امریکا کا شامی ایئربیس پر کروز میزائلوں سے حملہ

ویب ڈیسک  جمعـء 7 اپريل 2017

دمشق / واشنگٹن: ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد امریکا نے شام پر پہلی یک طرفہ فوجی کارروائی کرتے ہوئے شامی ایئر بیس پر کروز میزائلوں سے حملہ کر دیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا نے بحیرہ روم میں موجود اپنے بحری بیڑوں سے شام کے شہر حمس میں شعیرات ایئربیس پر 60 ٹاما ہاک کروز میزائل داغے جس میں شامی فضائیہ کے طیاروں اور ایندھن کے اسٹیشن کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں 6 فوجی ہلاک اور 6 لڑاکا طیارے تباہ ہوگئے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: سلامتی کونسل میں شام کیخلاف قرارداد پر ووٹنگ روس کی دھمکی کے باعث ملتوی

پینٹا گون حکام نے امریکی کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ روس کو حملے کی پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی جب کہ اگلے حکم نامے تک فوجی کارروائی روک دی گئی ہے۔ دوسری جانب شام نے امریکی فوجی کارروائی کو جارحیت قرار دیتے ہوئے اس کی پرزور مذمت کی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد کے رویے کو کئی بار تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اپنے لوگوں پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا جو ناقابل قبول ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شام میں حملہ امریکی مفاد کے پیش نظر کیا گیا اور صرف ٹارگیٹڈ فوجی کارروائی کا حکم دیا، شام میں جاری خانہ جنگی کے حوالے سے تمام مہذب ممالک سے بات چیت بھی کی گئی لیکن شام نے سلامتی کونسل کے احکامات کو بھی نظر انداز کیا۔

ادھرترکی، سعودی عرب، قطر، برطانیہ، فرانس، جرمنی، کینیڈا اور اسرائیل نے شام میں امریکی فضائی حملے کی حمایت کی ہے جب کہ روس، ایران، عراق، لبنان، الجیریا اور وینزویلا نے حملے کی شدید مذمت اور مخالفت کی ہے۔ سعودی وزارت خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار نے امریکا کے حملے کی ذمہ اری شامی حکومت پر ڈالتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری اب تک بشار الاسد کو اپنے جرائم روکنے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتی تھی لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دلیرانہ اقدام شامی حکومت کے مسلسل جرائم کا جواب ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے بیان میں کہا کہ بشارالاسد حکومت اگر ادلب میں نہتے شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی قصور وار ہے تو اسے اس کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔

دوسری جانب روس نے شامی ایئربیس پر کروز میزائلوں سے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے اس کے اتحادی ملک کی فوج پر حملہ کیا جو ناقابل قبول ہے اور اس حملے کے بعد واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان شام کی فضائی حدود کے استعمال کے لئے طے پائے گئے معاہدے کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔

روسی صدر  کے ترجمان کے مطابق شام کے صدر بشارالاسد کی فوج پر حملے کے بعد روس اور امریکا کے درمیان تعلقات پرانی سطح پر نہیں آسکتے اور اس حملے کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں اور روس کے درمیان تصادم کا خطرہ بڑھ گیا ہے جب کہ روسی وزیردفاع کا کہنا تھا کہ امریکا کا شام میں فوجی بیس پر میزائل حملہ فضائی معاہدے کی سنگین خلاف ورزی ہے جس کے بعد ماسکو اپنے اہداف اب خود حاصل کرے گا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: ٹرمپ نے شامی حکومت کیخلاف فوجی کارروائی کا عندیہ دے دیا

علاوہ ازیں غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکا کی جانب سے شام پر حملے کے بعد ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے جنگی بحری بیڑا شام کی حفاظت کے لیے بحیرہ اسود روانہ کردیا، روس کا جنگی بحرہ بیڑا کروز میزائل اور سیلف ڈیفنس سسٹم سے لیس ہے جس کی قیادت ایڈمرل گرگرووچ کر رہے ہیں۔ روسی جنگی بیڑا مشرقی بحیرہ روم کے پانی میں تعینات ہوگا جہاں پہلے سے امریکا کے دو بحری بیڑے یو ایس ایس روز اور یو ایس ایس پورٹر موجود ہیں جن سے شام پر حملہ کیا گیا۔ روسی صدر ولا میر پیوٹن نے امریکا کو دھمکی دی کہ اگر شام پر اب حملہ کیا گیا تو اسے پہلے روس کا سامنا کرنا پڑے گا۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شامی فورسز کی جانب سے اپنے لوگوں پر کیمیائی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے شام میں کارروائی کا عندیہ دیا تھا۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے کیمیائی حملوں کے خلاف کارروائی کے لئے سلامتی کونسل میں بھی درخواست جمع کرائی گئی تھی تاہم روس کی جانب سے ویٹو کی دھمکی کے باعث شام کے خلاف قرارداد پر ووٹنگ نہ ہو سکی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔