیں کہ اعلیٰ و ماتحت عدلیہ میں ایسے لوگ ہیں جن کی شہرت پر سوالیہ نشان ہے اور یہ بات ہمارے لیے ناقابلِ برداشت ہے‘ ہمیں خوداحتسابی کے عمل کو موثر بنانا ہے اور اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کی نشاندہی کر کے انکو عبرت کا نشان بنانا ہے جو انصاف اور عدلیہ کو داغدار کرنے پر تلے ہوئے ہیں‘ اگر ہم خود ٹھیک ہونگے تو کسی کی جرأت نہیں کہ ہم پر کوئی انگلی اٹھا سکے۔

اے سی آر کا موجودہ نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے‘ میں اس نظام پر یقین نہیں رکھتا‘ آج سے نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے‘ ماضی میں جو غلطیاں کوتاہیاں ہو گئیں انھیں بھول جائیں‘ آج خود کو ٹھیک کرنے کا عہد کرنا ہو گا اور ملکر اس ادارے کو مضبوط بنانا ہو گا۔ ضلعی عدلیہ کو ہر طرح کی سہولتیں دینا چاہتے ہیں‘ ثالثی و مصالحتی مرکز، سائلین کے لیے سہولت مرکز، آٹومیشن سسٹم جیسی سہولیات مہیا کی جائینگی تا کہ مقدمات کے جلد فیصلے کیے جا سکیں‘ مقدمات کو التواء میں ڈالنا عدلیہ میں بدترین چیز ہے‘ ہمیں جلد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا اور عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہے‘ مشکل حالات کے باوجود انصاف فراہم کرنیوالے جوڈیشل افسران کو سلام پیش کرتا ہوں‘ پیار سے اداروں میں ترقی آتی ہے جب کہ نفرت ہمیشہ زوال کا سبب بنتی ہے۔

ضلعی عدلیہ میں ٹرانسفرز اور پروموشن پالیسی میں کوئی اقرباء پروری نہیں چلے گی‘ ہم ضلعی عدلیہ کے ایماندار، قابل اور محنتی ججز کے ساتھ ملکر صوبائی عدلیہ کو مثالی بنائیں گے‘ جو سٹرکچر ہائیکورٹ کا ہے وہی ضلعی عدلیہ کا ہو گا‘ جوڈیشل افسران کے لیے کریڈٹ کارڈز کی سہولت فراہم کی جائے گی‘ ان کے بچوں کے لیے بہترین اسکولز کی انتظامیہ سے بات کر رہے ہیں تا کہ جوڈیشل افسران کی ٹرانسفر کے ساتھ بچوں کے اسکول ایڈمیشن میں مسائل نہ آئیں اور فیسوں میں بھی رعایت ملے‘ ہم نے اپنے جوڈیشل افسروں سے کہا ہے کہ موجودہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے۔

اسمارٹ فونز اور آئی پیڈز پر آپ نے صرف فلمیں نہیں دیکھنی، ان سے استفادہ بھی کر نا ہے، ریسرچ کے میدان میں آگے جانا ہے اور لوگوں کو جلد انصاف کی فراہمی کے لیے اس ٹیکنالوجی سے کام لینا ہے‘ تھری جی اور فور جی کی سہولت بھی ہر ضلع میں مہیا کی جائے گی‘ ہم اٹک میں ای کورٹس کے آغاز کو سراہتے ہیں اور اپنی سطح پر آفس آٹومیشن سسٹم بنانے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں‘ جلد پورے صوبے کی عدلیہ ایک ہی کمیپوٹرائزڈ سسٹم کے تحت منسلک ہو جائے گی اور تمام نظام آن لائن ہو گا‘ کاز لسٹوںمیں مقدمات کو محدود کیا جائے گا، سیکڑوں مقدمات کی کازلسٹ جاری نہیں ہو گی۔

عدالت ِعالیہ کی طرح خصوصی بنچ بھی بنائے جائینگے‘ ضلعی عدلیہ میں ورکنگ حالات مکمل طور تبدیل کر دیے جائینگے اور انفراسٹرکچر، بلڈنگز، جوڈیشل کمپلیکسز کی تعمیر، جوڈیشل الاؤنس اور تنخواہوں میں اضافہ سمیت دیگر تمام معاملات حکومت کی جانب سے قائم کردہ اعلیٰ سطحی کمیٹی کے سامنے رکھے جائینگے‘ آیندہ کسی بھی قسم کی غلطی برداشت نہیں کی جائے گی‘ جو اپنے آپ کو بہتر نہیں کر سکتا وہ جوڈیشل اکیڈمی میں ٹریننگ کرے‘ ہم اکیڈمی کو موجودہ دور کے جدید تقاضوں کے مطابق بنا رہے ہیں‘ہم نے پہلے بھی 22 جوڈیشل افسران کو ٹریننگ کے لیے اکیڈمی بھیجا ہے۔

استعداد کار اور رویوں میں بہتری کے لیے جوڈیشل ٹریننگ کرنا کوئی بری بات نہیں ہے‘ جج میں اَنا نہیں ہوتی‘ عاجزی اپنائیں اور خود کو نکھارنے کے لیے ٹریننگ کریں اور نئی سوچ کے ساتھ عدالتوں میں بیٹھیں‘ اے سی آر سسٹم کی بہتری کے لیے ضلعی عدلیہ میں انٹیلی جنس سسٹم لا رہے ہیں جو جوڈیشل افسران کی کارکردگی کی رپورٹ دیگی جسکی روشنی میں پروموشن اور ٹرانسفرز ہونگی‘ جس کی شہرت خراب ہو گی وہ چھپ نہیں سکے گا‘ جوڈیشل اکیڈمی سے ویڈیو لنک کے ذریعے صوبہ بھر کے جوڈیشل افسران تک اپنا وژن پہنچانا بہت اچھا لگا ہے، بہت جلد اسی طرح کا ویڈیو لنک لاہور ہائیکورٹ میں بھی قائم کیا جائے گا اور ہر پندرہ دن کے بعد اسی طرح دوطرفہ کمیونیکیشن کے ذریعے روابط کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔

اس سسٹم کی بدولت دُور دراز سے لوگوں کو اپنے مقدمات کی معلومات کے لیے لاہور آنا نہیں پڑیگا‘ یہ ایک پائلٹ پراجیکٹ ہے اور شروعات میں کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن بہت جلد اس نظام کو مزید موثر اور پرفیکٹ بنا دیا جائے گا‘ سہولت سینٹر کے قیام سے سائلین کا عدلیہ پر اعتماد بڑھے گا‘ سائلین موبائل نمبر 0321-1441199 پر میسج کر کے یا [email protected] پر ای میل کر کے مقدمات سے متعلق معلومات لے سکتے ہیں‘ سہولت سینٹر کو موصول کسی بھی شکایت پر 15 روز کے اندر اندر پراسیس مکمل کیا جائے گا جس کے لیے عدالت ِعالیہ کا انسپکشن سیل فعال کردار ادا کریگا اور یہ سینٹر جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے سائلین و وکلاء کی مزید رہنمائی کریگا۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بغیر عدلیہ کا کوئی مستقبل نہیں ہے، ہمیں اپنی آنیوالی نسلوں کے لیے جسٹس سسٹم کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہو گا‘ نظامِ عدل پروفیشنل لوگوں کے لیے ہے، غیرپیشہ ور ججز اور غیرپیشہ ور وکلاء کا اس میں کوئی حصہ نہیں‘ وقت آ گیا ہے کہ غیرسنجیدہ لوگوں سے سنجیدگی سے نمٹا جائے‘ پنجاب بار کونسل اور پاکستان بار کونسل وکلاء کی ڈگریوں کی چیکنگ کا موثر نظام متعارف کروائیں، عدالت ِعالیہ ہر طرح کی ممکن معاونت کے لیے تیار ہے‘ سیشن کورٹ لاہور نے ویڈیو لنک سسٹم متعارف کروا کر تاریخ لکھ دی ہے۔

اصل عدلیہ ضلعی عدلیہ ہے، اسے فنکشنل کرنے سے عام آدمی کو فائدہ ہو گا‘ اس طرح کی آٹومیشن سے ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں انقلاب آئیگا اور سالہاسال سے زیرالتواء مقدمات کا جلد فیصلہ ہو گا‘ ویڈیو لنک کے ذریعے ڈسٹرکٹ جیل لاہور سے جیل ٹرائل، سول کورٹ سے الیکٹرانک کورٹس اور فیملی کورٹ سے والدین کی بچوں سے ملاقات کا ڈیمو بہت حوصلہ افزا لگا جس پر عنقریب پراجیکٹ شروع کرینگے‘ ہمیں بہت سارے معاملات کو ٹھیک کرنا ہے تاہم اولین ترجیح ضلعی عدلیہ کو فعال بنانا ہے‘ میڈیا سمیت ہر ادارہ خودمختار اور آزاد ہے اور اپنی قائم کردہ پالیسی کے مطابق چلتا ہے۔

سائلین کو عدلیہ کی نچلی سطح پر بہترین انصاف کی فراہمی ہمارا مشن ہے‘ لاہور ہائیکورٹ کا کام پرچے خارج کرنا یا اشیاء کی قیمتیں مقرر کرنا نہیں ہے‘ ہمیں آئین و قانون سے متعلق مقدمات کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے‘ اگر ضلعی عدلیہ کی سطح پر قانون و میرٹ کے مطابق انصاف ملے گا تو عدالت ِعالیہ پر مقدمات کا بوجھ کم ہو گا‘ لاہور ہائیکورٹ ایک بنچ نہیں، پورا ہائیکورٹ ہے‘ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مکمل مشاورت کے بعد لاہور ہائیکورٹ میں نئے ججز تعینات کیے جائینگے‘ ججز اللہ کو حاضروناظر جان کر میرٹ کے مطابق فیصلے کریں‘ ایک مشہور شعر ہے

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے!
منصف ہو اگر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے!

ہم نے یہ حشر اٹھانے کے لیے ضلعی عدلیہ میں ای جوڈیشری کی بنیاد رکھ دی ہے‘ ٹیکنالوجی کی مدد سے آیندہ نسلوں کو بہترین سسٹم دیکر جائینگے‘ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ضلعی عدلیہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے اتنا ٹیلنٹ موجود ہے‘ جو چیزیں ہم نے ابھی بس سوچی تھیں، ضلعی عدلیہ نے آج ہمیں کر کے دکھا دی ہیں‘ ویڈیو لنک اور ای کورٹس کا آغاز عدلیہ میں انقلابی تبدیلی ہے‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بغیر ضلعی عدلیہ کا مستقبل تاریک ہے‘ پورے صوبے کی عدلیہ کے لیے انٹرپرائز لیول آئی ٹی سسٹم بنایا جا رہا ہے۔

مشہور آئی ٹی کمپنیاں ’’ٹیکنالوجکس‘‘ اور ’’سپیریڈین‘‘، پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے ماہرین کے ساتھ ملکر کام کر رہی ہیں اور اس سسٹم کا پائلٹ پراجیکٹ رواں دسمبر سے پہلے کام شروع کر دیگا‘ یہ سارا میلہ صرف سائلین کی سہولیات کے لیے لگایا گیا ہے‘ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیے بغیر ضلعی عدلیہ میں زیرالتواء تیرہ لاکھ مقدمات کو نمٹانا ناممکن ہے‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت جلد انصاف کی فراہمی، نظام میں شفافیت اور کارکردگی میں اضافہ ممکن ہے‘ مقدمات کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کر کے کیس مینجمنٹ پلان کے تحت بنچ بنائے جائینگے تا کہ جس کیٹیگری میں مقدمات کی تعداد زیادہ ہے، اس میں زیادہ ججز کام کریں اور مقدمات کے جلدازجلد فیصلے ہو سکیں۔

سائلین کو ان کے مقدمات سے متعلق معلومات ان کی دہلیز پر مہیا کر رہے ہیں، جس کے لیے ہیلپ لائن 1134، سہولت سینٹرز کا قیام، لاہور ہائیکورٹ موبائل ایپلیکیشن کی لانچنگ اور جدید سہولیات سے آراستہ ہائیکورٹ کی ویب سائٹ صرف سائلین کی سہولت کے لیے ہے‘ سرگودھا سیشن کورٹ کی جانب سے ہیلپ لائن نمبر 1048 کا اجراء بھی خوش آیند ہے‘ اب بہت جلد پورے پنجاب میں سہولت سینٹرز قائم کیے جائینگے‘ ہم نے اگر پنجاب کی عدلیہ کو نمبرون بنانا ہے تو پروفیشنلزم کو پروموٹ کرنا ہو گا‘ سسٹم کو ڈسٹرب کر کے یا ہڑتالیں کر کے نظام کو بہتر نہیں کیا جا سکتا۔

ہمارے دماغ میں صرف یہ خیال ہونا چاہیے کہ ہم نے عام آدمی کو ریلیف دینے کے لیے کیا اقدامات اٹھانے ہیں‘ آئی ٹی فیئر میں اسٹالز لگانے والے 36 اضلاع کی سیشن عدالتوں، پنجاب جوڈیشل اکیڈمی، محکمہ پولیس، محکمہ پراسیکیوشن، محکمہ جیل سمیت دیگر کمپنیوں کے فوکل پرسنز داد کے مستحق ہیں‘ عدالت ِعالیہ لاہور اور تمام ضلعی عدالتوں میں کام کرنیوالے آئی ٹی سسٹم دیکھ کر بہت مسرت ہوئی مگر ہمارا مقصد عدالت ِعالیہ کو صوبے بھر کی تمام ضلعی عدلیہ کے ساتھ منسلک کرنا ہے جس کے لیے ہم پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے ماہرین اور مشہور آئی ٹی کمپنیوں کی مدد سے انٹرپرائز لیول کمپیوٹر سسٹم لا رہے ہیں جس کی بدولت صوبے بھر کی عدلیہ کو آن لائن کر دیا جائے گا، جس سے شفافیت اور کارکردگی میں بہتری آئیگی۔

صوبے بھر کی ہر ڈویژن کے آئی ٹی فوکل پرسنز منتخب کیے جائینگے‘ ڈیٹاانٹری آپریٹرز کی پوسٹ کو آئی ٹی اسسٹنٹ سے تبدیل کر کے اَپ گریڈ کیا جائے گا‘ تمام ضلعی عدالتوں میں مقدمات کا فزیکل ویری فکیشن آڈٹ ہو گا اور تمام ڈیٹا آن لائن کیا جائے گا، اس سے مقدمات کی درجہ بندی کر کے جلد نمٹانے میں مدد ملے گی‘ پورے صوبے میں سہولت سینٹرز بنائے جائینگے جن کا ہیلپ نمبر یکساں ہو گا‘ سائلین کو مقدمات سے متعلق تمام معلومات ان کے گھر کی دہلیز تک پہنچائیں گے‘ موجودہ عدالتی نظام میں تبدیلی کے ثمرات عوام تک جلدازجلد پہنچنے چاہییں۔

ضلعی عدلیہ نظامِ انصاف کی پہلی سیڑھی ہے، اگر سائلین کو پہلی سیڑھی پر ہی بہترین انصاف مہیا کیا جائے تو اعلیٰ عدالتوں میں مقدمات کے بوجھ کو کم کیا جا سکتا ہے‘ سائلین کے عدلیہ پر اعتماد کو بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس نظام کی بہتری کے لیے شفافیت، میرٹ اور احتساب پر مبنی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوں۔ میرے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد لوگوں کی عدلیہ سے امیدیں بڑھ گئی ہیں‘ عہد کیا ہے کہ لوگوں کی اُمیدوں پر پورا اتروں اور ہر معاملے کو فرنٹ لائن پر آ کر لیڈ کروں‘‘۔ (جاری ہے‘ کالم کادوسرا حصہ اگلے اتوار کو ملاحظہ فرمائیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔