پاکستان میں چین کا بڑھتا اثرورسوخ!

ملک میں چینیوں کی فروغ پاتی سرمایہ کاری اور بڑھتی تعداد کے ہماری معیشت اور سماج پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں؟ تفصیلی فیچر۔ فوٹو: فائل

ملک میں چینیوں کی فروغ پاتی سرمایہ کاری اور بڑھتی تعداد کے ہماری معیشت اور سماج پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں؟ تفصیلی فیچر۔ فوٹو: فائل

 کراچی /  اسلام آباد /  لاہور / کوئٹہ / ہشاور:  اپریل 2015 میں چین نے پاکستان میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ بنانے کا اعلان کیا۔

سی پیک کے آغاز کے بعد ملک بھر میں جہاں ایک طرف چینی باشندوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف ملک کے مختلف شہروں میں چینی زبان سکھانے والے بہت سے نئے ادارے بھی وجود میں آئے جب کہ اس سے قبل نومبر 2013کو جامعہ کراچی میں چینی زبان سکھانے کے لیے باقاعدہ ایک شعبے کا قیام عمل میں آگیا تھا۔

عظیم چینی مفکر کنفیوشش کے نام پر بننے والے اس انسٹی ٹیوٹ میں چھے چھے ماہ کے دو سرٹیفیکیٹ کورسز کرائے جا رہے ہیں۔ اس انسٹی ٹیوٹ میں چینی زبان سیکھنے والے طلبا کی تعداد میں ہر گزرتے دن اضافہ ہورہا ہے، جب کہ نجی سطح پر غیرملکی زبانیں سکھانے والے ملکی اور غیرملکی درجنوں ادارے چینی زبان سکھانے کے لیے مختلف کورسز متعارف کرواچکے ہیں۔ مختلف کلاسیفائیڈ ویب سائٹس پر چینی زبان سکھانے والے سافٹ ویئرز کی بھرمار ہے۔

اس طرح پاکستانیوں میں چینی زبان و ثقافت سے شناسائی بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں چین کا کاروباری اثرورسوخ بھی بڑھتا جارہا ہے، جس نے مقامی صنعتوں کی تباہی کا آغاز بھی کردیا ہے۔ ایک زمانے میں چینی ساختہ برقی مصنوعات نے مقامی کارخانوں میں تالے لگوائے، لیکن سی پیک کے ساتھ چینی کاروبار اور کمپنیوں کے بڑھتے ہوئے قدم پاکستان کی معیشت اور تجارت پر مزید وسیع اور دوررس اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ اب چین سے آنے والے سیب، گاجر، ٹماٹر اور دیگر پھل و سبزیاں مقامی کسانوں کے لیے آمدنی کے ذرایع دن بہ دن کم کرتی جا رہی ہیں۔ غرض یہ کہ چین کی اس کے معاشی و تجارتی حجم کے لحاظ سے اس معمولی سی سرمایہ کاری نے پاکستانی حکم رانوں، عوام اور سیاست دانوں کو خوشی سے نہال کردیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سی پیک چین کے ایک عظم منصوبے کا بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔

اس سے کہیں زیادہ سرمایہ کاری وہ اپنے حریف ممالک امریکا اور انڈیا میں کرچکا ہے یا کرنے والا ہے۔ سی پیک کے آغاز کے ساتھ ہی پورے ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا۔ کچھ نے اسے جادو کی چھڑی قرار دیا جس سے پاکستان یک لخت امریکا، برطانیہ کی معیشت کو پیچھے چھوڑ دے گا، کچھ جغادری تجزیہ کاروں نے اس منصوبے سے پیوستہ ترقی کی ایسی لمبی تمہیدیں باندھیں کہ جی اس منصوبے کے آتے ہی ملک بھر سے بے روزگاری کا خاتمہ ہوجائے گا، جب سب برسر روزگار ہوں گے تو پھر امن و امان ایسا ہوگا کہ لوگ سونے کے سکے اچھالتے جائیں گے اور کوئی آنکھ اٹھا کر بھی ان کی طرف نہیں دیکھے گا، لیکن ہوا کچھ ایسا کہ بے روزگاری میں کمی تو آئی لیکن چینیوں کے لیے، سی پیک سے وابستہ انجینئرز اور مزدوروں کی کھیپ کی کھیپ پاکستان درآمد کی گئیں، جن کی حفاظت کے لیے پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے دن رات اپنی نیندیں حرام کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں کچھ تجزیہ کاروں نے اسے اکیسویں صدی کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد قرار دیا ہے۔

یہاں اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ چین کے اپنے معاشی اہداف ہیں، جن میں ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ، ایشیا پیسیفک اور یورپی ممالک سے روابط بڑھانے اور آزادانہ تجارت کا فروغ شامل ہیں۔ چین دنیا بھر کی معیشت میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے سرگرم ہے۔ چین پاکستان کا دیرینہ دوست ہے، لیکن پاکستان میں چینی اثرورسوخ کو سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی کا سفر کرنا پڑے گا۔ تقسیم کے بعد ہی پاکستان نے ملکی معیشت میں بہتری کے لیے غیر ممالک پر انحصار شروع کردیا تھا ، اس وقت دنیا دو سپر پاورز سوویت یونین اور امریکا کے درمیان تقسیم تھی۔ پاکستان نے امریکا کو منتخب کیا جس کے عوض اسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے امداد کے نام پر قرضے ملنا شروع ہوئے۔ ان ستر سالوں میں پاک امریکا تعلقات کبھی بہت بہتر رہے تو کبھی بہت تنائو رہا۔ چند دہائی قبل پاکستان نے امریکا کی طوطا چشمی کو دیکھتے ہوئے اس کے رقیب اور اپنے دیرینہ دوست چین کے ساتھ سماجی اور معاشی تعلقات میں مزید بہتری لانی شروع کردی۔ گزشتہ ایک دہائی میں چین کی جانب سے پاکستان میں انفرا اسٹرکچر اور توانائی کی شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی۔

٭ ’ون بیلٹ، ون روڈ‘ اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی چینی سرمایہ کاری کے اثرات
انفرا اسٹرکچر میں بیرون ملک سرمایہ کاری اور سی پیک کے بارے میں جاننے کے لیے ہمیں چین کے ’ون بیلٹ، ون روڈ‘ جیسے بڑے منصوبے کے بارے میں جاننا ہوگا۔ پانچ سال قبل چینی صدر نے دنیا کے 65 سے زاید ممالک میں باہمی تجارت کے فروغ کے لیے سڑکوں، ریلوے لائنز، سمندری اور خشک بندرگاہوں کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے کے لیے ون بیلٹ، ون روڈ منصوبے کا علان کیا، جس کے تحت چین کو مختلف ممالک سے بہ ذریعہ سڑک ملاتے ہوئے یورپ تک ایک روڈ کی تعمیر اور نقل و حمل، توانائی، تجارت اور مواصلات کے انفرا اسٹرکچر میں بہتری کو فروغ دینا ہے۔ ون بیلٹ، ون روڈ آنے والے برسوں میں چین کی دنیا بھر میں سرمایہ کاری اور اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے تصور کا آغاز ہے۔ درحقیقت یہ چین کی تجارتی راستوں پر علاقائی ربط سازی، دنیا بھر میں چینی کمپنیوں کی تعداد میں اضافے، اور گلوبل مارکیٹ میں رسائی کو بڑھانے کے لیے جاری سرمایہ کاری کا تسلسل ہے۔ اسے چین کی ’گوئنگ آوٹ حکمت عملی‘ کے اگلے مرحلے کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

ہانگ کانگ ٹریڈ ڈیولپمنٹ کونسل ریسرچ سینٹر کی جانب سے جاری ہونے والے نقشے کو بہ غور دیکھا جائے تو چین تو اپنے حریف انڈیا کو بھی ساڑھے سولہ لاکھ اسکوائر کلومیٹر طویل بی سی آئی ایم اقتصادی راہ داری کا حصہ بنا رہا ہے، لیکن وہاں کے عوام اور سیاست دان اتنا شور نہیں کر رہے جتنا ہمارے ملک میں سی پیک کو لے کر کیا جارہا ہے۔ یعنی جس بات پر ہمارے حکم راں خوشی سے پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ سی پیک سے پاکستان میں معاشی خوش حالی کا دور دورہ ہوگا تو انہیں عوام کو اس حقیقت سے بھی آگاہ کرنا چاہیے کہ سی پیک تو محض چین کے ایک عظیم منصوبے کا بہت چھوٹا حصہ ہے۔ ون بیلٹ، ون روڈ کا اہم مقصد ’پالیسی کوآرڈینیشن‘ ہے۔

جیسے ہی یہ ‘ون روڈ، ون بیلٹ’ کا منصوبہ مکمل ہوگا چین کو ایسے علاقوں تک رسائی مل جائے گی جہاں پر آبادی کم ہے۔ اس صورت حال میں پاکستان میں چینی صنعت کاری کو مزید فروغ دیا جائے گا۔ چین نے اپنی غیر معمولی معاشی قوت کی بدولت خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھالیا ہے جب کہ بھارت بھی اپنی غیر معمولی آبادی، بڑی مارکیٹ اور معاشی ترقی کی بدولت جنوبی ایشیاء میں ایک مقام رکھتا ہے۔ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تجارت و سرمایہ کاری کی بدولت چین کے اِن ممالک سے معاشی تعلقات تیزی سے مضبوط ہورہے ہیں لیکن بھارت جنوبی ایشیا میں چین کو سب سے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے کیوںکہ چین اپنے سب سے بڑے انفرااسٹرکچر بینک کے ذریعے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبے کے تحت خطے کے ممالک کے انفرااسٹرکچر کو مضبوط بنا کر اُنہیں آپس میں ملانا چاہتا ہے جس کی وجہ سے چین کا خطے میں اثر و رسوخ مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ چین کے بہتر تعلقات صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بنگلادیش کا جھکائو بھی اب چین کی طرف ہوگیا ہے۔

پاکستان کے لیے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ نہایت اہمیت کے حامل ہے۔ پاکستان کو خطے میں اپنی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے اس منصوبے سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ لیکن اربوں ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کے باوجود ملکی معیشت پر چین کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ باعث تشویش بھی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس وقت سو سے زاید چینی کمپنیاں اور بارہ ہزار سے زاید چینی شہری پاکستان میں جاری مختلف چینی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ پاکستان اور چین کا تجارتی حجم بارہ ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے، لیکن اس تمام تر سرمایہ کاری سے مستفید بھی سب سے زیادہ چین ہی ہورہا ہے، کیوں کہ گوادر بندر گاہ ہو یا ریکوڈک سے سونے تانبے اور دیگر معدنیات کے ذخائر کی کان کنی، ہر جگہ چینی کمپنیاں سرفہرست ہیں۔ اس بابت ماہرین معیشت کو بھی کچھ تحفظات ہیں کیوںکہ ان کے خیال میں پاک چین آزاد تجارت کے معاہدوں میں پاکستان سے زیادہ چین کے مالی اور سماجی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا زیادہ فائدہ چین کو ہورہا ہے۔

پاکستانی معیشت پر بڑھتے ہوئے چینی اثرو رسوخ کی واضح مثال یہ بھی ہے کہ ملک بھر سے جوتا سازی، برقی آلات، کاغذ سازی اور اس جیسی کئی دیگر صنعتیں یا تو ختم ہوگئی ہیں یا اپنے اختتام کے قریب ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والی مواصلاتی کمپنیوں اور مالیاتی اداروں نے اردو اور انگریزی کے ساتھ ساتھ چینی زبان میں بھی ہدایات فراہم کرنی شروع کردی ہیں۔ اگر آپ کسی سُپرمارکیٹ جائیں تو آپ کو چینی ساختہ مصنوعات کی بھرمار دکھائی دے گی۔ کراچی کے علاقوں صدر، ڈیفنس، کلفٹن اور شہر کے دیگر علاقوں میں چینی باشندے بڑی تعداد میں گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ چند سال قبل پاک چین تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کھانے کے مسالے بنانے والی ایک کمپنی نے اپنے اشتہار میں چینی لڑکی کو بریانی بناتے دکھایا تو گذشتہ سال ہی ایک پاکستانی فلم میں اداکارہ سائرہ شہروز کے ساتھ چین کے اداکار کینٹ ایس لیونگ کو بہ طور ہیرو کاسٹ کیا گیا۔ پاکستان میں چینی اثرات کا ایک ثبوت اسلام آباد سے شایع ہونے والا پندرہ روزہ جریدہ ہے، جو چینی میں شایع ہوتا ہے۔ کاروباری خبروں سے مزین اس پندرہ روزہ رسالے کی پانچ ہزار کاپیاں شایع کی جاتی ہیں، جب کہ اس کے قارئین کی تعداد ایک سال میں پچیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔

٭ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری
چینی صدر ژی جن پنگ نے اپنے دورۂ پاکستان کے دوران6 ارب 45 کروڑ ڈالر کے 51 منصوبوں پر دستخط کیے تھے، جس میں پاک چین اقتصادی راہ داری کے منصوبوں میں8 ارب 33کروڑڈالر توانائی اور8 ارب 11کروڑ ڈالر انفرااسٹرکچر کے شامل ہیں۔ بجلی اور پانی کے15منصوبوں 1320 میگاواٹ کا پورٹ قاسم کول پاور پلانٹ، 50 میگاواٹ کا ہائیڈرو چائنا ونڈ پروجیکٹ، 660 میگاواٹ کا حبکو کول پاور پلانٹ، 50 میگاواٹ کا سچل ونڈ پراجیکٹ، 1320 میگاواٹ کا ساہیوال کول پاور پلانٹ، 300 میگاواٹ کا سالٹ رینج کول پاور پلانٹ، 870 میگاواٹ کا سوکی کناری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، 720 مگاواٹ کا کاروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، 100میگاواٹ کا UEP ونڈ پراجیکٹ، 1320میگاواٹ کا SEC تھرکول پاور پلانٹ، 1000میگاواٹ کا قائداعظم سولر پارک، 660 میگاواٹ کا اینگروتھرکول پاور پلانٹ شامل ہیں۔

توانائی کے منصوبوں کوئلے، ہوا، شمسی اور ہائیڈرو کے لیے 5 ارب ڈالر کے مختصر المیعاد کے Early Harvest منصوبے شامل ہیں جو 2017 کے آخر تک 10400 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کرسکیں گے، جب کہ 3 ارب 18کروڑ ڈالر کے طویل المیعاد منصوبے 2021 تک 6120 میگاواٹ بجلی پیدا کرسکیں گے۔ اس طرح ان تمام منصوبوں سے آئندہ 7 سالوں میں مجموعی طور پر 16520 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کی جاسکے گی۔ یہ بات واضح رہے کہ 3 بڑے بینکوں چین ترقیاتی بینک (CDB)، انڈسٹریل اینڈ کمرشیل بینک آف چائنا (ICBC) اور چائنا انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ بینک (CIDB) نے ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والی ملکی و غیرملکی کمپنیوں کی جانب سے ان منصوبوں کی سیکیوریٹی کے عوض سرمایہ کاری کی ہے۔

٭ عرفان شہزاد
تھنک ٹینک ’انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ میں ریسرچ فیلو اور علمی، تحقیقی جریدے ’Policy Perspectives‘ کے ایڈیٹر عرفان شہزاد کا کہنا ہے:

پاکستان اور چین کا باہمی تعاون پہلے باقی شعبوں میں زیادہ مضبوط تھا،1951ء میں دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ ہماری شاہراہ قراقرم 1974ء میں بننا شروع ہوئی تھی یہ 1981-82ء میں لانچ بھی ہوگئی۔ ہمارا زیادہ تعاون 1951 سے لے کر 2000ء تک سیاسی اور سفارتی اور دفاعی، ایٹمی تعاون کی شکل میں تھا۔ یہ ایٹمی تعاون دفاع اور بجلی کی پیداوار میں مدد دیتا ہے۔ خلائی میدان میں بھی تعاون تھا۔ 2000ء کے ابتدائی سالوں تک ہمارا معاشی تعاون بہت کم تھا۔ 2003-4 تک ہماری باہمی تجارت ایک ارب ڈالر تک تھی جو اب پندرہ ارب ڈالر تک پہنچ رہی ہے۔ پچھلے سات آٹھ سالوں میں زیادہ بڑا فوکس معیشت ہی رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارا میری ٹائم بحری افواج کے ساتھ تعاون تیزی سے بڑھا ہے۔ جے ایف 17 کی شکل میں مختلف پراجیکٹس کی شکل میں ہماری فضائی دفاعی تعاون بہت بڑھا ہے۔

پاکستان اور چین کی زمینی افواج کے درمیان بہت ہی مضبوط رابطہ، بہت ہی باقاعدگی کے ساتھ تینوں افواج کی مشترکہ مشقیں ہو رہی ہیں وہ اس عرصہ میں زیادہ ہوئی ہیں۔ اعلیٰ سطح پر مسلح افواج کے درمیان نہ صرف رابطے بڑھے ہیں بلکہ آپریشنل لیول پر بھی تعاون ہوا ہے، دفاعی پیداوار کے شعبوں میں تعاون کافی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ تعلیمی میدان میں بھی کافی تعاون بڑھ چکا ہے، چینی اداروں اور پاکستانی اداروں کے درمیان بہت سے معاہدات ہو چکے ہیں، جن کے باعث اکیڈمک ایکسچینجز بھی بہت بڑھی ہیں۔ مشترکہ تحقیق بھی بہت زیادہ ہورہی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ثقافتی تعاون بھی کافی بڑھا ہے، پچھلے پانچ چھے سات سال کے دوران سرکاری اور غیرسرکاری دونوں سطح پر میڈیا کے اداروں کے درمیان تعاون کافی آگے بڑھا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان اس وقت کم از کم چار سو مختلف معاہدے موجود ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں کسی نہ کسی سطح پر تعاون چل رہا ہے یا اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔

اگر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ چین کی صنعت ہماری صنعت پر چھا جائے گی، اس میں بھی ایک حد تک مبالغہ آرائی موجود ہے، لیکن اس اعتراض کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا کہ مقامی صنعت کی ضرورت کا احساس کیے بغیر اس کی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائے بغیر جس طرح پورے ملک کو چینی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیا گیا ہے اس کی وجہ سے ایک حد تک مقامی صنعت کاروں کی تشویش بجا ہے۔

ہم نے ان کے تحفظات دور کرنے کے لیے کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں کی، اس حوالے سے ہماری جانے والی یا آنے والی حکومت کو بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چین کے بہت سارے لوگ آنے کی وجہ سے پاکستان میں ثقافتی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس کو ہمیں واضح طور پر اس طرح سے دیکھنا چاہیے کہ مغرب کی ایک کُھلی دو ٹوک پالیسی ہے کہ وہ اپنا سیاسی، معاشی، معاشرتی نظام ایکسپورٹ کرنا چاہتا ہے اور کرتا بھی ہے، اس کے برعکس چین کی پالیسی یہ ہے کہ سوشلزم اور ان کے اقدار وہ ملک کے اندر کے لیے ہیں، ہم اس کو ایکسپورٹ نہیں کریں گے، لیکن اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جس ملک سے ہزاروں کی تعداد میں سرمایہ کار آ رہے ہوں تو اس کے آپ کے اوپر بالکل ثقافتی اثرات مرتب نہیں ہوں گے، لیکن اس کو ہمارے ہاں بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ ثقافتی اثر میں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ وہ ایک ہی طرف سے آ رہا ہو ۔ ایک ثقافت چاہے وہ بہت مضبوط ہو لیکن آپ کے پاس بھی ایک ثقافت ہوتی ہے، آپ اس کے رنگ و روپ کو اچھائیوں برائیوں کے ساتھ پیش کر سکیں۔

جہاں تک ممکن ہو اس کے اثرات وہاں پہ ڈال سکیں۔ میں اپنے پندرہ سالہ تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ اثرات دو طرفہ ہیں، چونکہ چین کے پیسے زیادہ لگ رہے ہیں تو ایک خاص وقت کے دوران ہمیں یہ لگے گا کہ چینی ریستوران زیادہ کھل رہے ہیں، بہت ساری چینی دکانیں کھل رہی ہیں، چینی آئوٹ لیٹس یہاں آ رہے ہیں، یہ ایک وقت تک ٹھیک بھی ہوگا۔ ہمیں اس بات کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ ہمارے8ہزار طلبا چین میں پڑھ رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی تاجر چین جا رہے ہیں۔

کیا چین سی پیک منصوبوں میں کرپشن کی شکایت کرتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں عرفان شہزاد کا کہنا ہے کہ چین اور پاکستان کے تعلقات دو جماعتوں اور دو اداروں نہیں، دو ریاستوں کے درمیان ہیں، ان کو اُس وقت بھی فرق نہیں پڑا جب پاکستان میں انتہائی مغرب زدہ، مغرب کی حمایت یا مغرب کی حامی حکومتیں رہی ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سی پیک کے پراجیکٹس سو فیصد ضروری شفافیت کے ساتھ چل رہے ہیں۔ مجھے درجنوں اعلیٰ سطحی چینی عہدے داروں، چینی ماہرین، پراجیکٹس سے جڑے ہوئے سنیئر اہلکاروں سے کئی بار ملنے کا موقع ملا ہے۔ تقریباً ہفتہ وار بنیادوں پر ہماری کوئی نہ کوئی بات ہوتی ہے۔ انہوں نے اس طرح کا کوئی قابل ذکر خدشہ ظاہر نہیں کیا کہ کرپشن چینیوں کو سی پیک سے دور کرنے کا سبب بن رہی ہے۔

٭ظفربختاوری
اسلام آباد چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر ظفربختاوری کا کہنا ہے:
پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات ہمیشہ ہی سے بہترین رہے ہیں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہر آنے والا دن اس تعلق کو بہتر سے بہتر کر رہا ہے۔ آنے والے پانچ برسوں میں ان تعلقات میں مزید بہتری آئے گی۔ اس سے پہلے یہ تعلقات صرف سیاسی سطح پر موجود تھے اور دونوں ممالک اسی شعبے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے لیکن اب یہ تعلقات معاشی شعبے میں بھی بہت گہرے ہوچکے ہیں تو دونوں ملکوں کی قربت کے بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔ جب معاشی مفادات ایک ہوجائیں تو تعلقات میں مزید گہرائی پیدا ہوتی ہے، اس میں طاقت اور مضبوطی بھی آتی ہے۔ جہاں تک اس خدشے کا تعلق ہے کہ سی پیک کے نتیجے میں پاکستان کی صنعت کو بڑا نقصان پہنچے گا، میں سمجھتا ہوں کہ مقابلہ ہمیشہ انسان کی صلاحیتوں کو تیز کرتا ہے۔

ہماری معیشت میں دو تین خرابیاں پہلے ہی سے موجود ہیں، اولاً انرجی کبھی بھی مناسب نہیں ملی، چاہے وہ بجلی ہو یا گیس ہو۔ اگر بجلی ملنی شروع ہوئی تو بہت منہگی ملی، اس لیے ہماری معیشت اس قابل نہ ہوسکی کہ وہ دنیا کے ساتھ مل کے چلتی کیوںکہ ہماری پراڈکٹس منہگی ہوئیں، کہتے ہیں کہ ہماری ایکسپورٹ کم ہورہی ہے، اس کا اصل سبب یہ ہے کہ ہماری پراڈکٹس کے کاروباری اخراجات بہت بڑھ گئے۔ اب چین یہاں سرمایہ کاری کرنے آرہا ہے، ہمارے ہاں بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگ رہے ہیں، چاہے وہ نیلم جہلم پراجیکٹ ہے یا کوئی دوسرا پراجیکٹ ہو، وہ کوئلہ یا پھر پانی والے ہیں، اس سے سستی بجلی پیدا ہوگی، اس بجلی سے پاکستانی پراڈکٹس کے کاروباری اخراجات کم ہوجائیں گے۔

اس طرح ہم دنیا کے اندر مقابلہ کرسکیں گے۔ پاک چائنا اکانومک کوریڈور کے نتیجے میں جو انفرااسٹرکچر بن رہا ہے، اس کے ذریعے پاکستان کا اس پورے خطے کے ساتھ تعلق قائم ہوجائے گا، کراچی سے لے کر پشاور تک جو ریلوے لائن ہے، اس کی اسپیڈ 55کلومیٹر فی گھنٹہ ہے، چین کی مدد سے اس کی رفتار تین گنا زیادہ کی جارہی ہے یعنی 150کلومیٹرفی گھنٹہ۔ جب ایسا ہوگا تو آپ ناشتہ پشاور میں کریں گے اور پھر ریل پر سفر کرتے ہوئے رات کا کھانا کراچی میں کھائیں گے۔

یہ ایک انقلاب آرہا ہے، یہ صرف پشاور تک نہیں ہوگا بلکہ یہ آگے کابل اور تاشقند تک تعلق قائم ہوجائے گا۔ اس طرح خطے میں امن بھی ہوگا ، خوش حالی بھی آئے گی اور معاشی طور پر ہم آگے بھی بڑھیں گے۔ جہاں تک صنعتی شعبے کے تحفظات کا سوال ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ایسی کوی بات نہیں ہے، ہماری معیشت، ہماری انڈسٹری کو نئی طاقت ملے گی۔ پاکستانی مصنوعات سستی تیار ہوں گی۔ ہم انھیں ایکسپورٹ کریں گے، یہ پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا گیم چینجر ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ چینی منصوبوں کی شکل میں ایسٹ انڈیا کمپنی قائم ہورہی ہے، انھیں سمجھنا چاہیے کہ یہ پرانے دور کی باتیں ہیں، ایسٹ انڈیا کمپنی نے تو خود ہمیں 1947ء میں ہمیں آزاد کردیا تھا، روس نے بھی اپنی ریاستوں کو آزاد کردیا تھا، اب دنیا بدل چکی ہے، وہ دور ختم ہوگیا جب ملکوں پر قبضے چلتے تھے۔

٭ڈاکٹرانعام الحق غازی
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ٹرانسلیشن اینڈ انٹرپریٹیشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹرانعام الحق غازی کہتے ہیں:
اب تک پاکستان کے مختلف علاقوں میں اٹھائیس کے قریب ایسی یونیورسٹیز ہیں جو چینی زبان کی تدریس کے مختلف سطح کے پروگرام شروع کرچکی ہیں، ان کی تعداد اب آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے۔ ان میں ایک ہماری اپنی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ہے، اس میں ’سینٹرفار ایکسی لینس‘ کھلا ہے جہاں چینی زبان سکھانے کے مختلف لیول کے پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔ اس سے پہلے نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز ہے، جس نے چینی زبان سکھانے کا سلسلہ بہت پہلے سے شروع کررکھا تھا، لیکن سی پیک شروع ہونے کے بعد اس میں کافی اضافہ ہوگیا ہے، انھوں نے دو لینگویج لیب قائم کرلی ہیں۔ طلبہ کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے۔

ان کے پروگراموں میں بھی بہت زیادہ تنوع پیدا ہوچکا ہے۔ وہاں ایک ’کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ‘ کا اضافہ ہوا ہے جو ریسرچ کا کام کرے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ ساری کاوشیں چینی زبان اور چینی کلچر سیکھنے ہی کے لئے راہ ہم وار کررہے ہیں۔ مزیدبراں صوبائی حکومتوں نے بھی اس طرف خاص توجہ دی ہے، پنجاب کی حکومت بہت سے لوگوں کو زبان سکھانے کے لیے اسپانسر کررہی ہے۔ انھیں ایک سال کا کورس کرانے کے لیے چین بھیج رہی ہے، سندھ کی حکومت نے اپنے اسکولوں میں چینی زبان متعارف کرانے کے لیے دو ہزار تیرہ میں ایک معاہدہ کیا تھا، اس پر اب عمل ہورہا ہے۔ خود چین نے بھی چینی زبان کی تدریس اور ترویج کے لیے مختلف پروگرام شروع کیے ہیں۔ ان میں بہت سے اسکالرشپس ہیں، لوگ وہاں سیکھنے کے لیے جارہے ہیں۔ یہاں جو مختلف ادارے ایسا کام کررہے ہیں، انھیں وہ اسپانسر کررہے ہیں۔

اٹھائیس یونیورسٹیوں کے ساتھ مختلف پرائیویٹ ادارے اور چھوٹے چھوٹے انسٹی ٹیوٹ کُھل رہے ہیں جو چینی زبان کے کورسز کروارہے ہیں، ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سی پیک کے سلسلہ میں جہاں چینی زبان کی تدریس کا معاملہ ہے، وہاں اس کی ٹرانسلیشن کے بھی بہت زیادہ مواقع پیدا ہورہے ہیں، بہت سی چینی کمپنیاں آرہی ہیں تو انھیں چینی ترجمہ کرنے والوں کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے، بہت سے لوگ ہیں جنھوں نے ٹرانسلیشن ایجنسیز شروع کردی ہیں اور اپنی خدمات فراہم کرنا شروع کردی ہیں، یہ سلسلہ مزید آگے بڑھے گا، ہم حکومتی اعدادوشمار کو دیکھیں تو تقریباً 197 ایسے ادارے ہیں جو سی پیک سے متعلقہ 38 تجارتی شعبوں کی تربیت دینے کا اپنا کام کررہے ہیں۔

جہاں تک اس خدشہ کا تعلق ہے کہ سی پیک کی شکل میں کوئی نئی ایسٹ انڈیا کمپنی قائم تو نہیں ہورہی ہے؟ یہ بڑا نازک سوال ہے جو بعض حلقوں کی طرف سے اٹھایا بھی جارہا ہے۔ اس میں دونوں طرح کے دلائل دیے جارہے ہیں کہ اس سے ہمارے بہت سے بین الاقوامی سطح کے مفادات کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔

سی پیک کے معاہدے کی تفصیلات کے حوالے سے جب سوالات اٹھائے جاتے ہیں تو حکومتی سطح سے اس کے عمومی جوابات دیے جاتے ہیں اور وہ کافی حد تک تسلی بخش بھی ہوتے ہیں لیکن دستاویزی انداز میں جوابات نہیں دیے جارہے جس کی وجہ سے ابہام پیدا ہوتا ہے اور لوگوں کے ذہنوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی والا خدشہ مضبوط ہوتا ہے، کیوںکہ اس خطے کے لوگوں کو پہلے ہی ایک بڑا تلخ تجربہ ہوچکا ہے جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے ایک تجارتی کمپنی یہاں آئی، آہستہ آہستہ اس نے اپنے پائوں اس قدر پھیلا لیے کہ پورے علاقے پر قبضہ کرلیا، ذہنوں میں وہ خوف اب بھی گہرا ہے۔ میری رائے میں اس کا بہترین حل یہ ہے کہ اس پر کُھلی بحث ہونی چاہیے، جو لوگ اس قسم کے خدشات کا اظہار کررہے ہیں اور جو دفاع کررہے ہیں وہ میڈیا پر، تعلیمی اداروں میں بحث کریں، اس طرح دستاویزی حقائق قوم کے سامنے لائے جائیں تاکہ ایسے خدشات دور ہوسکیں۔

زرد دریا کی عظیم چینی تہذیب اور سندھ کی قدیم تہذیب کے مابین تعاون کا عظیم الشان شاہ کار ’’سی پیک‘‘ کی صورت میں ظہور پذیر ہو رہا ہے۔ یہ منصوبہ چین کے دنیا بھر کو ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کے ذریعے جوڑنے اور اس سے مقامی لوگوں کو معاشی فوائد پہنچانے کے ساتھ ساتھ چین کو ایک معاشی سپرپاور بنانے کے منصوبے کا ایک اہم ترین اور ضروری حصہ ہے۔ اسی منصوبے کے ذریعے چین کی رسائی خلیج فارس تک ایک انتہائی مختصر روٹ سے ہوجانے کے باعث نہ صرف چین کو دنیا کے تیل سے مالا مال اس خطے تک پہنچنے کے اخراجات بہت کم ہوجائیں گے، بل کہ اس تمام عظیم معاشی سرگرمی کے نتیجے میں پاکستان کو بھی زبردست معاشی فائدے حاصل ہوںگے جو اس کی کم زور معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے اکسیر کا کام دینے کی توقع ہے۔

اس منصوبے کے لیے پاکستان میں تعمیر ہونے والے انفرااسٹرکچر، جن میں سڑکیں، ریلوے لائنز، صنعتی زونز وغیرہ شامل ہیں، سے مقامی لوگوں کو انفرادی نیز ملک کو بحیثیت مجموعی بے شمار فوائد حاصل ہوں گے۔ اس کے علاوہ عرصہ دراز سے جاری توانائی کے بحران کو حل کرنے سے عام صارفین اور صنعتوں کو بھی فائدہ ہوگا۔

’’سی پیک‘‘ منصوبے سے اس خطے کی نہ صرف معاشی بلکہ سیاسی اور سماجی صورت حال میں رونما ہونے والا تغیر قابل فہم ہونے کے ساتھ ساتھ قابل توجہ بھی ہے۔ ہم نے ان پہلوؤں اور تغیرات پر مختلف ماہرین سے بات کی، جن کی گفتگو پیش ہے:

٭ ڈاکٹر سلمان شاہ (سابق مشیر خزانہ)
’’سی پیک‘‘ ملکی معیشت کے لیے ایک بہت فائدہ مند منصوبہ ہے لیکن بہت سے پہلو ایسے ہیں کہ جن کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ ہمیں اپنی اکانومی میں بہت سی اصلاحات کرنا ہوں گی۔ اداروں کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ اگر ہم فوری طور پر اپنی اکانومی میں یہ ریفارمز کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔ اس کا بہت بڑا امپیکٹ ہوگا اور اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو پھر ’’سی پیک‘‘ پاکستان کی مقامی صنعتوں کے لیے وبال جان بھی بن سکتا ہے۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ گورننس کے ایشوز کو مدنظر رکھتے ہوئے چین سے کیا ڈیل کرتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنے ادارے جیسے ویئر ہائوسز وغیرہ کے نظام کو بہتر کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ ہماری لاجسٹکس کی سہولیات بھی بہترین ہونی چاہئیں۔ اگر یہ سب ہو تو پھر تو صحیح ہے ورنہ معاملہ گڑبڑ ہوسکتا ہے۔ جب ہم گڈگورننس کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نا صرف حکومتی سطح پر یہ اچھی ہونی چاہیے بلکہ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی گورننس بہترین ہونی چاہیے ان دونوں پہلوئوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دوسرے حکومت اگر کاسٹ آف بزنس کو نیچے نہیں لائے گی تو پھر ان سب چیزوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ مختصراً یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’سی پیک‘‘ کے ساتھ ساتھ اگر ہماری گورننس بہتر ہو تو یہ منصوبہ ملکی مفاد میں بہتر اور فائدہ مند ثابت ہوگا ورنہ حالات الٹ بھی ہوسکتے ہیں۔

٭ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش (دانش ور)
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارا سماج غیر ملکیوں کے حوالے سے انتہائی حساس ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ماضی میں اس خطے میں نو آبادیاتی سلسلہ رہا ہے۔ انگریز اس علاقے میں تاجروں کے روپ میں آئے اور پھر رفتہ رفتہ یہاں قابض ہوکر سارے ملک کے مالک بن بیٹھے۔ اسی لیے کچھ لوگوں کے ذہن میں ’’سی پیک‘‘ کو لے کر معاملے کی حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ پھر اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ چونکہ چینیوں کے خدوخال ہم سے مختلف ہوتے ہیں تو اس وجہ سے وہ ہر جگہ نمایاں نظر آتے ہیں۔

یوں معاشرے میں گھومتے پھرتے وہ عام مقامی لوگوں میں مکس ہونے کی بجائے الگ شناخت کے حامل ہونے کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں بار بار یہ تاثر ابھارتے ہیں کہ یہ لوگ ہم میں سے نہیں۔ یہ احساس انہیں یہ باور کرواتا ہے کہ جیسے ملک میں غیر ملکیوں کی بہتات ہورہی ہے جو لاشعوری طور پر سماجی الجھنوں کا باعث بنتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کیوںکہ بحیثیت قوم ہمارا گلوبل مکسنگ کا کوئی تجربہ نہیں رہا، نا یہاں بڑی تعداد میں کبھی غیرملکی آئے (افغان مہاجرین کو اس لیے استثناء حاصل ہے کیوںکہ نسلی لحاظ سے وہ ہمارے پختونوں کے ہم قوم ہیں، تو ہمیں ان سے اجنبیت محسوس نہیں ہوتی) جب کہ دیگر ممالک خاص طور پر خلیج کے ملکوں میں دنیا کے کئی ممالک کے لوگ بڑی تعداد میں روزگار وغیرہ کے لیے آتے ہیں۔

اس لیے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ وہاں کی حکومتوں نے غیرملکیوں کی موجودگی سے پیدا ہونے والے سماجی مسائل کو کیسے ٹیکل کیا۔ اس ضمن میں دو چیزیں قابل غور ہیں۔ ایک تو پیپرورک یعنی غیرملکیوں کی مکمل ڈاکیومینٹیشن اور دوسرے رول آف لا۔ ہمارے یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور سے لے کریورپینز اور ماضی قریب تک کے دور میں امریکیوں وغیرہ کے بغیر ویزے یا کسی سفری دستاویز کے بھی یہاں آنے کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اکثر اوقات مقامی قانون کی دھجیاں بھی بکھیر کر رکھ دیں۔ مگر میرے خیال میں چینیوں کے حوالے سے یہ احساس صحیح نہیں۔ ایک تو چین کا ریکارڈ یہ رہا ہے کہ اس کے نوآبادیاتی عزائم نہیں ہیں۔

ہاں، دنیا بھر میں چینی اکنامکس بیس سرگرمیوں میں ضرور مشغول ہیں۔ افریقہ میں ان کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو ’’ون روڈ ون بیلٹ‘‘ منصوبے کے مختلف حصوں پر کام کررہے ہیں لیکن کبھی اس طرح کی شکایت سننے کو نہیں ملی کہ انہوں نے وہاں مقامی قانون کی خلاف ورزی کی ہو یا وہاں کی روایات کو توڑا ہو۔ ہمارے یہاں پچھلے دنوں بھکر میں کچھ چینیوں کی پولیس کے ساتھ جھگڑے کی خبریں منظرعام پر آئیں مگر قانون حرکت میں آیا اور انہیں ڈی پورٹ کردیا گیا۔ یوں جب قانون اپنی رٹ دکھاتا ہے تو مقامی لوگوں میں تحفظ کا احساس جنم لیتا ہے۔ اس لیے ایسے مسائل کا علاج یہ نہیں کہ خدشات کے مدنظر ’’سی پیک‘‘ جیسا منصوبہ ہی ختم کردیا جائے بلکہ حل یہ ہے کہ قانون کی عمل داری کو فوری اور یقینی بنایا جائے۔

سماجی اثرات کے حوالے سے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ غیرملکیوں کی تفریحات کے اپنے طریقے ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ ان کی ایسی تفریحات جو مقامی روایات یا رواجوں اور مذہبی اقدار سے متصادم ہوں ان کے لیے علیحدہ جگہیں مختص کردی جائیں تاکہ مقامی آبادی کے احساسات مجروح نہ ہوں۔ اور آخری بات یہ کہ برصغیر پر انگریزوں کی طویل حکمرانی کے باعث ہم لوگ انگریزی زبان سے مانوس ہیں لیکن عصر حاضر کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ چینی زبان بھی سیکھیں۔ یہ ’اسکل‘ نہ صرف یہ کہ ’’سی پیک‘‘ کے حوالے سے پیدا ہونے والے بے شمار ذرائع روزگار کو حاصل کرنے میں ہمارے لیے مددگار ہوگی بلکہ بیرون ملک بھی چین کے معاشی سپرپاور بن جانے کے باعث ہمارے نوجوانوں کو بین الاقوامی پلیٹ فارم مہیا کرے گی کہ وہ ’’ون روڈ ون بیلٹ‘‘ منصوبے کے تحت ساری دنیا میں جاری معاشی سرگرمیوں میں سے اپنا حصہ وصول کرسکیں۔

محمد شعیب،کوئٹہ
پاک چین اقتصادی راہ داری منصوبہ کی تکمیل سے بلاشبہہ پاکستان سمیت خطے میں معاشی انقلاب برپا ہوگا۔ منصوبے کی تکمیل سے سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان کے پس ماندہ علاقوں کو ہوگا، جو سی پیک کی بدولت باقی صوبوں کے شہروں کی طرح ترقی کی راہ پر گام زن ہو سکیں گے۔ سی پیک چین کے شہر کاشغر کو پاکستان کے شہر گوادر کے ساتھ جوڑے گا اور گوادر ہی کی بدولت پورے خطے میں تجارت کو فروغ ملے گا۔ گوادر پورٹ کے ذریعے پاکستان آسانی سے یورپ، افریقہ، مشرق وسطی، مغربی، مرکزی اور جنوبی ایشیا کے ساتھ تجارت کر سکے گا۔ چین پاکستان اقتصادی راہ داری کی وجہ سے بلوچستان کے عوام خود کو معاشی اور سماجی طور پر بہتر کر سکیں گے۔ چین کو جہاں ان منصوبوں سے فائدہ ہوگا وہیں بلوچستان کو بھی اس کا برابر فائدہ ملنے والا ہے ۔

چین نے تقریباً 46ارب روپے اس منصوبے میں لگائے ہیں جو بہت بڑی سرمایہ کاری ہے۔ سی پیک کی تمام سڑکیں بلوچستان سے نکل کر ملک کے دوسرے شہروں یا چین کی طرف جاتی ہیں۔ ماضی میں بلوچستان کے ساتھ بہت ناانصافیاں ہوئیں تاہم سی پیک سے منصوبے سے صوبے کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس ملے گا

سی پیک منصوبے سے جہاں معاشی ترقی کا سیلاب آرہا ہے وہاں پاکستان چین کے درمیان سماجی سطح پر بڑھتے رابطے دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لارہے ہیں۔ پہلی بار عوامی سطح پر چینی اور پاکستانی عوام براہ راست رابطے میں ہیں۔ تعلیمی اداروں میں چینی زبان پڑھائی جارہی ہے جس سے مقامی لوگ سی پیک سے متعلق منصوبوں سے نہ صرف استفادہ کرسکیں گے بلکہ اس سے پاکستان اور چین کے عوام کے درمیان قربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ بلوچستان کے سیکڑوں طلباء کو چینی زبان سیکھنے اور سی پیک سے آنے والے معاشی انقلاب سے فائدہ اٹھانے کے لیے چین بھیجا گیا ہے۔ سی پیک منصوبے سے متعلق صوبے میں مختلف نوعیت کے منصوبوں پر کام جاری ہے جن کی تفصیلات درج ذیل ہیں

٭ایسٹ بے ایکسپریس وے:
ایسٹ بے ایکسپریس وے 18.9کلو میٹر طویل ایک روڈ ہے جو کہ گوادر میں زیرتعمیر ہے، یہ منصوبہ رواں سال مکمل ہوجائے گا۔ یہ طویل سڑک گوادر پورٹ کو مکران کوسٹل ہائی وے سے ملاتی ہے۔ منصوبے کی تخمینی لاگت 140ملین ڈالر ہے۔ اس منصوبے کی سرمایہ کاری چین کے بینکوں کی طرف سے کی گئی ہے۔ پاکستان کو ایک قسم کا یہ قرضہ بغیر سود کے دیا گیا ہے۔

٭نیو گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ:
گوادر ایئرپورٹ پاکستان میں اپنی نوعیت کا واحد ایئر پورٹ ہوگا، جہاں سب سے بڑا ایئر کرافٹ اتر سکے گا اس کے علاوہ یہاں آئے ٹی آر 72ایئر بیس (A-300) بوئنگ (B-737) بوئنگ (B-747) اور مختلف قسم کے ہوائی جہازوں کی آمدورفت ہوگی۔

٭پاک چین ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹیٹیوٹ گوادر:
سی پیک منصوبے میں سب سے زیادہ حق گوادر کے عوام کا ہے جس کی وجہ سے حکومت پاکستان نے پاک چین ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹیٹیوٹ کے نام سے گوادر کے نوجوانوں کے لیے ایک ایسا ادارہ قائم کیا ہے جس سے وہ اپنی صلاحیتوں کو سنوار سکیں اور گوادر کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں۔

٭ گوادر کو ہموار کرنے کا منصوبہ:
گوادر کے ساحل کے پاس اور اس کے آس پاس علاقے کو ہموار اور رہائش کے قابل بنانے کا منصوبہ چائنا کی ایک کمپنی (cophl)کو دیا گیا ہے جو کہ2047 تک یہ کام سرانجام دے گی۔ ساحل سمندر کے پاس کنٹینر ٹرمینل کو بنانے کا کام بھی یہی کمپنی سرانجام دے رہی ہے ۔

٭بنیادی ضروریات فراہم کرنے کا منصوبہ:
کسی ملک یا شہر کی خوش حالی کیلئے ضروری ہے کہ اس کے پاس تمام بنیادی ضروریات بہ آسانی میسر ہوں گوادر کو بنیادی ضروریات سے لیس کرنے کے لیے مختلف منصوبے تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ ان منصوبوں پر تقریباً32.55 ملین ڈالرز کی لاگت آچکی ہے۔

٭فریش واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ:
اس منصوبے میں پانی کے نظام کو مستحکم کرنا ہے خواہ وہ صاف پانی ہو یا گندا پانی

٭گوادر اسپتال:
یہ اسپتال ایک بلاک 50 بستروں پر مشتمل ہے۔ یہ اسپتال 68ایکڑ کی اراضی پر بنے گا۔

٭ٹرانسپورٹ انفرااسٹرکچر پروجیکٹس:
پاک چین اقتصادی راہ داری میں سڑکوں کو بہت اہمیت حاصل ہے اسی لئے پاکستان اور چین سڑکوں کی تعمیر میں دن رات مصروف ہیں اور صرف ایک نہیں ہر ایک روڈ جو اس کے راستے میں ہے۔ اس کو بہتر کیا جارہا ہے۔

گوادر میں صنعتیں لگانے کے لیے چینی کمپنیاں یہاں سرمایہ کاری کر رہی ہیں، جس سے گوادر مرکزی حیثیت اختیار کرنے والا ہے۔ گوادر میں ایک سب میرین لینڈنگ اسٹیشن بنایا جارہا ہے جسے سکھر سے منسلک کیا جائے گا، جہاں سے اسلام آباد اور پاکستان کے دیگر بڑے شہروں تک اسے وسعت دی جائے گی۔ اس کی بینڈوتھ بڑھنے سے ایچ ڈی ٹی وی ، ڈی ٹی ایم بی کی سہولیات میسر آئیں گی۔

اس کے علاوہ گوادر کے طویل ساحلی علاقے کو ایک مکمل تفریحی علاقے میں بدلا جائے گا اور اس کے لیے پُرآسائش کشتیوں کے لیے گودیوں کی تعمیر، کروز کے لیے بندرگاہ، سٹی پارکس، عوامی دل چسپی کے مقامات، تھیٹرز، گالف کورسز، ہوٹل اور پانی کے کھیل کے لیے مراکز بنائے جائیں گے۔ یہ علاقہ کیٹی بندر سے جیوانی تک ہوگا جو کہ ایرانی سرحد سے پہلے آخری مسکن ہے۔ گوادر میں بین الاقوامی سطح کا کروز کلب بنایا جائے گا جہاں سمندروں کی سیاحت کے شوقین افراد کو ایسے پرائیویٹ کمرے ملیں گے جن میں رہنے پر انہیں گمان گزرے گا کہ وہ سمندر میں رہائش پذیر ہیں اورماڑا کے لیے ایک الگ منصوبہ دیا گیا ہے جس میں علاقائی ثقافت کو نئے رنگ ڈھنگ سے سامنے لایا جائے گا۔

سی پیک کا محور گوادر ہے اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وہاں کے لوگ آج بھی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ گوادر کے لوگوں کو اپنے مستقبل کے حوالے سے خدشات لاحق ہونے کے باوجود انہوں نے منصوبے کے خلاف کوئی بات نہیں کی ہاں البتہ مختلف سیاسی جماعتوں کے تحفظات آج بھی برقرار ہیں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ژوب کے مقام پر سی پیک کے مغربی روٹ پر کام کا افتتاح کیا تھا تاہم اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا حکومت کو چاہیے کے وہ اس قومی منصوبے میں زیادہ سے زیادہ بلوچستان کے لوگوں کی شراکت کو یقینی بنائے، تاکہ ماضی میں سرزد ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ ہو اور صوبے کے عوام کو باور کرایا جاسکے کہ وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں۔

آج کی دنیا مقابلے اورعالم گیریت کی دنیا ہے جس میں وہ اقوام اور ممالک زندہ رہ سکتے ہیں اور ترقی کرسکتے ہیں جو عالمی تہذیب میں کچھ اضافہ کی اہلیت رکھتے ہوں، آج قوموں کی ترقی کا پیمانہ اور اشاریہ بدل چکا ہے۔ وہی قوم ترقی کی دوڑ میں شامل ہوسکتی ہے جو جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کا ہنر جانتی ہو اور اس میں مزید اضافہ کرسکتی ہو۔ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا نے گلوبل کلچر کا روپ دھارا ہے، اب تو دنیا ایک گھرکی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ظاہر ہے ایک گھر کے افراد ایک دوسرے سے سیکھیں گے بھی اور ایک دوسرے کے منفی اور مثبت اثرات بھی قبول کریں گے۔ جہاں تک پاکستان میں چینی کمپنیوں کے در آنے کا تعلق ہے تو یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاک چین تعلقات ابتدا سے مثالی اور دوستانہ رہے اور دونوں ملکوں نے اچھے ہمسایوں کی طرح ہر مشکل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔

چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے پاکستان میں مختلف اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ پاکستان کے بعض شہروں میں چینی ہوٹل اور چینی کھانے پہلے سے موجود تھے تاہم حالیہ چند برسوں میں ملک کے کونے کونے میں ان چیزوں کی فراوانی ہوگئی ہے، جس کے اثرات ہماری مقامی اور مشرقی طرز کی ہوٹلنگ اور خوراک پر پڑ رہے ہیں۔ تاہم چائینیز مصنوعات کی فراوانی میں دیگر عوامل کے ساتھ ایک اہم بات ان مصنوعات کی قیمتیں ہیں جو پاکستانی مصنوعات کے مقابل بہت کم ہیں، جس سے پاکستانی مصنوعات کی قدر وقیمت اور ان کی مانگ پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ چوں کہ چینی کچھوے اور مینڈک کا گوشت بھی شوق سے کھاتے ہیں جس کے باعث ہمارے ہاں ان مقامی آبی جانوروں کے شکار میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور مقامی لوگ ان آبی جانوروں کو پکڑ کر چینی باشندوں پر فروخت کردیتے ہیں، جس سے ان جانوروں کی نسل معدوم ہوتی جارہی ہے بلکہ اس کے منفی اثرات بھی پڑرہے ہیں، کیوں کہ یہ دونوں آبی حیات پانی میں رہتے ہوئے زہریلے مادے خوراک کی شکل میں جزوبدن بناتے ہوئے دیگر آبی حیات کے لیے فلٹریشن کا کام سرانجام دیتے ہیں۔

اسی طرح پاکستان میں باربرداری کے سب سے سستے ذریعے گدھے کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت سے ایک معاہدے کے تحت گدھے چین سپلائی کیے جائیں گے، جس سے اندیشہ ہے کہ اگر ملک میں گدھوں کی افزائش نسل مناسب طریقے سے نہ کی گئی تو ہم باربرداری کے اس سستے ترین ذریعے سے ہاتھ دھوبیھٹیں گے۔ چین والوں کو اپنی تہذیب ، ثقافت اور زبان بے حد عزیز ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب بھی بھی چین کے منصب دار کسی غیرملکی دورے پر جاتے ہیں وہ صرف چینی زبان میں ہی تقریر کرتے ہیں۔ اپنی بات سمجھانے کی غرض سے وہ نے اپنے ساتھ دیگر زبانوں کے ترجمان رکھتے ہیں۔

اسی تناظر میں پاکستان میں چینی زبان سیکھنے کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں لینگویج سینٹرز قائم ہوچکے ہیں اور پڑھے لکھے جوان سمجھتے ہیں کہ سی پیک منصوبے میں کام کاج اور ملازمت حاصل کرنے کے لیے اب انگریزی زبان سے زیادہ چینی زبان سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے اسی رجحان سے ہمارے سماج پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے، جس سے ہمارے قومی لباس، تہذیب و ثقافت ، رسم رواج اور اقدار میں بھی تبدیلی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ اب تو چینی زبان کو ہمارے ہاں تعلیمی نصاب میں بھی شامل کرنے کی تجویز آئی ہے اور اسے عملی جامہ پہنایا جارہا ہے۔ اگر چینی زبان تعلیمی نصاب کا حصہ بن گئی تو پھر اس کے علمی، تہذیبی، سماجی اور نفسیاتی اثرات سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟ لہذا اس سے ہمارے پورے سماجی نظام میں اتھل پتھل پیدا ہوگا۔

دوسری طرف ہمارا نظام تعلیم فرنگیوں کا چھوڑا ہوا وہ تر کہ ہے جس نے ہم سے ہمارا آپ تک چھین لیا ہے۔ ہم لاکھ کوشش کے باوجود اس طوق غلامی سے اپنا پیچھا نہ چھڑا سکے۔ فرنگیوں نے ہمیں خوب لوٹا اور امریکیوں نے تو ہماری ’’ کایا ‘‘ ہی پلٹ دی اور اب خیر سے ہمارا پیارا ہمسایہ ملک چین ہمیں اپنی آغوش میں لینے کے لیے بانہیں کھولے کھڑا ہے۔

یہ صد فی صد درست ہے کہ چین ہمارا ہمسایہ اور دوست ملک ہے، ہماری یہ ہمسائیگی و دوستی ہر آزمائش پر پوری اتری ہے، لیکن اب پوری دنیا نظریات کی بجائے سرمایہ دارانہ نظام کی پجاری بنتی جارہی ہے، جس میں جس کے ہاتھ میں زیادہ سرمایہ ہوگا، بازی وہی جیتے گا۔ اسی لیے تو دیگر طاقت ور ممالک کی طرح چین کو بھی شدت سے اس بات کا احساس ہے کہ امریکا کی حکم رانی کا خاتمہ صرف اسی طرح ممکن ہے اور چین دنیا کی حکم رانی کا تاج صرف اسی صورت پہن سکتا ہے کہ سرمائے کی اس جنگ میں اس کے پاس زیادہ سے زیادہ وسائل ہوں۔ عالمی سطح پر اثرورسوخ قائم رکھنے کے لیے یہ خواہش رکھنے والی قوموں کو معاشی طور پر نسبتاً کم زور سپاہیوں یعنی ممالک کی ضرورت ہوتی ہے، جو کم مراعات و سہولیات میں ہر حکم پر سینہ سپر ہوجاتے ہیں، کہیں اس مرتبہ پھر ہم ان سپاہیوں کا کردار تو نبھانے نہیں جارہے، جو کبھی امریکا تو کبھی برطانیہ یا کسی اور طاقت ور ملک کے لیے نبھاتے رہے ہیں۔

طے پایا ہے کہ پاکستان کی جانب سے سی پیک صنعتی زونز میں صنعتوں کے قیام کے لیے پاکستانی، چینی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یکساں خصوصی مراعات فراہم کی جائیں گی اور ان اقدامات کے تحت خصوصی اقتصادی زونز میں نئی صنعتوں کے قیام کے لیے خام مال اور پلانٹس و مشینری و دیگر آلات پر سرمایہ کاروں کو ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں سے استثنیٰ اور رعایتی قرضوں سمیت خصوصی مراعات دی جائیں گی اور ایسے اقدامات کیے جائیں کے جن کے نتیجے میں ان خصوصی زونز میں پاکستان کی مقامی اشیاء کی کھپت بڑھ سکے۔

مذکورہ رعایتی پیکیج میں خصوصی اقتصادی زونز کے لیے درآمدی مشینری اور پلانٹس پر تمام کسٹمز ڈیوٹیاں اور ٹیکسوں سے ایک مرتبہ چھوٹ شامل ہے۔ ان خصوصی اقتصادی زونز میں رشکئی خیبر پختونخوا، دھابیجی سندھ، بلوچستان میں بوستان انڈسٹریل زون، علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی فیصل آباد، گلگت میں مقپونداس، اسلام آباد میں آئی سی ٹی ماڈل، سندھ میں پورٹ قاسم، فاٹا اور میرپور آزاد کشمیر میں مہمند ماربل سٹی شامل ہیں۔ سی پیک صنعتی پارکس میں گیس بجلی پانی و دیگر سہولتیں اور کام کے دوران سہولتیں فراہم کی جائیں گی اور ہر اکنامک و صنعتی زون میں پاکستانی لیبر لاز لاگو ہوں گے اور ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل سینٹرز قائم کیے جائیں گے۔

لیکن کیا یہ طے کیا گیا ہے کہ ان صنعتی زونز میں کتنے پاکستانی برسرروزگار ہوں گے، کیوں کہ اس وقت پاکستان کاسب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے۔ کیا اس پر قابو پانے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی گئی ہے؟ کیا ہمارے پاس ایسے ہنرمند افراد اتنی تعداد میں ہیں جو ان زونز میں کام کرسکیں؟ ملک میں اس وقت کتنے ٹیکنیکل ادارے ہیں جو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تربیت فراہم کررہے ہیں؟ چین کی اس منصوبے میں اپنی افرادی قوت کھپانے کے باعث ہمارے کتنے لوگ برسرروزگار ہوں گے؟

یہ ایسے سوالات ہیں جن کے بارے میں ہمارے منصوبہ سازوں کو ضرور غوروفکر کرنا چاہیے مبادا ایسا نہ ہوکہ ایسٹ انڈیاکمپنی کی تاریخ دہرانی پڑجائے اور ہم کف افسوس ملتے رہ جائیں، کیوں کہ فرنگی تو سات سمندرپار سے آکر ہم پر حکم رانی کرنے لگے تھے لیکن چین کے لیے فرنگیوں کی جیسی مشکلات درپیش نہیں آئیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔