شریف خاندان کا احتساب میری پیدائش سے بھی پہلے سے ہو رہا ہے، وزیراعظم

ویب ڈیسک  جمعرات 15 جون 2017

 اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کوئی ایسا خاندان نہیں جس کا ایسا بے رحمانہ احتساب ہوا ہو لیکن مخالفین جتنے بھی جتن اور سازشیں کر لیں ناکام و نامراد رہیں گے۔

جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ میرے تمام اثاثوں کی دستاویزات الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کے پاس موجود ہیں لیکن آج میں نے ایک بار پھر یہ تمام دستاویزات جے آئی ٹی کے سامنے پیش کردیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کا دن قانون کی عملداری کے لئے سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے، میں نے، ہماری حکومت نے اور سارے خاندان نے اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کر دیا ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: پاناما جے آئی ٹی کی وزیراعظم نوازشریف سے 3 گھنٹے پوچھ گچھ

وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ میں نے بہت پہلے ہی کمیشن بنانے کا کہہ دیا تھا لیکن اگر سیاسی مخالفین سازشیں نہ کرتے تو آج یہ نوبت ہی نہ آتی، شریف خاندان کا احتساب میری پیدائش سے بھی پہلے 1936 سے ہو رہا ہے، اس سے پہلے ہمارا احتساب 1972 میں پیپلز پارٹی کے دور میں بھی ہوا اور ہمارا احتساب مشرف کی آمریت نے بھی کیا، اس بے دردی سے ہمارا احتساب کیا گیا کہ ہمارے گھروں پر بھی قبضہ کر لیا گیا، اگر ہم پر کرپشن ثابت ہو جاتی تو مشرف کو مجھے سزا دلوانے کیلئے ہائی جیکنگ کے جھوٹے مقدمے کا سہارا نہ لینا پڑتا۔

وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ صرف میرے دور میں اتنی ترقی ہوئی جتنی گزشتہ 65 سالوں میں بھی نہیں ہوئی، یہ جو کچھ جے آئی ٹی میں ہو رہا ہے اس کا سرکاری خزانے کی خورد برد اور کرپشن سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ہمارے خاندان کے ذاتی کاروبار کو الجھایا اور خراب کیا جا رہا ہے۔

وزیراعظم نے نے کہا کہ ہمارے دامن پر نہ پہلے کرپشن کا ذرہ برابر داغ لگا اور نہ آئندہ آئے گا، مخالفین چاہے جتنے جتن کر لیں اور جتنی سازشیں کر لیں وہ ناکام اور نامراد رہیں گے جب کہ چند روز میں جے آئی ٹی کی رپورٹ بھی سامنے آ جائے گی، لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ 20 کروڑ عوام کی عدالت اور جے آئی ٹی بھی لگنے والی ہے، اور اس سے بھی بڑھ کر ایک عدالت خدائے بزرگ و برتر کی تھی ہے جو ظاہر کو بھی جانتا ہے اور باطن کو بھی۔

وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ آج یہاں صرف اس لئے پیش ہوا ہوں کہ وزیراعظم سمیت ہم سب قانون کے سامنے جوابدہ ہیں اور جمہوریت عوام کے فیصلوں کے احترام کا نام ہے، یہ ملک سازشوں کی بھاری قیمت ادا کر چکا ہے لیکن اب ہم تاریخ کا پہیہ پیچھے کی طرف موڑنے نہیں دیں گے، میں اور پورا خاندان اس جے آئی ٹی سے بھی سرخرو ہوں گے اور اگلے برس بیٹھنے والی عوام کی جے آئی ٹی میں بھی کامیاب ہوں گے۔

اس سے قبل وزیر اعظم نواز شریف پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے قائم کی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوئے اس موقع پر وزیراعلی پنجاب شہباز شریف، حسین نواز شریف، حمزہ شہباز شریف، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی، وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وزیراعظم نے جے آئی ٹی کو مطلوبہ دستاویزات فراہم کیں جب کہ وزیراعظم نے واجد ضیا کی سربراہی کام کرنے والی جے آئی ٹی کے سامنے 3 گھنٹے تک جے آئی ٹی ارکان کے سوالات کے جواب دیئے۔

ذرائع کے مطابق وزیر اعظم سے 12 سوالات کئے گئے کہ گلف اسٹیل ملز کیسے قائم ہوئی؟ گلف اسٹیل ملز کو کس وجہ سے فروخت کیا گیا ؟ گلف اسٹیل ملزکو کیسے فروخت کیا گیا؟ مل پر واجب الاداواجبات کیسے ادا ہوئے؟ رقم کس طرح جدہ ، قطر اور برطانیہ پہنچی؟ ہل میٹل کمپنی کیسے وجود میں  آئی؟ کیاحسین نواز اور حسن نواز 90 کی دہائی کے آغاز میں  لندن فلیٹس خریدنے کے ذرائع رکھتے تھے؟  قطری شہزادے جاسم بن جابرالتھانی کے خط کی کیا حقیقت ہے؟ بیئررزشیئرز کیسے فلیٹس میں  تبدیل ہوئے؟ آف شور کمپنیوں  نیلسن انٹرپرائزز اور نیسکول لمیٹیڈ کااصل مالک کون ہے؟ حسن نواز شریف کے پاس فلیگ شپ اور دیگر کمپنیوں  کیلئے رقم کہاں سے آئی ؟ قوم سے خطاب اور اسمبلی میں  تقریر کے بیانات میں  تضاد کی وجہ کیا ہے؟

ذرائع کے مطابق وزیراعظم سے ، حدیبیہ پیپر ملز اور اس سے متعلق اسحاق ڈار کے بیان حلفی، وزیر اعظم اور ان کے بچوں  کے درمیان رقوم کے لین دین اور ان کی رسیدوں  سے متعلق سوالات بھی پوچھے گئے جب کہ وزیر اعظم کو پہلے سوالات فراہم کئے گئے  قطری خط کے حوالے سے سوال پر وزیر اعظم نے جواب دیا کہ یہ سوال ان سے اور ان کے شیئرہولڈرز سے پوچھا جائے۔

جے آئی ٹی نے 17جون کو وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کو طلب کررکھا ہے ان سے حدیبیہ پیپرملز اور چوہدری شوگر ملز کا ریکارڈ طلب کیا گیا ہے جب کہ 23جون پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹررحمن ملک اور 24جون کو وزیر اعظم کے داماد کیپٹن ریٹارئرڈ صفدر کو طلب کررکھا ہے۔

وزیر اعظم کی جوڈیشل کمیشن آمد کے موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی انتظامات کئے گئےتھے، جوڈیشل اکیڈمی کےاطراف 500 میٹر تک غیرمتعلقہ افراد کا داخلہ بند کردیا گیا تھا۔ گارڈن فلائی اووراورالشفااسپتال سےجوڈیشل اکیڈمی جانے والی سڑکیں بند کرکے شہریوں کو میرظفراللہ جمالی اور صاحبزادہ عبدالقیوم روڈ استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی تھی ۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم ہاؤس سے جوڈیشل اکیڈمی اور اس کے اطراف 2 ہزار 500 سیکیورٹی اہلکار تعینات تھے۔

واضح رہے کہ پاناما پیپرکیس کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی کے روبرو وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز 5 جب کہ حسن نواز 2 مرتبہ پیش ہوچکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔