جہلم NA-63: ہمیشہ دھڑے بندی کی سیاست غالب رہی

راجہ نوبہار خان  جمعرات 4 اپريل 2013
حالیہ انتخابات کے موقع پر سیاسی دھڑے بندیوں میں نمایاں تبدیلی راجہ محمد افضل خان کی مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت ہے۔  فوٹو : فائل

حالیہ انتخابات کے موقع پر سیاسی دھڑے بندیوں میں نمایاں تبدیلی راجہ محمد افضل خان کی مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت ہے۔ فوٹو : فائل

 جہلم کے حلقہ این اے 63 کی سیاست اب تک دو بڑے دھڑوں کے بیچ رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک نظریاتی ہے جبکہ دو بڑے دھڑوں کی ڈور راجہ محمد افضل خان، نوبزادہ اقبال مہدی اور سابق گورنر پنجاب چوہدری الطاف حسین مرحوم اور اب ان کے صاحبزادے چوہدری فرخ الطاف کے ہاتھ میں رہی ہے۔ اب تحریک انصاف بھی ایک اہم سیاسی عنصر کی حیثیت سے سامنے آئی ہے۔

پرویز مشرف کے دور میں 2002ء میں ہونے والے انتخابات میں بی اے کی ڈگری کی پابندی کی وجہ سے جہلم کی سیاست میں راجہ محمد افضل خان اور نوابزدہ اقبال مہدی کو انتخابی میدان سے باہر ہونا پڑا تاہم مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر راجہ محمد افضل خان نے اپنے صاحبزادے راجہ محمد اسد کو میدان میں اتارا جنہوں نے 46722 ووٹ لے کر اپنے سیاسی حریفوں پرکامیابی حاصل کی۔ ان کے مقابلے میں پاکستان مسلم لیگ ق کے سید شمس حیدر نے 39923 ووٹ لیے اور دوسرے نمبر پر رہے۔ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے ریٹائرڈ جنرل سعید الحسن زیدی کو 36353 ووٹ ملے تھے۔

ان انتخابات میں سابق وفاقی وزیر اور پیپلز پارٹی سابق مرکزی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر غلام حسین جنہوں نے پی پی پی شہید بھٹو کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا، صرف 11569 ووٹ حاصل کر سکے۔ 2008ء کے انتخابات میں اس حلقے کے کل رجسٹرڈ ووٹوں تین لاکھ 78 ہزار616 میں سے ایک لاکھ 63 ہزار پانچ پول ہوئے، 83 ووٹ مسترد کر دیئے گئے۔ ٹرن آؤٹ 43 فیصد رہا۔ ان میں مسلم لیگ ن کے راجہ محمداسدخان نے 79,662 ووٹ حاصل کیے۔ دوسرے نمبرپرق لیگ کے چودھری شہباز رہے جنہیں 51,666 ووٹ ملے۔ پیپلزپارٹی کے علی زمان کو 24,476 آزاد امیدوار بریگیڈیئر (ر) محمودحسین کوصرف 3181 ووٹ ملے۔

1993ء کے انتخابات میں چوہدری الطاف جنہوں نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا تھا، پہلی بار راجہ محمد افضل کے مقابلہ میں کامیاب ہوئے۔ اگر ڈاکٹر غلام حسین 2002ء کے الیکشن میں حصہ نہ لیتے تو شاید پیپلز پارٹی 1977ء کے بعد ایک بار پھر جہلم کی دونوں قومی نشستوں پر کامیاب ہو جاتی۔ پچھلے دو انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کامیاب ہونے کے باوجود ترقیاتی کاموں کی سطح گلیوں، نالیوں اور عام سڑکوں کی تعمیر سے زیادہ آگے نہیں گئی۔

نالہ گھان پر پل کی تعمیر45کروڑ کے فنڈز سے جہلم میں نئی سیوریج لائن بچھانے اور نئے گورنمنٹ کالج برائے خواتین کی تعمیر کے علاوہ کوئی ایسا نمایاں منصوبہ نہیں جس کو قابل ذکر قرار دیا جاسکے، تاہم بجلی کی فراہمی اور شہر کے مختلف علاقوں میں سوئی گیس کی فراہمی کا آغاز بھی انہی ادوار میں ہوا جبکہ دیگر مسائل جن میںسے اہم شہر کے ڈرینج سسٹم کو بہتر بنانے کے لئے اہم نالوں کی صفائی اور تعمیر، قبرستان کے لئے مزید جگہ، سمال انڈسٹریل اسٹیٹ کو سوئی گیس کی فراہمی، نالہ بنہاں پر پل کی تعمیر جیسے اجتماعی مسائل ہیں، ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

حالیہ انتخابات کے موقع پر سیاسی دھڑے بندیوں میں نمایاں تبدیلی راجہ محمد افضل خان کی مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت ہے جس کی بنا پر اس وقت مسلم لیگ ن کو این اے 62 میں کوئی مضبوط امیدوار دستیاب نہیں، راجہ محمد افضل خان نے قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں میں کاغذات نامزدگی داخل کرائے ہیں۔ انہیں کس حلقہ سے ٹکٹ ملتا ہے یا ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں، اس پر کوئی قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی۔

این اے 63 میں نوابزادہ اقبال مہدی مسلم لیگ ن کے امیدوار ہوں گے، جبکہ راجہ محمد افضل خان اور فرخ الطاف کے درمیان کوئی مفاہمت نہ ہونے کی بنا پر چوہدری شہباز حسین الیکشن لڑیں گے۔ اگر پیپلزپارٹی نے ان کا ساتھ دیا تو چوہدری شہباز حسین اور نوابزادہ اقبال مہدی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوگا، جماعت اسلامی نے اس بار اس حلقہ میں تحصیل پنڈدادنخان سے تعلق رکھنے والے راجہ طارق جاوید جنجوعہ کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔

راجہ طارق جنجوعہ داراپور میں مقیم ہیں یہیں ان کا ڈیرہ اورا راضی ہے وہ کس حد تک انتخابی نتائج پر اثرانداز ہوں گے اس کا اندازہ ان کی الیکشن مہم سے ہوگا، تحریک انصاف این اے 63 میں کوئی مضبوط امیدوار سامنے نہیں لا سکی، لہٰذا اس پس منظر میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ مقابلہ پھر دو سابقہ حریفوں کے درمیان ہی ہوگا۔ قابل ذکر ناموں سمیت 25امیدواروں نے کاغذات نمائندگی جمع کرائے ہیں۔

جہلم کا صوبائی حلقہ پنڈدادنخان زرخیز سیاسی علاقہ ہے۔ تحریک پاکستان اور قائداعظم کے معتمد ساتھی راجہ غضنفر علی خان کا تعلق پنڈدادنخان سے تھا۔ یہ جہلم کی سیاست پر اثرانداز ہونے والا اہم حلقہ ہے، جہلم کے مقابلہ میں پنڈدادنخان سے کئی نئے چہرے میدان سیاست میں داخل ہوئے ہیں۔

2002ء کے انتخابات میں چوہدری نذر حسین گوندل اور چوہدری عابد جوتانہ نئے امیدواروں کی صورت میں سامنے آئے۔ چوہدری نذر حسین گوندل نے مسلم لیگ ق اور چوہدری عابد جوتانہ نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا اور چوہدری نذر حسین گوندل نے31ہزار اور چوہدری عابد جوتانہ نے 29ہزار ووٹ حاصل کئے، جبکہ سابق ایم پی اے راجہ ناصر علی خان کو 19600 ووٹ ملے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار راجہ ریاست کو9500 ووٹ ملے۔ 2008ء کے انتخابات میں چوہدری نذر حسین گوندل کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے امیدوار سید شمس حیدر سے ہوا جس میں سید شمس حیدر کو 37075 اور چوہدری نذر حسین گوندل کو 32911 ووٹ ملے۔ پیپلزپارٹی کے میجر ریٹائرڈ فیض احمد فیض کو 25419 ووٹ ملے، اس حلقہ میں بھی ترقیاتی کاموں میںایک آدھ کام کے علاوہ کوئی قابل ذکر نہیں، سید شمس حیدر نے مصری موڑ سے جہلم تک دو رویہ سڑک کے لئے فنڈز فراہم کیے، اس کے علاوہ دو کالجز بھی منظو ر کرائے ہیں۔

اس بار چوہدری نذر حسین گوندل مسلم لیگ ن اور چوہدری عابد جوتانہ مسلم لیگ ق کے ٹکٹ کے امیدوار ہیں، سابق تحصیل ناظم راجہ افتخار شہزاد اور سید شمس حیدر بھی اپنے کاغذات نامزدگی جمع کراچکے ہیں۔ جلالپور شریف کی گدی اس حلقہ انتخابات میں کافی اثرانداز ہوتی ہے۔ سید شمس حیدر کے علاوہ اس بار سید انوار حسنات نے بھی تحریک انصاف کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کرادیئے ہیں ۔

پی پی 26 کا حلقہ تحصیل جہلم پر مشتمل ہے جس کی دو یونین کونسلیں حلقہ پی پی 25میں شامل ہیں، جہلم شہر کے حلقہ سے ایک طویل عرصہ تک چوہدری خادم حسین ایم پی اے رہے۔ اس حلقہ سے 2002ء میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ شیخ تنویر 17270 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ ان کے مقابلے میں چوہدری ندیم خادم جو پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ان کے مد مقابل تھے، نے 16271 ووٹ، پاکستان مسلم لیگ ق کے خان عبدالقدوس نے 10948 ووٹ حاصل کئے تھے۔ 2008ء کے انتخابات میں چوہدری ندیم خادم مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر 37383 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔

ان کے مقابلہ میں مسلم لیگ ق کے خان عبدالقدوس 16487 اور پیپلزپارٹی کے پرویز اختر 11ہزار ووٹ حاصل کر سکے، چوہدری ندیم خادم کو دہری شہریت رکھنے پر نااہل قرار دے دیا گیا تھا اور دسمبر میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں چوہدری خادم حسین بطورامیدوار کھڑے ہوئے اورکامیاب رہے۔ ان کے مقابلے میں راجہ محمد افضل خان امیدوار تھے، چوہدری ندیم خادم اور راجہ محمد افضل خان دونوں کا تعلق مسلم لیگ ن سے تھا لیکن اختلافات کی بنا پر مسلم لیگ ن نے دونوں کو ٹکٹ جاری نہیں کیا اور دونوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا۔

ان کے مقابلے میں تیسرے امیدوار محمد عارف چوہدری کا تعلق مسلم لیگ ق سے تھا جو پہلی بار انتخابات میں حصہ لے رہے تھے اور انجمن تاجران جہلم کے صدر ہیں۔ یہ الیکشن جہلم کی سیاست میں تبدیلی کا باعث بنا اور ماضی دھڑے بندیوں میں واضح تبدیلیاں آئی ہیں۔ اگلے عام انتخابات میں گھرمالہ خاندان نے ہی اس نشست پر اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے اور مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ہی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیاہے،جبکہ مسلم لیگ (ن) نے پھر چوہدری محمد عارف کو ہی اپنا امیدوار نامزد کر رکھا ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے اس نشست پر کوئی معروف امیدوار نامزد نہیں کیا جبکہ جماعت اسلامی کے راجہ ضیاء اشرف اور تحریک انصاف کے عثمان چوہان امیدوار ہیں۔

راجہ ضیاء اشرف اس سے قبل جماعت اسلامی کی جانب سے ایم این اے اور ایم پی اے کی نشست پر الیکشن لڑ چکے ہیں جبکہ عثمان چوہان پہلی بار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ تحصیل جہلم میں بھی دیگر تحصیلوں کی طرح ترقیاتی کاموں کی حدگلیوں نالیوں سڑکوں کی مرمت تک ہی محدود رہی۔ جہاں جہاں مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی کا ووٹ تھا، وہیں کام ہوئے، کوئی ایسا اجتماعی منصوبہ سامنے نہیں آیا جو جہلم کی ترقی کا زینہ کہلا سکتا ہو۔جہلم کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں پہلی بار بڑی تعدا د میں امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں، جن میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، تحریک انصاف، آل پاکستان مسلم لیگ، جماعت اسلامی کے علاوہ مذہبی جماعتیں اور آزاد امیدوارشامل ہیں، لیکن ابھی سیاسی جوڑتوڑ کا سلسلہ جاری ہے۔

مسلم لیگ ن کے امیدوار کا فیصلہ تقریباًطے ہے جبکہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ق اور راجہ محمد افضل خان کے مابین اگر معاملات طے پاگئے تو جہلم کے انتخابی نتائج حیران کن ہو سکتے ہیں۔ جہلم میں سیاسی سرگرمیاں عروج پرہیں۔

جہلم کی تاریخ میں پہلی بار 2 قومی اور4 صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لئے 172 امیدواروں نے کاغذات جمع کروائے ہیں۔ سیاسی سرگرمیاں میں خواجہ سرأ بھی پیچھے نہیں رہے، کاغذات نامزدگی جمع کرانے والوں میں قابل ذکر سابق ضلع ناظم جہلم چوہدری فرخ الطاف، سابق وفاقی وزیر چوہدری شہباز حسین، سابق سینیٹر راجہ محمد افضل خان، سابق ایم این اے نوابزادہ قبال مہدی، سابق ایم پی اے چوہدری ثقلین، سابق تحصیل ناظم کرنل ( ر) محمد تاج، سابق ایم پی اے چوہدری ندیم خادم، سابق ایم پی اے مہر محمد فیاض،

سابق ایم پی اے چوہدری خادم حسین، سابق ایم پی اے سید شمس حیدر، سابق ایم پی اے چوہدری نذر گوندل، سابق تحصیل ناظم چوہدری عابد اشرف جو تانہ، چوہدری محمد عارف، نصیب اللہ چشتی، چوہدری قربان حسین، چوہدری ظفراقبال آف چک دولت، سابق ایم پی اے چوہدری تسنیم ناصر اقبال گجر، سابق ایم این اے راجہ محمد اسد خان، عثمان الرحمن چوہان، راجہ ضیاء اشرف چوہدری زاہد اختر آف میرا، چوہدری فواد حسین، ڈاکٹر عبد القیوم، چوہدری لال حسین، میجر (ر) فیض احمد فیض، راجہ محمد ضیاء اشرف ایڈوکیٹ،جہانگیر مرزا ایڈوکیٹ، راجہ شاہ نواز، سید انور حسنات اور راجہ نجابت علی خان شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔