اڑی حملے کا ڈراما

زمرد نقوی  اتوار 25 ستمبر 2016
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

کشمیر برصغیر کی تقسیم کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ آج کل یہی کشمیر پچھلے کچھ مہینوں سے عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے بھارت اور پاکستان میں کشیدگی پھر سے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام کی خون پسینے کی کمائی ایٹم بموں میزائلوں اور ہتھیاروں پر خرچ ہونے کے بجائے غربت بیروزگاری بیماری اور بھوک کے خاتمے پر خرچ ہوتی جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے عوام کو صحت تعلیم رہائش کی سہولتیں ارزاں نرخوں پر میسر ہونے کے ساتھ ساتھ جاب نہ ہونے کی صورت میں ترقی یافتہ سوشل ویلفیئر ملکوں کی طرح بیروزگاری الاؤنس سے بھی مستفید ہوتے۔ لیکن یہ سب تو برصغیر کے عوام کے لیے ایک سنہرا خواب ہی ہے جس کی تعبیر نہ جانے کب نکلے۔

کشمیر کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ وہاں پر پچھلے دو ماہ سے کرفیو نافذ ہے اور یہ کشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ مسلمان وہاں اس مرتبہ عید کی نماز نہ ادا کر سکے۔ لیکن بھارت بتدریج اپنے وعدوں سے مکرتا چلا گیا اور آج یہ صورت حال ہے کہ حق خودارادیت اس کے نزدیک قصہ پارینہ ہے۔ کشمیریوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے شیخ عبداللہ سمیت کئی کٹھ پتلی حکومتیں قائم ہوئیں لیکن کشمیری بدستور اپنے حقوق کے لیے سینہ سپر رہے۔

کشمیریوں کی یہ مسلسل جدوجہد ہی تھی کہ ایک وقت میں اسی آزادی کی تحریک کو بین الاقوامی حمایت ح اصل ہو گئی اور یہ کشمیریوں کی بہت بڑی کامیابی تھی پھر بدقسمتی سے بیرونی مداخلت نے اس تحریک کو عالمی طاقت سے محروم کر دیا۔دنیا مدت ہوئے گلوبل ویلیج بن چکی۔ دنیا کے کسی کونے میں کوئی بھی غیرمعمولی واقعہ رونما ہو۔ اس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوتے ہیں۔

اسی کی دہائی کے آخر اور نوے کی دہائی کے شروع میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس کے بطن سے بہت سے ملک آزاد ہوئے جس نے کشمیریوں کی تحریک آزادی پرگہرے اثرات مرتب کیے اور ان کے اس عزم کو مضبوط کیا کہ وہ بھارت سے آزادی لے کر رہیں گے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ بھارت مخالف احتجاجی مظاہروں میں 80 افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ ان زخمیوں میں وہ زخمی بھی شامل ہیں جن کی آنکھیں پیلٹ شاٹ گنز سے متاثر ہوئیں جس کے نتیجے میں وہ اپنی بصارت سے محروم ہو گئے۔ ان میں بڑی تعداد میں بچے بھی شامل ہیں۔

بزور طاقت احتجاج کو کچلنے کے لیے بھارتی حکام نے کرفیو لگایا ہوا ہے جس کے نتیجے میں کشمیری عوام دو ماہ سے زائد عرصے سے عملی طور پر قید میں ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ دفاتر اسکول اور دکانیں سب کچھ بند پڑا ہے۔ برصغیر کی آزادی کے بعد سے کشمیریوں اور بھارت کے درمیان اس لڑائی میں اب تک 44 ہزار افراد بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ کشمیریوں کی اس تحریک کو کچلنے کے لیے بھارتی حکومت نے5  لاکھ سے زائد فوجی تعینات کیے ہوئے ہیں۔ کسی تحریک کو کچلنے کے لیے اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کی موجودگی کی دنیا میں کوئی اور مثال نہیں۔ 2010ء میں بھی بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں احتجاج کے دوران 110 افراد جاں بحق ہو گئے۔

اس خون خرابے کے بعد بھارتی حکومت نے کشمیریوں کو پھر ہمیشہ کی طرح جھانسا دیا کہ وہ ان کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرے گی لیکن یہ ایک دھوکا تھا مقصد یہ تھا کہ کشمیریوں کو مذاکرات کی میز پر لا کر ان کا احتجاج ختم کرایا جائے۔ اس دفعہ بھی ایسا ہی ہوا کہ جب بھارتی حکومت نے دیکھا کہ ڈھائی مہینے کے کرفیو کے باوجود کشمیری عوام سڑکوں پر آنے سے باز نہیں آ رہے اور ان کا احتجاج کم ہونے میں نہیں آ رہا تو انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں اڑی کے مقام پر فوجی کیمپ پر حملہ کرا دیا اور اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا تا کہ پاکستان کو دنیا میں بدنام کیا جا سکے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ وادی میں کرفیو لگا ہے۔ فوجی کیمپ کی حفاظت سٹیلائٹ سے کی جا رہی ہے۔ اس کیمپ کے گرد فوجی ناکے ہیں۔

اتنے سخت حفاظتی اقدامات کے بعد کسی کا فوجی مرکز تک پہنچ جانا نا ممکنات میں سے ہے۔ جب فوجی کیمپ پر حملہ ہوا تو اس وقت نیویارک میں جنرل اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا جہاں دنیا بھر کے سربراہان مملکت اور اسمبلی ریاستی شخصیات جمع تھیں۔ مقصد یہ تھا کہ کشمیریوں کی موجودہ تحریک کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ثابت کیا جائے اور ثبوت کے طور پر اڑی فوجی مرکز پر حملے کا الزام پاکستان پر لگا دیا جائے۔ بھارتی میڈیا نے عوام میں جنگی جنون پیدا کرتے ہوئے فوری طور پر اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا جب کہ بھارتی خفیہ ایجنسی نے اپنے ہی میڈیا کے لگائے ہوئے الزامات کی تردید کر دی ہے۔

بھارتی حکومت کو سوچنا چاہیے کہ کشمیر کے مسئلے کا حل پاکستان پر الزام تراشی نہیں۔ جب پوری وادی میں مسلسل کرفیو ہو اور ہزاروں کشمیری اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل کر آزادی مانگیں، پاکستانی جھنڈے لہرائیں، پاکستانی پرچم میں لپٹ کر دفن ہونا مبارک سمجھیں تو اسے پاکستان کی سازش نہیں کہا جا سکتا۔ بھارت کی کشمیریوں سے وعدہ خلافیوں اور بے پناہ ظلم و جبر نے انھیں یقین دلا دیا ہے کہ بھارت کے خلاف موجودہ جنگ آخری جنگ ہے اگر آزادی اب نہیں ملی تو کبھی نہیں ملے گی۔

اڑی آرمی ہیڈ کوارٹر حملے کے حوالے سے فوری اہم تاریخیں۔ 27,26 اور 30,29 تا 2 اکتوبر ہیں۔

اکتوبر تا دسمبر کسی ناگہانی آفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

سیل فون:0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔