- جرائم کی شرح میں اضافہ اور اداروں کی کارکردگی؟
- ضمنی انتخابات میں عوام کی سہولت کیلیے مانیٹرنگ اینڈ کنٹرول سینٹر قائم
- وزیرداخلہ سے ایرانی سفیر کی ملاقات، صدررئیسی کے دورے سے متعلق تبادلہ خیال
- پختونخوا؛ صحت کارڈ پر دوائیں نہ ملنے پر معطل کیے گئے 15 ڈاکٹرز بحال
- لاہور؛ پولیس مقابلے میں 2 ڈاکو مارے گئے، ایک اہل کار شہید دوسرا زخمی
- پختونخوا؛ مسلسل بارشوں کی وجہ سے کئی اضلاع میں 30 اپریل تک طبی ایمرجنسی نافذ
- پختونخوا؛ سرکاری اسکولوں میں کتب کی عدم فراہمی، تعلیمی سرگرمیاں معطل
- موٹر وے پولیس کی کارروائی، کروڑوں روپے مالیت کی منشیات برآمد
- شمالی کوریا کا کروز میزائل لیجانے والے غیرمعمولی طورپربڑے وارہیڈ کا تجربہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دوسرا ٹی20 آج کھیلا جائے گا
- بابر کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا مشورہ
- موبائل فون صارفین کی تعداد میں 37 لاکھ کی ریکارڈ کمی
- گیلپ پاکستان سروے، 84 فیصد عوام ٹیکس دینے کے حامی
- ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن اسکیم کے غلط استعمال پر 10کروڑ روپے جرمانہ
- معیشت2047 تک 3 ٹریلین ڈالر تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وزیر خزانہ
- پٹرولیم ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کمپنیوں نے سبسڈی مانگ لی
- پاکستان کی سعودی سرمایہ کاروں کو 14 سے 50 فیصد تک منافع کی یقین دہانی
- مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال، عالمی منڈی میں خام تیل 3 ڈالر بیرل تک مہنگا
- انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی پر محمد عامر کے ڈیبیو جیسے احساسات
- کُتا دُم کیوں ہلاتا ہے؟ سائنسدانوں کے نزدیک اب بھی ایک معمہ
لاہورخودکش حملے میں 2 اعلیٰ پولیس افسران سمیت 13 افراد شہید اور100 سے زائد زخمی
لاہور: مال روڈ پر خودکش حملے میں ڈی آئی جی ٹریفک لاہور کیپٹن (ر) احمد مبین اور ایس ایس پی زاہد گوندل سمیت 13 افراد شہید اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوگئے جب کہ سیکیورٹی اہلکاروں نے جائے وقوعہ سے ایک مشکوک شخص کو حراست میں لے لیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق لاہور کے علاقے مال روڈ پر چیئرنگ کراس کے قریب ادویہ ساز کمپنیوں اور میڈیکل اسٹورز کے مالکان کا احتجاج جاری تھا کہ اس دوران 6 بج کر 7 منٹ پر زور دار دھماکا ہوا جس کے بعد جائے وقوعہ پر بھگدڑ مچ گئی جب کہ دھماکے کی جگہ آگ لگ گئی اور دھواں اٹھنے لگا۔
دھماکا اس قدر شدید تھا کہ اس سے قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے جب کہ قریب کھڑی گاڑیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ دھماکے کے بعد جائے وقوعہ کے قریب موجود لوگوں نے فوری طور پر اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا جب کہ ریسکیو اہلکاروں نے بھی جائے وقوعہ پر پہنچ کر امدادی سرگرمیاں شروع کرتے ہوئے زخمیوں کو مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا، دھماکے کے بعد لاہور بھر کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرکے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو طلب کرلیا گیا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف کی لاہور دھماکے کی شدید مذمت
نمائندہ کے مطابق دھماکے کے وقت سی سی پی او لاہور امین وینس، ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن (ر) احمد مبین اور قائم مقام ڈی آئی جی آپریشنز ایس ایس پی زاہد نواز گوندل جائے وقوعہ کے قریب پولیس نفری کے ہمراہ موجود تھے اور اس دوران دھماکا ہوگیا، ڈی آئی جی ٹریفک احمد مبین اور ایس ایس پی زاہد گوندل دھماکے کی زد میں آکر شدید زخمی ہوئے جو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔ سی سی پی او لاہور نے ڈی آئی جی ٹریفک لاہور احمد مبین اور ایس ایس پی زاہد گوندل کے شہید ہونے کی تصدیق کردی ہے جب کہ ریسکیو حکام کی جانب سے 2 اعلیٰ پولیس افسران سمیت 13 افراد کے شہید ہونے کی تصدیق کی گئی ہے اور 100 سے زائد افراد زخمی ہیں۔
دھماکے کے فوری بعد پولیس اہلکاروں نے علاقے کو مکمل طور پر گھیرے میں لے لیا، عوام کو دھماکے کی جگہ سے دور کردیا گیا جب کہ بم ڈسپوزل اسکواڈ کو بھی جائے وقوعہ پر طلب کرلیا گیا۔ پاک فوج کے دستے بھی جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور جائے وقوعہ کو مکمل طور پر گھیرے میں لے رکھا ہے۔ سیکیورٹی اہلکاروں نے جائے وقوعہ سے مشکوک شخص کو حراست میں لے لیا جسے تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: پنجاب اسمبلی کے قریب خودکش حملے کی اطلاعات موجود تھیں، رانا ثنااللہ
جائے وقوعہ پر موجود عینی شاہد ٹریفک وارڈن نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ موٹرسائیکل پر سوار شخص نے خود کو گاڑی سے ٹکرایا جس سے زور دار دھماکا ہوا اور موٹرسائیکل میں آگ بھڑک اٹھی۔
ابتدائی تفتیش کے مطابق جائے وقوعہ سے حملہ آور کے جسم کے اعضا اکٹھے کرلیے گئے ہیں، جائے وقوعہ سے پاؤں، جبڑا، بال اور ہاتھ ملے ہیں جب کہ فرانزک ٹیموں نے ہاتھوں کی انگلیوں کے نشانات بھی لے لیے ہیں۔ تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ حملہ آور پیدل آیا اور پولیس افسران کے درمیان دھماکا کردیا۔
خودکش حملے کا مقدمہ تھانہ سی ٹی ڈی میں ایس ایچ او تھانہ سول لائن کی مدعیت میں درج کرلیا گیا جس میں انسداد دہشت گردی، قتل اور اقدام قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
دوسری جانب وزیر قانون پنجاب رانا ثنااللہ نے ایکسپریس نیوز سے خصوصی گفتگو میں لاہور میں خودکش حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور خود کش جیکٹ پہن کر آیا اور سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں اندر داخلہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ علاقے میں احتجاج کی وجہ سے سیکڑوں لوگوں کا رش تھا جس کے باعث دھماکا ہوا کیونکہ اتنے لوگوں میں کسی ایک کو روکنا مشکل ہوتا ہے تاہم احتجاج نہ ہوتا تو جانی نقصان بھی کم ہوتا جب کہ لاہور پولیس نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہے۔
علاوہ ازیں مشیر صحت پنجاب خواجہ سلمان رفیق نے میڈیا سے گفتگو کے دوران دھماکے میں 10 افراد کے شہید ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ دھماکے میں ڈی آئی جی، ایس ایس پی اور ایک پولیس کانسٹیبل سمیت 10 افراد شہید ہوگئے ہیں جب کہ دھماکے کے 18 زخمی میو اسپتال، 30 گنگا رام اسپتال اور سروسز اسپتال میں 6 زخمیوں کو لایا گیا ہے جن میں سے میو اور گنگا رام میں بعض افراد کی حالت تشویشناک ہے جن کی جان بچانے کی پوری کوششیں کی جارہی ہیں۔
دریں اثناء لاہور میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے آئی جی پنجاب پولیس مشتاق سکھیرا نے بتایا کہ لاہور میں ہونے والا دھماکا خودکش حملہ تھا جس کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خودکش حملہ شام 6 بج کر 10 منٹ پر ہوا، حملہ آور موقع کی تاک میں تھا اور حملہ آور کو ڈی آئی جی ٹریفک احمد مبین کے گن مین نے روکنے کی کوشش کی جس پر اس نے خود کودھماکے سے اڑا لیا۔
مشتاق سکھیرا کا کہنا تھا کہ سانحے میں شہید ہونے والوں میں 6 سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں جن میں ایلیٹ کے 2 جوان بھی شہید ہوئے جب کہ واقعے میں 83 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔