زینب واقعے کیخلاف احتجاج کرنے والوں پر پولیس فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق

ویب ڈیسک  بدھ 10 جنوری 2018

قصور: کم سن زینب سے زیادتی و قتل کے خلاف شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور احتجاج کرنے والے مشتعل مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے جبکہ انتظامیہ نے حالات پر قابو پانے کے لیے رینجرز کو طلب کرلیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق قصور میں کم سن زینب سے زیادتی و قتل کے واقعے کیخلاف خواتین سمیت بڑی تعداد میں شہری سڑکوں پر نکل آئے اور پولیس و انتظامیہ کی نااہلی کیخلاف شدید احتجاج کیا۔ واقعے کے خلاف شہر میں مکمل ہڑتال کی گئی اور کاروبار زندگی متاثر رہا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ زینب 5 روز سے اغوا تھی لیکن اس کے باوجود پولیس نے اس کی بازیابی کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : قصور میں 8 سالہ بچی کا زیادتی کے بعد لرزہ خیز قتل

مظاہرین نے کمشنر آفس پر دھاوا بولتے ہوئے دفتر کا گیٹ توڑ دیا اور ڈنڈوں سے گاڑیوں کے شیشے توڑ دیے۔ مشتعل افراد نے پولیس پر پتھراؤ کیا جس پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کےلیے براہ راست سیدھی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوگئے۔

زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا جہاں انہیں طبی امداد فراہم کی جارہی ہے تاہم زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 2 افراد جاں بحق ہوگئے۔ جاں بحق افراد کی شناخت علی اور شعیب کے نام سے ہوئی ہے جن میں سے ایک طالب علم ہے۔ آئی جی پنجاب عارف نواز نے کہا ہے کہ تفتیش کریں گے کہ پولیس نے مظاہرین پر گولی کیوں چلائی۔

اس خبر کو بھی پڑھیں؛ معصوم زینب کے قتل پر شوبز و کرکٹ ستارے بھی اشک بار

مظاہرین دونوں لاشیں پوسٹ مارٹم کرائے بغیر اسپتال سے باہر لے آئے اور میتیں ڈی ایچ کیو اسپتال کے سامنے رکھ کر دھرنا دیا۔ اسپتال میں آنے والے پولیس اہلکاروں پر مظاہرین نے حملہ کردیا تو پولیس اہلکار جان بچانے کے لیے اسپتال میں چھپ گئے۔ چاروں طرف مظاہرین کا راج رہا جو حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کرتے رہے ۔ پورے شہر میں حالات کشیدہ رہے جب کہ  جگہ جگہ شہریوں نے احتجاج کیا۔

دوسری جانب ننھی زینب کے والد کا کہنا تھا کہ عام آدمی کے لیے کوئی تحفظ نہیں، سیکیورٹی صرف حکمرانوں کے لیے ہے ہم تو کیڑے مکوڑے ہیں جب کہ انصاف ملنے تک بیٹی کی تدفین نہیں کروں گا۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے 24 گھنٹوں میں رپورٹ طلب کرلی جب کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی انویسٹی گیشن ابو بکر خدا بخش کی سربراہی میں جی آئی ٹی تشکیل دے دی جو 24 گھنٹوں میں رپورٹ پیش کرے گی۔

ادھر پنجاب حکومت  نے ننھی بچی کے ورثا کو مفت قانونی معاونت دینے کا فیصلہ کیا ہے،  وزیراعلیٰ پنجاب نے ڈی پی او قصور ذوالفقار احمد کو عہدے سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا۔  آر پی او شیخوپورہ کا کہنا ہے کہ مظاہرین پر فائرنگ کرنے والے 2 پولیس اہلکاروں سمیت 4 افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے معصوم زینب سے زیادتی اور بہیمانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے فوج کو قاتلوں کی فوری گرفتاری کے لیے سول انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کی ہدایت کی ہے۔

سوشل میڈیا پر بچی کے اغوا اور قتل کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے اور ’زینب کے لیے انصاف‘کے نام سے ہیش ٹیگ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ کررہا ہےجس میں صارفین کی جانب سے درندہ صفت قاتل کو سرعام پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

زینب امین کے اندوہناک اوردل دہلا دینے والے واقعے کے بعد ہر آنکھ اشک بارہے اورسیاست دان بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے شدید ردعمل کا اظہارکررہے ہیں۔ عمران خان کا اس کربناک واقعے پرکہنا تھا کہ ایسا خوفناک واقعہ پہلی بارنہیں ہوا، ملزمان کو فوری طورپرکیفرکردارتک پہنچانا چاہیے تاکہ ہمارے معاشرے کو بچوں کے لئے محفوظ بنایا جاسکے۔ نواز شریف کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ بیٹیوں کی بے حرمتی کرنے والے درندوں کو فوری سزا دی جائے اورانہیں نشان عبرت بنایا جائے تا کہ آئندہ کسی کو ایسا گھناؤنا کام کرنے کی ہمت نہ ہو۔

واضح رہے کہ قصور میں 8 سالہ بچی زینب کو 5 روز تک زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا جب کہ ملزمان نے بچی کی لاش کو کچرا کنڈی میں پھینک دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔