کٹھ پتلیاں ’’جنم جلی‘‘ ہوتی ہیں

عماد ظفر  پير 7 مئ 2018
ڈوریاں ہلانے والے ہاتھ تحریک انصاف کے لاہور پاور شو سے زیادہ خوش اور مطمئن نہیں ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ڈوریاں ہلانے والے ہاتھ تحریک انصاف کے لاہور پاور شو سے زیادہ خوش اور مطمئن نہیں ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

کٹھ پتلیاں بھی “جنم جلی” ہوتی ہیں۔ ڈوریاں ہلانے والے ہاتھ جب جی میں آئے ان کو ہلاتے ہیں، ان سے من پسند ڈائیلاگ بلواتے ہیں اور پھر نچواتے ہیں۔ جب ان ڈوریوں کو ہلانے والے ہاتھوں یا تماش بین مجمع کا جی “پتلی تماشے” سے اکتا جائے تو ان کٹھ پتلیوں کو کسی ڈسٹ بن یا کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ڈور ہلانے والے ہاتھ جب کٹھ پتلیوں کو ہلا جلا کر انہیں رونقِ اسٹیج بنائے رکھتے ہیں، اس وقت کٹھ پتلیاں خود کو محور مرکز سمجھ کر یہ تصور کر لیتی ہیں کہ رونق محفل انہی کے دم سے قائم و دائم ہے۔ ان کے وجود کے بغیر نہ تو تماشا بپا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی محفل لوٹی جا سکتی ہے۔

ہر کٹھ پتلی اپنے آپ کو ایک مکمل جہان سمجھتی ہے، لیکن جب تماشا ختم ہونے کے بعد اسے دور کہیں تاریک گوشے میں پھینک دیا جاتا ہے تب اس کو ادراک ہوتا ہے کہ تماشا اور محفل تو دراصل ان ہاتھوں کی تھی جو اس کی ڈوریاں ہلا رہے تھے۔ محفل میں کٹھ پتلیوں کا وجود نہ تو پہلے کوئی خاص معنی رکھتا تھا اور نہ اب اس کی کوئی اہمیت ہے۔

عمران خان لاہور میں مینار پاکستان کے جلسے میں جب سابق آمر ایوب خان کی شان میں مدح سرائی کر رہے تھے اور صوبہ پنجاب کی تقسیم کی وکالت میں لب کشائی کر رہے تھے تو یقیناً لب ان کے ہل رہے تھے لیکن ان کے منہ میں الفاظ کسی اور کے تھے۔ ڈوریاں ہلانے والے ہمیشہ کی طرح پردے کے پیچھے بیٹھ کر اس پتلی تماشے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔

خیر خان صاحب نے جو گیارہ نکات اس جلسے میں پیش کیے ہیں یہ وہی نکات ہیں جو وہ 2013 کے انتخابات سے پہلے بھی پیش کر چکے ہیں۔ پانچ سالوں میں اگر وہ خیبر پختونخواہ کے کسی ایک بھی شہر میں ان نکات پر عمل درآمد نہ کروا سکے تو پھر پورے وطن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ قاف کی بی ٹیم کو ساتھ ملا کر یہ کام کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ محترم عمران خان اگر 2018 میں بھی کینسر ہسپتال کے قیام اور 1992 کے ورلڈ کپ کی فتح کو بنیاد بنا کر عوام سے ووٹ مانگ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پچھلے پانچ سال میں خیبر پختونخواہ حکومت ایسا کوئی بھی ٹھوس اقدام نہیں اٹھا پائی جس کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگے جاتے۔

اس وقت جس انداز سے سیاسی انجئینرنگ کا عمل جاری ہے اس کو دیکھتے ہوئے بہت سے مبصرین اور ناقدین عمران خان کو وطن عزیز کا اگلا وزیر اعظم سمجھ رہے ہیں۔ جبکہ حقیقتاً گیم پلان کچھ اور ہے۔ تمام تر سیاسی انجینئرنگ اور سیاسی ٹارگٹ کلنگ کے باوجود اس وقت تک کرائے گئے ملکی اور بین الاقوامی سرویز اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کو کامیاب ظاہر نہیں کر رہے۔ مقتدر حلقوں کو اس بات کا علم ہے اور وہ یہ جانتے ہیں کہ اگلے عام انتخابات میں تحریک انصاف 35 سے 40 نشستیں ہی نکال پاِئے گی۔ پینتیس چالیس نشستوں کے دم پر صادق سنجرانی کی مانند عمران خان کو وزیراعظم کے عہدے پر زور زبردستی بٹھا بھی دیا جائے تو بھی وہ کچھ خاص کر دکھانے کی پوزیشن میں نہیں آ سکیں گے۔

مقتدر قوتیں یہ حقیقت بارہا عمران خان کو سمجھا چکی ہیں، لیکن عمران خان بضد ہیں کہ اگر مسلم لیگ نواز کے ہاتھ پیر باندھ کر انہیں انتخابات لڑنے کا موقع دیا جائے تو وہ انتخابات میں یقینی کامیابی حاصل کر لیں گے۔ عمران خان کو ایسا ہی یقین 2013 کے عام انتخابات میں بھی تھا لیکن وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہے تھے۔ اب جبکہ خیبر پختونخواہ میں ان کی جماعت کی گورننس سب کے سامنے عیاں ہو چکی ہے اس کے بعد انتخابات کا میدان مارنا ان کےلیے قریب قریب ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ انتخابات سے ویسے بھی مقتدر قوتوں کو کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ پس پشت قوتیں اس وطن میں صدارتی نظام نافذ کرنا چاہتی ہیں تا کہ معاملات ریاست ایک ہاتھ میں ہی مرکوز رہیں اور باآسانی اپنے پسند کے گھوڑے کو انتخابی ریس جتوا کر صدر بنایا جا سکے۔

صدارتی نظام نافذ کرنے کےلیے ضروری ہے کہ وطن عزیز میں ایک ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔ ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ قائم کرنے کا ہدف نگران حکومت کے قیام میں سیاسی جماعتوں کے متفق نہ ہو پانے پر ناکامی یا پھر من پسند نگران حکومت کی میعاد بڑھا کر باآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی یہ کھیل سمجھتی ہے اسی لیے زرداری صاجب نے جھٹ سے جمہوری لبادہ اتار کر پس پشت قوتوں کی کشتی میں چھلانگ لگانے کو ترجیح دی ہے۔ زرداری صاحب کو گمان ہے کہ ان کے اس قدم سے پس پشت قوتیں خوش ہو کر ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ یا پھر آئندہ عام انتخابات میں انہیں کیک کا چھوٹا سا ٹکڑا ضرور دے دیں گی۔ باخبر ذرائع کا دعوی ہے کہ عام انتخابات منعقد نہ کروانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی اور اگر بادل نخواستہ عام انتخابات منعقد کروانے پڑ ہی گئے تو شاہ محمود قریشی کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کروانے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جائے گا۔

گویا کسی بھی صورت میں محترم عمران خان کےلیے وزارت عظمیٰ کی شیروانی پہننے کا خواب سچ ثابت ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ خیر بات کچھ یوں ہے کہ اگر ملک کے بڑے بڑے میڈیا ہاوسز پر سینسر شپ لگا کر اور سیاسی حریفوں کے ہاتھ پیر باندھ کر بھی تحریک انصاف کی نشستوں کی متوقع تعداد صرف 40 کے لگ بھگ بنتی ہے تو پھر ایسے انتخابات منعقد کروانے میں مقتدر قوتوں کو کوئی خاص دلچسپی نہیں ہو سکتی ہے۔

یوں بھی احتساب اور چند دنوں میں وطن عزیز میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے نعرے اس قدر پرفریب ہیں کہ وطن عزیز میں بسنے والی اکثریت اس لالی پاپ کو خریدنے کےلیے تیار رہتی ہے۔ اس لیے احتساب کا دائرہ کار وسیع کرنے یا عوام کی فلاح و بہبود کے نعرے بلند کر کے ایک نگران سیٹ اپ کا قیام اور اسے طول دینا ہرگز بھی مشکل کام نہیں ہے۔ ذرائع کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ مینار پاکستان پر منعقد ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے میں عوام کی اچھی بھلی تعداد کے باوجود ڈوریاں ہلانے والے ہاتھ تحریک انصاف کے اس پاور شو سے زیادہ خوش اور مطمئن نہیں ہیں۔

اتنی طویل اشتہاری مہم، میڈیا کی کوریج اور پورے ملک سے بندے اکٹھے کرنے کے باوجود مطلوبہ عوامی شرکت کا ٹارگٹ پورا نہ کر پانا اس بات کی جانب عندیہ ہے کہ سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والا ووٹر اب پتلی تماشا دیکھ دیکھ کر تنگ آ چکا ہے۔ مقتدر قوتوں کو گمان ہے کہ اگر تماشا نئے سرے سے بپا کیا جائے اور نئی کٹھ پتلیاں لا کر ” ٹیکونوکریٹ” یا “صدارتی نظام” کا شوشہ چھوڑا جائے تو شاید تماش بین اس نئے تماشے کی نئی کٹھ پتلیوں کو پسند کرنے لگ جائیں۔ تماش بین کیا فیصلہ کرتے ہیں اس کا تعین آنے والا وقت کر دے گا۔

اس پتلی تماشے میں اگر ڈوریاں ہلانے والے ہاتھوں نے عمران خان کی کٹھ پتلی کو اسٹیج سے اتارنے کا فیصلہ کر لیا تو عمران خان کی صورت میں تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرائے گی اور شاید ہم عمران خان کی شکل میں اکیسویں صدی کا اصغر خان دیکھیں گے جو باقی ماندہ عمر پچھتاووں اور ڈوریاں ہلانے والے ہاتھوں سے شکایت کرتے ہوئے بِتا دے گا۔

انسان نما کٹھ پتلیاں واقعی “جنم جلی” ہوتی ہیں جو “مالک” کو خوش کرنے اور تماش بینوں کو محظوظ کرنے کے لاکھوں جتن کرنے کے باوجود بھی ہمیشہ اپنے حال اور مستقبل کے معاملے میں اپنے “مالکان” کی مرضی و منشا کی محتاج ہی رہتی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عماد ظفر

عماد ظفر

بلاگر گزشتہ کئی سال سے ابلاغ کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ریڈیو، اخبارات، ٹیلیویژن اور این جی اوز کے ساتھ وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سےاردو اور انگریزی بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔