فلائٹ ففٹین سے ٹکرانے والے کچھ زمینی فرشتے

وسعت اللہ خان  منگل 17 مارچ 2015

نائن الیون کی صبح ڈیلٹا ایر لائنز کی فلائٹ ففٹین فرینکفرٹ سے اٹلانٹا جاتے ہوئے شمالی اوقیانوس پر سے گذر رہی تھی کہ اچانک پردے کے پیچھے سے میری ساتھی ایئرہوسٹس نمودار ہوئی اور کہا کاک پٹ میں جاؤ کپتان بلا رہا ہے۔ میں کاک پٹ میں پہنچا تو کپتان نے ڈیلٹا کے اٹلانٹا ہیڈ کوارٹر سے آنے والا یہ پیغام تھما دیا۔

„ ریاستہائے متحدہ کی فضائی حدود بند کردی گئی ہیں۔لہذا قریب ترین ایئرپورٹ پر فوراً اتر جاؤ اور ہمیں مطلع کرو ‘‘۔

کپتان نے حساب کتاب لگا کر بتایا کہ قریب ترین گینڈر ایئرپورٹ چار سو میل دور نیو فاؤنڈ لینڈ میں ہے۔کپتان نے کینیڈین ایئر ٹریفک کنٹرول سے راستہ بدلنے کی اجازت مانگی جو کوئی سوال پوچھے بغیر فوراً دے دی گئی۔ہم نے فیصلہ کیا کہ مسافروں کو پریشانی سے بچانے کے لیے فی الحال یہی بتایا جائے کہ تکنیکی خرابی کے سبب ہم نے ہنگامی طور پر قریب ترین ایئرپورٹ پر اترنے کا فیصلہ کیا ہے۔مسافروں نے حسبِ توقع بڑبڑانا شروع کردیا۔بہرحال چالیس منٹ بعد طیارہ گینڈر ایئرپورٹ پر اتر گیا۔جہاں پہلے ہی دنیا کی مختلف فضائی کمپنیوں کے لگ بھگ بیس طیارے کھڑے تھے۔

کپتان نے طیارہ پارک کرتے ہی اعلان کیا۔

„ خواتین و حضرات آپ کو کھڑکیوں سے باہر دیکھ کر شائد حیرت ہو رہی ہو کہ بیک وقت اتنے سارے طیاروں میں تکنیکی خرابی کیسے پیدا ہوسکتی ہے۔ درحقیقت امریکی فضائی حدود کسی سبب سے بند کردی گئی ہیں۔جیسے جیسے صورتِ حال واضح ہوتی چلی جائے گی۔ہم آپ کو بتاتے چلے جائیں گے۔شکریہ ‘‘۔

مسافروں میں پہلے تو تشویش اور بے یقینی کی بھنبھناہٹ پھیلی اور پھر سب صبر کرکے بیٹھ گئے۔کینیڈین انتظامیہ نے ہدایت جاری کی کہ فی الحال طیارے جوں کے توں کھڑے رہیں گے۔ نہ کوئی چڑھے گا نہ اترے گا۔اگلے دو ڈھائی گھنٹے میں گینڈر ایئرپورٹ پر طیاروں کی تعداد تریپن تک پہنچ گئی۔ ان میں سے ستائیس کا تعلق امریکی فضائی کمپنیوں سے تھا۔رفتہ رفتہ حالات واضح ہونے لگے اور ہمیں پتہ چلا کہ کئی گھنٹوں پہلے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ ٹاور اور واشنگٹن میں پینٹاگون کی عمارت سے چند طیارے ٹکرائے ہیں۔

مسافروں نے اپنے موبائل فون استعمال کرنے شروع کر دیے مگر کوئی بھی امریکا کال نہیں کرپایا۔تمام لائنیں معطل یا جام تھیں۔شام کے سائے گہرے ہوتے ہوتے یہ خبر ہم تک پہنچی کہ ورلڈ ٹریڈ ٹاور منہدم ہوگیا ہے اور ایک چوتھا طیارہ گر کے تباہ ہوگیا ہے۔اکثر مسافر اپنی نشستوں پر مسلسل قید رہنے کے سبب ذہنی و جسمانی طور پر تھک چکے تھے۔شائد انھیں یہ اطمینان ہو چلا تھا کہ صرف ہم ہی یہ وقت نہیں کاٹ رہے۔ باؤن دیگر طیاروں کے مسافر بھی انھی حالات سے گذر رہے ہیں۔

شام چھ بجے کے قریب اطلاع ملی کہ ہر طیارے کو مسافروں سے ترتیب وار خالی کرایا جائے گا اور ہماری باری کل صبح گیارہ بجے تک آئے گی۔مسافر بالکل خوش نہیں تھے۔

مگر کوئی بھی کیا کرسکتا تھا۔شکر ہے سوائے ایک حاملہ خاتون کے طیارے کے سب مسافر صحت مند تھے۔لہذا ان خاتون کی دیکھ بھال ہم بہتر طریقے سے کرتے رہے۔اگلی صبح لگ بھگ ساڑھے دس بجے اسکول کی بسوں کا ایک قافلہ ہم تک پہنچا جس میں بیٹھ کر ہم ایرپورٹ ٹرمینل تک پہنچے اور امیگریشن اور کسٹمز کے مراحل سے گذر کے خود کو ریڈکراس کے کاؤنٹر پر رجسٹر کروایا۔

ریڈ کراس والوں نے بتایا کہ گینڈر قصبے کی آبادی دس ہزار چار سو ہے۔ اب تک جتنے طیاروں نے یہاں ایمرجنسی لینڈنگ کی ہے، ان کے عملے اور مسافروں کی تعداد تقریباً دس ہزار پانچ سو ہے۔ہماری فلائٹ کے عملے کو ایک چھوٹے سے ہوٹل میں پہنچایا گیا۔مگر مسافروں کو کہاں لے جایا جا رہا ہے۔ یہ ہمیں تب تک نہیں پتہ تھا۔ہوٹل کے کمرے میں آنے کے بعد سب سے پہلا کام ٹی وی کے ذریعے چوبیس گھنٹے کی بے خبری کو باخبری میں بدلنا تھا۔

سہہ پہر کے بعد ہم گھومنے کے لیے نکلے تو قصبے کے لوگ ہمیں خوشدلی سے اشارے کرتے ہوئے ایک دوسرے کو بتا رہے تھے یہ جہاز والے لوگ ہیں۔دو روز بعد ہمیں ایئرپورٹ واپس پہنچانے کے لیے مقامی انتظامیہ نے گاڑی بھیجی۔طیارے پر سوار ہوتے ہی میں نے دیگر مسافروں کو دیکھا تو ان کے چہرے ہی بدلے ہوئے تھے۔

ان مسافروں نے بتایا کہ گینڈر اور اس کے اردگرد کے پچھتر کلومیٹر علاقے میں تمام اسکول ، ہاسٹلز ، ہال اور بڑے احاطے خالی کروا کے انھیں قیام و طعام کے مراکز میں تبدیل کردیا گیا۔

مقامی لوگوں میں سے کوئی بستر لا رہا تھا تو کوئی بچوں کے کوٹس ، کوئی تکیے تو کوئی سلیپنگ بیگ۔مقامی ہائی اسکولوں کے تمام طلبا و طالبات نے مہمانوں کی دیکھ بھال کے رضاکارانہ کام سنبھال لیے۔

ہماری فلائیٹ کے تمام دو سو پندرہ مسافروں کو گینڈر سے پینتالیس کلومیٹر پرے لوئی پورٹ قصبے میں ایک ہائی اسکول کی عمارت میں پہنچایا گیا۔جو خواتین دیگر خواتین کے ساتھ رہنا چاہتی تھیں ان کے لیے علیحدہ انتظام کیا گیا۔خاندانوں کو ایک ساتھ رکھا گیا اور ضعیف مسافروں کو مقامی لوگوں نے اپنے گھروں میں جگہ دے دی۔

اسکول میں نرسنگ عملے اور دانتوں کے ایک ڈاکٹر کو متعین کیا گیا اور ہماری فلائٹ کی حاملہ خاتون کو ایسے گھر میں رکھا گیا جس کے سامنے چوبیس گھنٹے کھلا رہنے والا میڈیکل سینٹر تھا۔

ہر مسافر کو دن میں ایک بین الاقوامی کال اور کچھ ای میلیں کرنے کی سہولت بھی فراہم کی گئی۔مہمانوں کے لیے مقامی جھیلوں اور جنگلوں کی سیر کا انتظام کیا گیا۔مقامی بیکریاں چوبیس گھنٹے کھلی رہیں تاکہ بریڈ کی قلت نہ ہو۔مقامی لوگوں نے گھروں میں کھانا بنا بنا کے اسکول میں بھیجا۔ ریستورانوں میں مہمانوں کو انتہائی رعائیتی قیمت پر کھانا دیا گیا۔چونکہ زیادہ تر سامان طیارے پر ہی تھا لہذا ہر مسافر کو مفت کپڑے دھلوانے کے لیے لانڈریوں نے ٹوکن جاری کیے۔

جب خبر ملی کہ امریکی فضائی حدود کھول دی گئی ہیں تو ہر مسافر کو بروقت ایرپورٹ پہنچایا گیا۔ایک بھی مسافر لاپتہ نہیں ہوا۔کس مسافر کو کب اپنے جہاز تک پہنچنا ہے۔یہ انتظام ریڈ کراس والوں نے اپنے ذمے لیا۔

ان ڈھائی دنوں میں مسافر آپس میں اتنے گھل مل گئے کہ ایک دوسرے کو ناموں سے پکار رہے تھے۔اور اتنے انہماک سے اپنے اپنے قصے سنا رہے تھے،گویا یہ کوئی معمول کی روائیتی پرواز نہ ہو ، اٹلانٹا تک کی چارٹرڈ پارٹی فلائٹ ہو۔

اور پھر اچانک ایک مسافر میرے پاس آیا اور کہا کہ وہ طیارے کے پبلک ایڈریس سسٹم پر کچھ اعلان کرنا چاہتا ہے۔عام حالات میں یہ اجازت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔مگر یہ عام حالات نہیں تھے۔چنانچہ میں نے خوش دلی سے اجازت دے دی۔اس مسافر نے اعلان کیا کہ وہ لوئی پورٹ قصبے کے بے مثال پیار اور شاندار میزبانی کے اعتراف میں ڈیلٹا ففٹین کے نام سے ایک ٹرسٹ فنڈ قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ لوئی پورٹ کے اسکولی طلبا کو کالج کی تعلیم کے لیے اسکالر شپس دیے جاسکیں۔

پھر اس نے ایک سادہ کاغذ ایک مسافر کو دیتے ہوئے کہا کہ جو جو اس فنڈ میں حصہ ڈالنا چاہے اپنا نام پتہ اور چندے کی رقم لکھ دے۔آناً فاناً ہی چودہ ہزار ڈالر کا وعدہ ہوگیا۔ورجینیا کے ایک ڈاکٹر نے اٹھ کے اعلان کیا کہ وہ اتنی ہی رقم اپنی جیب سے ڈال رہا ہے۔اور ڈیلٹا ایرلائن مینجمنٹ سے بھی کم ازکم اتنا ہی حصہ ڈالنے کی درخواست کرے گا۔

آج جب اتنے برس بعد میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔ڈیلٹا ففٹین ٹرسٹ فنڈ میں ڈیڑھ ملین ڈالر جمع ہوچکے ہیں اور لوئی پورٹ کے ایک سو چونتیس طلبا کو کالج کی تعلیم کے لیے سو فیصد اسکالر شپ مل رہی ہے۔

میں کوئی لکھاری نہیں مگر یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اس دنیا میں بتانے کے لیے اچھی خبریں بھی ہوتی ہیں۔اور اسی دنیا میں وہ اجنبی مہربان بھی پائے جاتے ہیں جن کی یادیں ہم جیسے ہزاروں اجنبیوں کی زندگی کا دائمی حصہ بن جاتی ہیں۔یقین کیجیے یہی دنیا ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جو اس وقت اپنی بانہیں پھیلا دیتے ہیں جب ان بانہوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔اب بھی یہاں ایک دوسرے سے سیکھنے اور سکھانے اور بانٹنے کے لیے بہت کچھ ہے۔

( یہ داستان ڈیلٹا ففٹین کے فلائٹ پرسر کی ہے جو میں نے من و عن بیان کردی تاکہ حسن اور بٹتا جائے۔یہ ضروری تو نہیں کہ ہر بار کالم بازی ہی ہو )۔

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔