تحریک انصاف کو ’فتح‘ مبارک ہو!

خوشنود زہرا  پير 12 اکتوبر 2015
جس طرح شیر کی دھاڑ اور پکار کا شور تھا نتیجہ ذرا اس سے مختلف ہی نظر آیا۔ فوٹو :فائل

جس طرح شیر کی دھاڑ اور پکار کا شور تھا نتیجہ ذرا اس سے مختلف ہی نظر آیا۔ فوٹو :فائل

بات شروع کرنے سے پہلے میں تحریک انصاف کو فتح کی مبارک دینا چاہتی ہوں۔ ویسے کہیں آپ یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ بلاگ لکھنے والی کا تعلق تحریک انصاف سے ہے اور این اے 122 کی سیٹ کھونے کے بعد دماغ چل گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بہکی بہکی باتیں کی جارہی ہیں۔ لیکن میں آپ کو صاف صاف کہنا چاہتی ہوں کہ نہ تو میرا تعلق تحریک انصاف سے ہے اور نہ میں بہکی بہکی باتیں کررہی ہوں۔ میں تحریک انصاف کو فتح کی مبارک باد کیوں دے رہی ہوں یہ آپ کو آگے چل کر معلوم ہوجائے گا۔

ایک شور، ہنگامہ اور جوش تھا این اے 122 کا ضمنی انتخاب، جیسے  پورے پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ اسی ایک حلقہ پر منحصر ہو، عوام اور سیاستدان کا تو خیر ذکر ہی کیا، پہلے غیر سرکاری نتیجہ ہمارے چینل، فلاں پولنگ اسٹیشن سے فلاں امیدوار کو  برتری، سب سے پہلے ہمارا نمائندہ، ہماری ٹیم، ہماری کوریج اور جو سب سے اہم تھا وہ تھا نتیجہ اور نتیجے نے ثابت کردیا کہ تبدیلی آچکی ہے۔

جس طرح شیر کی دھاڑ اور پکار کا شور تھا نتیجہ ذرا اس سے مختلف ہی نظر آیا۔ اِس بات سے کوئی انکار ہی نہیں کہ دونوں طرف سے پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا مگر ایک ریاست کے حمایت یافتہ امیدوار، جس کو ہر ہر طرح کی حمایت میسر تھی بشمول وفاقی حکومت کی مکمل سرپرستی، صوبائی حکومت کی مکمل حمایت، سڑکوں کی تعمیر، پانی کی فراہمی، انتخابات سے ایک دن قبل وزیراعظم اور وزیراعلی کی جانب سے ترقیاتی اعلانات۔ لیکن اِن تمام عوامل کے باوجود نتیجہ ذرا ہٹ کے ہی رہا، جس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ ایاز صادق اپنی سیٹ بچانے میں تو کامیاب ہوگئے مگر ووٹوں کے فرق نے ثابت کیا کہ علیم خان نے ایاز صادق کو برابر کی ٹکر دی ہے۔ بقول شاعر

’’تجهے اے جگر مبارک یہ شکست فاتحانہ‘‘

اگر نتائج کا جائزہ لیا جائے تو اعداد شمار بتاتے ہیں کہ این اے 122 لاہور میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 47 ہزار 762 ہے جس میں سے (ن) لیگی امیدوار ایازصادق 74525 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے جب کہ اُن کے مدِ مقابل تحریک انصاف کے امیدوار 72082 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے اور عددی حیثیت سے ایاز صادق نے علیم خان کو 2443 ووٹوں سے شکست دی۔ ایک صاحب نے نتیجے پر بہت ہی خوبصورت تجزیہ کیا کہ انتخاب میں حکومت تو جیت گئی مگر ن لیگ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اگر اِس نتیجے کو دیکھنے کے بعد یہ کہا جائے کہ یقینی طور پر یہ فتح ن لیگ کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں کیونکہ فاتح اُمیدوار اور شکست خوردہ اُمیدوار میں ووٹوں کا فرق مسلسل کم ہوتا جارہا ہے۔ اگر ٹرن آؤٹ اِس سے زیادہ ہوتا اور تحریک انصاف کو لاکھوں میں سے محض چند ہزار ووٹ ہی ملتے تو یہ ضرور کہا جاسکتا تھا تحریک انصاف نے منہ کی کھائی۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ جیت تو جیت ہوتی ہے پھر چاہے وہ ایک ہی ووٹ سے کیوں نہ حاصل ہو مگر جو بات یہاں کہنا مقصود ہے وہ یہ کہ اگر لوگوں نے ن لیگ کو ووٹ دیے ہیں توتحریک انصاف کو بھی عوام کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے جس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ قوم اب حقیقت میں تبدیلی کی خواہ ہے، وہ سالوں سے ان ہی سیاسی جماعتوں اور ان کے پرانے نمائندوں کے طور طریقوں سے  خوش نہیں، اصل میں وہ ایک ایسے افراد کے متلاشی ہیں جو واقعی میں  قوم کو  تبدیلی کی راہ پر ڈال سکے۔

اب بات ہوجائے ذرا تحریک انصاف کی، اگر تحریک انصاف سوشل میڈیا سے باہر نکل کر گلی کوچوں میں جاکر عوام سے رائے لیتی تو اُسے اندازہ ہوتا کہ لوگوں کو اُس سے کتنی اُمیدیں ہیں اور صرف اپنی انا اور ضد کی وجہ سے یہ پارٹی عوامی توقعات پر پوری نہیں اُتر رہی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اگر تحریک انصاف اپنے امیدوار کے حوالے سے قائم رائے پر بھی کان دھرتی تو اُسے خوب اندازہ ہوجاتا کہ وہ کتنی بڑی غلطی کرنے جارہی ہے۔ اگر تحریک انصاف، ق لیگ سے نکلے ہوئے علیم خان کی جگہ کسی نظریاتی کارکن کو ٹکٹ دیتی تو شاید آج شکست کا منہ نہ دیکھنا پڑتا کیونکہ علیم خان کے انتخاب پر خود پی ٹی آئی کے ہی کارکنوں کو اعتراض تھا۔ جب کپتان نے این اے 122 میں سردار ایاز صادق کے مقابلے میں عبدالعلیم خان کو لانے کا اعلان کیا تو کارکنوں نے اعتراضات اٹھائے جس پر کپتان نے عبدالعلیم خان کی تعریفوں کے پُل باندھ دیے۔ تحریک انصاف کی ویب سائٹ پر اپنے ایک مضمون میں عمران خان نے کارکنوں کو علیم خان کی انتخابی مہم پھرپور انداز میں چلانے کی ہدایت کی۔

ہمیں تو وہ وقت بھی یاد ہے جب عمران خان کو کہتے سنا کرتے تھے کہ وہ چلے ہوئے کارتوس پر نہیں بلکہ نوجوانوں پر انحصار کریں گے۔ اب سمجھ نہیں آتا کہ ہم پیپلزپارٹی سے نکلے ہوئے شاہ محمود قریشی کو جوان سمجھیں یا ق لیگ سے نکلے ہوئے جہانگیر ترین اور علیم خان کو نوجوان سمجھیں۔

بات کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ نہ ہمیں ن لیگ سے لگاو ہے، نہ تحریک انصاف اور نہ کسی دوسری جماعت سے۔ ہمیں تو لگاو ہے ایسے لوگوں سے جو عوام کے دل کی آواز بنے۔ اگر یہ کام کوئی علاقائی جماعت بھی کرے گی تو ہم اُس کی حمایت کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کریں گے۔ اگر جاگیرداروں اور وڈیروں کے حوالے سے پیپلزپارٹی اور ن لیگ تنقید کا نشانہ بنتی ہیں تو پھر صرف پیسوں کی بنیاد پر علیم خان کو ٹکٹ دینے پر تحریک انصاف پر بھی تنقید ہونی چاہیے۔ اگر تبدیلی کی دعویدار تحریک انصاف بھی پیسوں والوں کو ٹکٹ بانٹنا شروع کردے تو پھر کیسی تبدیلی اور کہاں کی تبدیلی اور ناجانے پھر کیونکر عوام کو بیوقوف بنایا جارہا ہے اور ناجانے کیوں عوام یہ سب دیکھنے کے باوجود بھی بیوقوف بنے جارہے ہیں۔

اِس لیے اب بھی خان صاحب سے التجا ہے کہ جناب ہم آپ کی بات مان لیتے ہیں کہ ن لیگ کرپٹ ہے، پیپلزپارٹی بھی کرپٹ ہے اور باقی سب جماعتیں بھی کرپٹ ہیں اور صرف تحریک انصاف ہی صاف اور شفاف جماعت ہے۔ لیکن اگر آپ صاف اور شفاف ہیں تو پھر کیونکر آپ کے آس پاس چور و ڈکیٹ موجود ہیں، کیوں آپ نے قبضہ مافیا کی پہنچان علیم خان کو ٹکٹ دیا؟ اِس لیے اب بھی وقت ہے، بلدیاتی انتخابات قریب ہیں، خدارا وہ کام نہ کریں جو باقی روایتی جماعتیں کرتی ہیں۔ نئے لوگوں کو موقع دیں کہ یہی آپ کا منشور ہے۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

خوشنود زہرا

خوشنود زہرا

بلاگر آزادی اظہار رائے کے ساتھ تمام بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کی قائل ہیں، تحقیقی صحافت میں خاص دلچسپی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔