فضائلِ شعبان المعظم

رسول معظمؐ نے اس ماہ کے لیے برکت کی دعا مانگ کر اسے اسم بامسمٰی بنا دیا۔


April 20, 2018
رسول معظمؐ نے اس ماہ کے لیے برکت کی دعا مانگ کر اسے اسم بامسمٰی بنا دیا۔ فوٹو : فائل

شعبان المعظم بہت حسنات و برکات کا حامل ہے۔ یہ وہ مقدس اور مبارک مہینہ ہے جس کی خیر و برکت سے ہم اپنے دامن عمل کو سعادت و مغفرت کے موتیوں سے بھر سکتے ہیں۔ یہ بہت رحمتوں اور مغفرتوں کا ضامن ہے۔ رسول اکرم ؐ نے اسے اپنا مہینہ فرما کر اس کی عظمت میں اور اضافہ فرما دیا۔

اس ماہ میں نیکی کرنے والے کی نیکیاں ایسے بڑھتی ہیں جیسے درخت کی شاخیں۔

رسول معظمؐ نے اس ماہ کے لیے برکت کی دعا مانگ کر اسے اسم بامسمٰی بنا دیا۔ حضرت انسؓ روایت فرماتے ہیں کہ جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو رسول اکرمؐ اس طرح دعا فرماتے: '' اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت فرما اور ہمیں رمضان المبارک تک پہنچا۔'' شعبان المعظم نیکیوں کے موسم بہار ماہ رمضان المبارک کی آمد کا پیغام لے کر جلوہ گر ہوتا ہے۔ اس ماہ معظم کی عظمتوں، رفعتوں، برکتوں اور شان و شوکت کے لیے شفیع معظمؐ کا یہ فرمان عالی شان ہی کافی ہے: ''شعبان میرا مہینہ ہے۔''

اس ماہ مکرم کی خاص عبادت روزہ ہے۔ جس کا اہتمام نبی کریمؐ بہ طور خاص فرمایا کرتے تھے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ ارشاد فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو رمضان المبارک کے علاوہ کسی مہینے کے پورے روزے رکھتے نہیں دیکھا اور نہ ہی یہ دیکھا کہ آپؐ نے شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں روزے رکھے ہوں۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا محبوب ترین مہینہ شعبان کا مہینہ تھا، آپؐ اس کے روزوں کو رمضان سے ملا دیا کرتے۔

حضرت انسؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے جب روزوں سے افضل روزے کے متعلق دریافت کیا گیا تو ارشاد فرمایا کہ رمضان المبارک کی تعظیم کے لیے شعبان کا روزہ رکھنا۔ اسی لیے اس ماہ مبارک میں علماء، اولیائے کرام اور صوفیائے عظام خود بھی روزہ رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیتے ہیں۔ کیوں کہ روزہ ہی نفس امّارہ کو بھوک اور پیاس کی شدت کے ذریعے کنٹرول کرتا ہے۔ تو جتنے روزے با آسانی رکھ سکیں ضرور اس کا اہتمام کریں تاکہ ان کے اجر و ثواب سے محروم نہ ہوں۔ رسول معظم ﷺ نے اپنے امتیوں کو اس ماہ مبارک میں روزے رکھنے کی ترغیب تو دی ہے مگر انہیں لازم نہیں فرمایا کہ کہیں میری امت مشقت میں مبتلا نہ ہوجائے۔

شب برات :مکاشفتہ القلوب میں ہے کہ جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو ملک الموت کو ہر اس شخص کا نام لکھوا دیا جاتا ہے جو اس شعبان سے آئندہ شعبان تک مرنے والا ہوتا ہے، آدمی پودے لگاتا ہے، عورتوں سے نکاح کرتا ہے، عمارتیں بناتا ہے حالاں کہ اس کا نام مُردوں میں لکھا جا چکا ہے اور ملک الموت اس انتظار میں ہوتا ہے کہ اسے کب حکم ملے اور وہ اس کی روح قبض کرے۔اس رات میں عبادت کرنے والوں کو اللہ تعالی بخشش کے پروانے عطا فرماتا ہے مگر چند ایسے بد نصیب گناہ گار ہیں کہ جن کی بخشش نہیں ہوتی۔ مشرک، والدین کا نافرمان، کینہ پرور، رشتہ داروں سے تعلق قطع کرنے والا، شراب پینے والا اور ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والے کی بخشش نہیں ہوتی۔ اس لیے ہمیں ان گناہوں سے خصوصی بچنا چاہیے۔

اس ماہ مکرم میں حضور نبی محتشم ﷺ کے اسوۂ حسنہ اور ارشادات کے پیش نظر ہمیں چاہیے کہ ہم شعبان المعظم اور بالخصوص شب برات کو سستی، غفلت اور کاہلی کی نذر نہ کریں۔ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہوں اور ندامت کے آنسو بہائیں۔ یہی آنسو اس کی بارگاہ میں موتیوں سے بھی زیادہ قیمتی ہوں گے۔

نمازوں کی پابندی کریں۔ نماز ہر برائی اور بے حیائی والے کاموں سے محفوظ رکھے گی۔ قرآن کریم کی تلاوت کو اپنا معمول بنائیں۔ کیوں کہ یہ اللہ تعالی کا وہ پاک کلام ہے جس کا ایک لفظ پڑھنے پر دس نیکیوں کا اجر و ثواب ملتا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے سے دس نیکیاں ملتی ہیں، دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور دس درجات بلند ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ٹال مٹول سے کام نہ لیں کہ آج نہیں کل کر لیں گے، کیوں کہ دن تو تین ہیں ایک تو جو گزر گیا ، ایک آج کا ہے جو کہ عمل کا دن ہے اور ایک آنے والے کل کا دن ہے جس کی صرف امید ہی ہے، یہ نہیں معلوم کہ وہ آئے گا یا نہیں، گزشتہ کل ایک نصیحت ہے، آج کا دن غنیمت ہے اور کل کا دن صرف خیال ہے۔ اسی طرح مہینے تین ہیں۔ رجب تو گزر گیا، وہ لوٹ کر نہیں آئے گا۔ رمضان المبارک کا انتظار ہے، معلوم نہیں کہ زندگی رہے یا نہ رہے، بس شعبان المعظم ہی ان دونوں کے درمیان ہے۔ اسی لیے اس میں عبادت کو غنیمت جاننا چاہیے۔

اللہ تعالی عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

محمد معین الدین سیالوی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں