بجٹ عوام دوست نہیں،انتخابی ہے۔۔۔ نئی حکومت نیا بجٹ پیش کرے گی؟

’’پوسٹ بجٹ ‘‘کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں شرکاء کی گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

’’پوسٹ بجٹ ‘‘کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں شرکاء کی گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت نے گزشتہ دنوں چھٹا وفاقی بجٹ پیش کیا۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مالی سال 2018-19ء کیلئے 59 کھرب 32 ارب 50 کروڑ روپے پر مبنی حجم کا بجٹ پیش کیا ہے، جو پچھلے مالی سال کے بجٹ کے حجم سے 16.2 فیصد زائد ہے۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ کے دوران وسائل کا تخمینہ 4917.2 ارب روپے جبکہ خالص محاصل کا تخمینہ 3070.4 ارب روپے لگایا ہے جو پچھلے سال کے بجٹ کے مقابلے میں 4.9 فیصد زیادہ ہے۔ دفاعی بجٹ 999 ارب روپے سے بڑھا کر  1110ارب روپے کر دیا گیا۔ بجٹ میں صوبوںکا حصہ 2590.1 ارب روپے رکھا گیا ہے جو پچھلے مالی سال کے مقابلے میں 8.1 فیصد زیادہ ہے۔

آئندہ مالی سال کے دوران مجموعی اخراجات کا تخمینہ 5932.5 ارب روپے لگایا گیا ہے جس میں سے جاری اخراجات 4780.4 ارب جبکہ ترقیاتی اخراجات 1152.1 ارب روپے ہوں گے۔ قرضوں کی ادائیگی کیلئے 1620 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے، کراچی کیلئے 25 ارب روپے کا خصوصی پیکیج ہوگا، نان فائلرز کے خلاف گھیرا تنگ جبکہ صوبوں کا حصہ 2590.1 ارب روپے مقرر کئے گئے، بے نظیر سپورٹ سکیم کے لئے 125 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو بڑی چھوٹ دی گئی ہے۔مالی سال 2018-19ء کے بجٹ میں سول وفوج کی تنخواہوں میں10 فیصد اضافہ، کتابوں، پولٹری مصنوعات، کھاد سستی جبکہ سگریٹ، سیمنٹ، کپڑے مہنگے کرنے کی تجویزدی گئی ہے۔

بجٹ میں زراعت کے شعبے کو ریلیف دیا گیا جبکہ صحت، تعلیم اور پینے کے پانی بجٹ میں پٹرولیم مصنوعات آرڈیننس 1961ء میں ترمیم کی تجویز دیدی ہے جس کے مطابق ہائی سپیڈ ڈیزل آئل اور پٹرول پر فی لیٹر 30 روپے، پاکستان میں پیدا ہونے والی ایل پی جی پر فی میٹرک ٹن 20 ہزار روپے پٹرولیم لیوی کی تجویز ہے۔

علاوہ ازیں حکومت نے وفاقی بجٹ میں گلگت بلتستان میں جگلوٹ سے سکردو تک 167 کلومیٹر سڑک کے توسیعی منصوبہ کیلئے 5 ارب روپے جبکہ سکردو میں بلتستان یونیورسٹی کے قیام کیلئے 25 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے 23 ارب 68 کروڑ 3 لاکھ روپے، قراقرم یونیورسٹی گلگت اور سکردو کیمپس میں انجینئرنگ فیکلٹی منصوبہ کیلئے 40 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔

مالی سال 2018-19ء کا مجموعی طور پر 20 کھرب 43 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ پیش کردیا گیا، ترقیاتی بجٹ میں صوبوں کیلئے 10 کھرب 13 ارب روپے جبکہ وفاق کیلئے 10 کھرب 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔حالیہ وفاقی بجٹ کے حوالے سے مختلف حلقوں میں متضاد آراء پائی جارہی ہیں۔

بجٹ کے مثبت و منفی اثرات پر روشنی ڈالنے کیلئے ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں ’’پوسٹ بجٹ نشست‘‘ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

غضنفر بلور ( صدرایف پی سی سی آئی)

حکومت کی جانب سے دیاجانے والا ہر بجٹ سیاسی ہوتا ہے لہٰذا یہ بھی ایک سیاسی اور انتخابی بجٹ ہے۔ میرے نزدیک حکومت کی جانب سے چارماہ کا بجٹ دیاگیا ہے۔ اگر انتخابات نہ ہوئے تویہ یہی بجٹ ہی چلتارہے گا لیکن اگر حکومت تبدیل ہوگئی تو نئی حکومت اپنا بجٹ لائے گی۔ ایف پی سی سی آئی کو اس بجٹ پر تحفظات ہیں۔ بجٹ میں زر عی، ڈیری اور پولٹری کے شعبوں کو بہت زیادہ مراعات دی گئی ہیں۔ ایف پی سی سی آئی اس بات کی حامی ہے اور فیڈریشن کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ تمام ٹیکسوں کو سنگل ٹیکس میں تبدیل کیاجائے اورفکس ٹیکس کا نظام رائج کیاجائے کیونکہ ہم مختلف اقسام کے ٹیکسوں سے تنگ آچکے ہیں۔ حکومت کی جانب سے نظام کی بہتری کے لئے اقدامات کیے جا رہے ہیں تاہم یہ طریقہ کار قدرے سست ہے لہٰذااس میں تیزی لانی چاہیے اور ان اقدامات کو یکسر نافذ کرناچاہیے۔ ٹیکس کے تنازعات کے حل کے حوالے سے الٹر نیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن کمیٹی ( اے ڈی آر سی ) کے فیصلوں پر عملدرآمد لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس سے قبل جس کے خلاف فیصلہ ہوتا تھا وہ کمیٹی کے فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرلیتاتھامگر اب اس کمیٹی کا فیصلہ ماننالازمی ہوگیاہے۔ افسوس ہے کہ پٹرول مہنگا جبکہ فارماسوٹیکل کے شعبے پر بھی ٹیکس لگادیاگیا۔ ہمارے ہاں مختلف چیزوں کے حوالے سے بھارت کی مثال دی جاتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم بھارت کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ موجودہ دورحکومت نے مشیر ریونیو ہارون اختر کی جانب سے ا نڈسٹری کوریفنڈز کی ادائیگی کا اچھا طریقہ کار اپنایا ہے مگر حکومت کی جانب سے انڈسٹری کو ریفنڈز کی ادائیگی نہیں کی جارہی۔ صنعت کاروں سے فروری 2018ء تک 400 ارب روپے کے ری فنڈز کی ادائیگی کا وعدہ کیاگیاتھا مگر نہیںملے۔ ایف پی سی سی آئی نے حکومت کو آگاہ کیاہے کہ ری فنڈز کی عدم ادائیگی سے چھوٹا تاجر تباہ ہوجائے گا لہٰذا انہیں ری فنڈ ادا کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے ٹیکس ایمنسٹی سکیم بلاشبہ ایک اچھا اقدام ہے جس سے حکومت کو ریونیو ملے گا اور دنیا کے مختلف ممالک میں نئے قوانین کے نفاذ کے بعد وہاں سے لوگ اپنا پیسہ نکالیں گے، امید ہے کہ چار سے پانچ ارب ڈالر سے زائد کا ریونیو ملک میں آئے گا۔ 10 فیصد تک تنخواہ بڑھا دینا کوئی بڑا اقدام نہیں ہے کیونکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بہت کمی آچکی ہے۔ ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کے گرد گھیرا تنگ کرناایک اچھا اقدام ہے۔ ایف بی آر دو لاکھ روپے کے ریونیو کے لئے دو کروڑ روپے والا اکاؤنٹ منجمد کر دیتا ہے جو غلط اقدام ہے۔ ملکی خسارے میں پی آئی اے اور سٹیل ملز کا بھی حصہ ہے۔ حکومت چار سال سے ان کی نجکاری کرنا چاہ رہی ہے مگر نجکاری نہیں ہو رہی۔ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ ان اداروں کے معاملات کا بھی نوٹس لے۔ غیر ملکی یہاں آکر زمین خرید رہے ہیں ، حکومت کو چاہیے کہ غیر ملکیوں کے لئے بھی زمین کی خریداری کے حوالے سے قانون بنائے ۔

عارف جیوا (چیئرمین ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز)

حکومت کی جانب سے پیش کیاگیا بجٹ عوام کے لئے نہیں بلکہ یہ پری الیکشن بجٹ ہے جبکہ 4 ماہ بعد ایک نیا بجٹ آئے گا۔ حکومت کو کہیں سے ہدایات آرہی ہیں اور اس نے بجٹ دے دیا ہے جبکہ خود انہیں کچھ سمجھ نہیں ہے۔ بجٹ کے اعلان کے فوراً بعد ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) نے سب سے پہلے اس بجٹ کے خلاف آواز اٹھائی ۔ بجٹ سے قبل حکومت نے تعمیراتی صنعت کویقین دلایاتھاکہ بجٹ میں انہیں مراعات دی جائیں گی مگر ان کی ایک تجویز بھی نہیں مانی گئی اور عملی طور پر بجٹ میں ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایاگیا۔ تعمیراتی شعبے سے کئی اور صنعتیں وابستہ ہیں،کیا انہیں تباہ کرنا مقصود ہے؟ کیا حکومت دوبارہ ملک میں پلاٹوں کی ٹریڈنگ کا نظام لاناچاہتی ہے؟ ملک میں سالانہ لاکھوں گھروں کی قلت پیدا ہوتی جار ہی ہے، حکومت سٹیل اور سیمنٹ کومہنگاکرتی جارہی ہے، ان چیزوں پر ٹیکس لگانے کا مطلب یہ ہے کہ عوام پر ٹیکس لگایا گیا ہے۔ یہ افسوسناک بات ہے کہ صبح ایک شخص وزیر کا حلف اٹھاتاہے اور شام کووہ بجٹ پیش کرتاہے۔ ہم نے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل تک اپنے تحفظات پہنچائے  اور ان سے ملاقات کا انتظار کر رہے ہیں ۔ افسوس ہے کہ ملک میں تعمیراتی شعبے کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا جارہاہے جو کسی بھی طور درست نہیں، ہم تعمیراتی شعبے کے تحفظ کی خاطر آخری حد تک جائیں گے۔ حکومت ہر سال اپنے اخراجات اور خسارے کا بتادیتی ہے مگر یہ کبھی نہیں بتایاکہ فنڈز کہاں خرچ کئے گئے۔ ہمارامطالبہ ہے کہ ہمیں بتایاجائے حکومت نے کہاں اور کس مد میں پیسہ خرچ کیا۔ ایف ٹی آر کا نظام بہتر تھا، حکومت کو اسے بحال کر دینا چاہیے۔

سید توقیر بخاری  (صدر راولپنڈی اسلام آباد ٹیکس بار ایسوسی ایشن )

بجٹ میں الٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن کمیٹی کو فعال اور مضبوط کرنے کا اقدام قابل تحسین ہے۔ پہلے اس کے فیصلوں کوبیوروکریسی پسند نہیں کرتی تھی اور اس کمیٹی کے فیصلوں کو تسلیم بھی نہیں کیاجاتاتھا مگر اب بجٹ میں اس کے فیصلوں پر عمل درآمد لازمی قراردیاگیاہے، اس سے بہتری آئے گی۔ ٹیکس سلیب کو بڑھانا ایک اچھا اقدام ہے، اس سے معیشت کو ریگولر کرنے میں مددملے گی۔ اے ڈی آر سی کے حوالے سے کام شروع ہوگیاہے، اس میں جب نجی شعبے کی نمائندگی ہوگی تو اس کی کارکردگی مزید بہترہوجائے گی۔اگرچہ رواں سال اس میں کچھ نہیں ہوگا، حکومت ترمیم نہیں کر سکتی لیکن اگر ایسا کیا گیا تو ہم عدالت میں چیلنج کریں گے۔ تقابلی جائزہ لیاجائے تو 2002ء میں ملک میں 17 لاکھ افراد ٹیکس گوشوارے جمع کراتے تھے مگر آج یہ تعداد کم ہوکر 13 لاکھ پر آگئی ہے۔ اگر حکومت کی جانب سے فائلرز کے حوالے سے قانون لایاگیا تو فائلرز، نا فائلرز کے ایجنٹ بن جائیں گے اور پھر ملک میں ایک نیا دھندہ شروع ہوجائے گا۔

ڈاکٹر ساجد امین (ماہر معاشیات )

حکومت نے ایک غیر روایتی بجٹ دینے کی کوشش کی ہے تاہم اس میں بہت سی روایتی چیزیں بھی شامل کی گئی ہیں۔ حکومت نے یہ بجٹ عجلت میں بنایاہے لہٰذا اس کی کریڈیبلٹی زیادہ نہیں ہے اور یہ سیاسی نوعیت کا بجٹ ہے۔ حکومت ٹیکس فار انوسٹمنٹ کے بجائے ٹیکس فار ریونیو پر توجہ دے رہی ہے۔ ٹیکس کمپلائنس کو بڑھانے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ ایسا محسوس ہورہاہے کہ ایک نیا بجٹ آئے گا اور جو نئی حکومت آئے گی وہ اپنے ریونیو اقدامات کرے گی۔ حکومت کی زیادہ توجہ اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں اور ایمنسٹی سکیم پر ہے۔ ہمارے ملک میں اس سے قبل جتنی بھی ٹیکس ایمنسٹی سکیمیں آئیں وہ سب ناکام ہوئی ہیں۔ حکومت نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے حوالے سے انڈونیشیا کے ماڈل پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرے نزدیک ایمنسٹی سکیم کے تحت سرمایہ کاری کرنے والوں کو زیادہ جبکہ دیگر کو کم مراعات ملنی چاہئیں تھیں۔ حکومت کی جانب اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کے حوالے سے صورتحال زیادہ اچھی نہیں ہے۔ رئیل اسٹیٹ میں ہم بھارت کو فالو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ہماری حکومت میں مانیٹرنگ کی صلاحیت نہیں ہے۔ ملک میں کسی نہ کسی سطح پر تو ڈیٹا ہوناچاہیے۔ ایمنسٹی سکیم لا ئی گئی ہے مگر حکومت خودخوفزدہ ہے کہ اس پر عملدرآمدکرپائے گی یا نہیں۔ بجٹ کے لئے بھی حکومت کو اصل چیلنج عملدرآمد کا ہے۔ بجٹ کا ویژن اچھاہے۔ ریونیو سے سرمایہ کاری کی طرف جار ہے ہیں مگر اس کے خدوخال بہت کمزور ہیں۔ حکومت کے اکاؤنٹس میںڈیڑھ ارب ڈالرز آنے کی اطلاعات ہیں۔ اگر موجودہ حکومت دوبارہ برسراقتدار آگئی تو آئی ایم ایف کے پاس جانے کے امکانات کم ہیںتاہم اگر کوئی اور حکومت آئی تو وہ آئی ایم ایف کے پاس جائے گی۔ آئی ایم ایف کے پاس جانابرا نہیں ہے مگر ماضی میں جب بھی ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے ہیں تو نان پروڈکٹیو قرضے لیے گئے۔ اگر 2013ء کے ساتھ موازنہ کیاجائے تو اس وقت ملک کی حالت بہتر ہے مگر معیشت مستحکم نہیں ۔ معاشی صورتحال بہترہونے کی وجہ سے ہمارے پاس متبادل آپشن بھی موجود ہیں۔ حکومت نے بانڈز کم ریٹ پر د یئے ہیں حالانکہ اس سے زیادہ ریٹ مل رہاتھا ۔ اگر آنے والی حکومت معاشی استحکام برقرار نہ رکھ سکی توہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ ہمارے پاس چین کی شکل میں دوست اور چین پاکستان اقتصادی راہداری جیسا منصوبہ موجود ہے۔ چین کبھی نہیں چاہے گا کہ آئی ایم ایف ’’سی پیک‘‘ کو ڈکٹیٹ کرے۔ حکومت اگراب آئی ایم ایف کی طرف گئی تو متبادل موجود ہونے کی بناء پر آئی ایم ایف بھی ہم سے سخت شرائط منوانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا ۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے دیے گئے حالیہ بجٹ میں سرکولرڈیٹ پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ ملک میں انرجی کی لاگت بڑھ رہی ہے۔ انرجی مکس کو بہتر کرنا ہوگا۔ ملک میں ایڈہاک ازم زیادہ ہے، ہمیں موثر پالیسیاں لاناہوں گی۔ اداروں کی نجکاری کے حوالے سے پارلیمنٹ سے متفقہ منظورشدہ پالیسی آنی چاہیے اور نجکاری کے حوالے سے ایک طویل المدت پالیسی دی جائے۔ ہمارے ملک میں نجکاری کا مقصد کارکردگی بہتر بنانانہیں بلکہ ریونیو بڑھانا ہے۔ ہم انٹرپرائزرز پیدا نہیں کر رہے جبکہ ہمارے ہاں ان کی بہت ڈیمانڈ ہے۔ ایک افسوسناک پہلویہ ہے کہ حکومت نے صنعتی شعبے کو نظر انداز کر دیاہے۔ لوگوں کو روزگار کے مواقع صنعتوں کے پھیلاؤ سے ملتے ہیں۔ اگر صنعتوں کو مراعات نہ دی گئیں تو وہ نتائج نہیں دے سکیں گی۔ حکومت کو معیشت کو دستاویزی شکل دینا ہوگی۔ ایس ایم ای سیکٹر پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ، اس شعبے کے لئے ملک میں کوئی پالیسی نہیں ہے لہٰذاحکومت کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔

سید تنصیر بخاری (چیئرمین بنچ بار کمیٹی راولپنڈی اسلام آباد ٹیکس بار ایسوسی ایشن )

معاشی و معاشرتی ترقی کیلئے ہمیںتعمیری سوچ اپنانی ہوگی  اورصرف مسائل کی نشاندہی کے بجائے ہمیں مسائل کاحل دیناہوگا۔ایف بی آر کو کرپشن کے خاتمے کے لئے الٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن کمیٹی کو موثر بنانا ہوگا اورصنعتی شعبے کو ترقی دینا ہوگی۔ میرے نزدیک آئین کے آرٹیکل 62(1)(F) کا نفاذ نچلی سطح تک ہوناچاہیے ، اس سے معاملات میں بہتری آئے گی۔ گلی محلوں میں بینک کھل گئے ہیں کیونکہ سرمایہ دار وہاں موجود ہیں لہٰذا حکومت کو دکانوں کے اندر ٹیکس دفاتر کھولنے چاہئیں اور وہاں پر صادق اور امین افراد کو بٹھاناچاہیے ۔ اس کے علاوہ ای او بی آئی میں بھی صادق اور امین افراد بھرتی کیے جائیں اور صنعتی شعبے کو پابند کیا جائے کہ وہ سوشل سیکورٹی اور ای او بی آئی میں اپنا حصہ ڈالے۔ میرے نزدیک جب تک صادق اور امین افراد نچلی سطح تک نہیں لگائے جائیں گے تب تک صورتحا ل بہتر نہیں ہوگی۔ افسوس ہے کہ ہم ملک کو گودام بناتے جارہے ہیں اور بیرون ملک سے چینی مصنوعات یہاں لاکر ذخیرہ کی جارہی ہیں، ہمیں اپنی صنعت کو فروغ دینا ہوگا۔

ملک سہیل ( چیئرمین کوارڈی نیشن ایف پی سی سی آئی)

ایف پی سی سی آئی نے تاجروں کے ری فنڈ زکا معاملہ اٹھایا ہے اوریہ بات بھی حکومت کے نوٹس میں لائی گئی ہے کہ بڑے سرمایہ کاروں کی نسبت چھوٹاکاروباری طبقہ زیادہ متاثر ہورہاہے لہٰذا اگر ادائیگیاں نہ کی گئیں تو یہ طبقہ تباہ ہوجائے گا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی کی شرح کو دیکھا جائے تو تنخواہوں میں اضافہ زیادہ نہیں ہے۔ ایف پی سی سی آئی اس بات پر توجہ مرکوز کررہی ہے کہ ملک میںقوانین پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ صنعتوں میں کیا ہورہا ہے اور کن قوانین پر عملدرآمد نہیں ہورہا، اس پر نظر رکھنے کیلئے ایف پی سی سی آئی میں تحقیقی سرگرمیوں کے لئے ایک الگ ونگ قائم کیا جارہا ہے، امید ہے اس سے بہتری آئے گی۔ افسوس ہے کہ اداروں میںسیاسی بنیادوں پر کی جانے والی بھرتیوں سے ان کی کارکردگی پر برا اثر پڑا ہے، میرٹ پر بھرتیوں کے ساتھ ساتھ حکومت کو عوام کوبنیادی سہولیات کی فراہمی پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔

مختارا حمد (صدر سیکرٹریٹ ایمپلائز یونین)

سالانہ بجٹ سے قبل تمام سرکاری ملازمین اس انتظار میں ہوتے ہیںکہ بجٹ میں تنخواہوں پر نظر ثانی ہوگی اور حکومت ان کے لئے مراعات کا اعلان کرے گی۔ موجودہ حکومت نے پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرح مانیٹائزیشن اور کنوینس الاؤنس کے حوالے سے کچھ نہیں کیا۔ افسوس ہے کہ بجٹ میں ورکرز کو نظر انداز کیاگیا۔ موجودہ حکومت کا یہ چھٹا بجٹ ہے اور موجودہ حکومتی مدت میں مجموعی طور پر 57.5فیصد تنخواہ بڑھائی گئی ہے اور دو ایڈہاک دئیے گئے، وہ ان ملازمین کے لئے فائدہ مند نہیں ہیں جو اگلے پانچ سے چھ ماہ میں ریٹائر ہوجائیں گے۔ حکومت نے بڑے افسران کے لئے بجٹ میں 5 ارب روپے کا ایفی شنسی الاونس رکھا ہے جس کی بعد میں بندر بانٹ کی جائے گی اور اپنے منظور نظر افراد میں تقسیم کردیاجائے گا۔ ملک میں روزگار نہیں ہے۔ تعلیم و صحت کے نظام کی حالت بری ہے۔ وفاقی دار الحکومت کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں بچوں کو تعلیم کے حصول کے لئے بہت زیادہ فاصلہ طے کرناپڑتاہے۔ صحت کے شعبے کی صورتحال زیادہ بہتر نہیں ہے اورآج سے کئی برس قبل اسلام آباد میں پولی کلینک اور پمز ہسپتال بنائے گئے جبکہ اس وقت سے اب تک آبادی کئی گنا بڑھ چکی ہے، آج اگر پمز کا چکر لگائیں تو ایک ایک بیڈ پر چار چار مریض پڑے ہوتے ہیں اور صحت کی سہولیات ناکافی ہیں۔ وفاقی دار الحکومت میں ملازمین کے لئے رہائشی سہولیات نہیں ہیں۔ چند برس قبل حکومت نے ملازمین میں رہائشی سہولیات کی فراہمی کے لیے فارم تقسیم کئے اور ہرفار م کی قیمت پانچ ہزار سے پچاس ہزار روپے تک لی گئی مگر پانچ سال گزرنے کے بعد بھی ابھی تک اس حوالے سے صورتحال واضح نہیں ہوئی لہٰذا اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ موجودہ حکومت نے اپنا آخری بجٹ پیش کیا لیکن یہ ملازمین کے لئے کسی بھی صورت اچھا نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔