سائی بورگ کی تخلیق قریب آگئی

ندیم سبحان میو  اتوار 24 جون 2018
سائی بورگ کے تصور کو حقیقت کا رُوپ دینے کے لیے سائنس داں برادری برسوں سے تجربات میں مصروف ہے۔ فوٹو: فائل

سائی بورگ کے تصور کو حقیقت کا رُوپ دینے کے لیے سائنس داں برادری برسوں سے تجربات میں مصروف ہے۔ فوٹو: فائل

ٹرمینیٹر سمیت ہالی وڈ کی کئی فلموں میں ایسی مخلوق پیش کی گئی تھی جو بہ یک وقت انسان اور مشین تھی۔ اس مخلوق کا بنیادی ڈھانچا فولاد ، تاروں اور مختلف آلات سے بنا ہوا تھا جب کہ اوپر انسانی جلد تھی۔

جلد کے اوپر اور اس کے اندر خون سے بھری رگیں اسی طرح تھیں جیسی عام انسانوں کی ہوتی ہیں۔ بہ ظاہر یہ مخلوق بالکل انسان معلوم ہوتی تھی۔ ٹرمینیٹر کے علاوہ ’’سائی بورگ‘‘ نامی فلم میں بھی ایسے ہی کردار شامل تھے۔ انسان اور مشینی پُرزوں پر مشتمل اس مخلوق کو اصطلاحاً ’’سائی بورگ‘‘ ہی کہا جاتا ہے۔

سائی بورگ کے تصور کو حقیقت کا رُوپ دینے کے لیے سائنس داں برادری برسوں سے تجربات میں مصروف ہے۔ تاہم اس ضمن میں اہم پیش رفت حال ہی میں جاپانی سائنس دانوں کی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اس پیش رفت سے ’ سُپرہیومن سائی بورگ‘ کی تخلیق کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

سپرہیومن سائی بورگ انسان نما ایک ایسی مخلوق ہوگی جس کے جسم میں انسانی اعضا اور مشینی کُل پُرزے ایک دوسرے سے مربوط اور ہم آہنگ ہوں گے اور اسی طرح کام کریں گے جیسے ہمارے جسم کے تمام اعضا کرتے ہیں۔

سپرہیومن سائی بورگ کی تخلیق کی جانب جاپانی سائنس دانوں کی اہم پیش رفت یہ ہے کہ وہ عضلاتی ریشوں اور روبوٹ ڈھانچے کے درمیان ربط قائم کرنے اور انھیں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں کام یاب ہوگئے ہیں۔ ماضی میں ایسی تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئی تھیں یا پھر آہنی اور گوشت پوست کے عضلات کے درمیان عارضی تعلق قائم ہوپایا تھا، تاہم تازہ تجربے میں یہ تعلق مختصر سے طویل المدت ربط میں بدل دیا گیا۔

قبل ازیں کیے گئے تجربات کے لیے عضلات جانوروں سے حاصل کیے جاتے تھے۔ ٹوکیویونی ورسٹی کے انسٹیٹیوٹ برائے صنعتی تحقیق سے وابستہ پروفیسر یوآ موریموتو اور ان کی ٹیم نے نئی اپروچ اختیار کی۔ انھوں نے جانوروں سے عضلات حاصل کرنے کے بجائے نئے سرے سے عضلات اُگائے۔ ان کی یہ کوشش بارآور ثابت ہوئی اور وہ حسب منشا نتیجہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔

پروفیسر یوآ کے مطابق قبل ازیں کیے گئے تجربات کے دوران سب سے بڑی مشکل یہ پیش آتی رہی کہ وقت گزرنے کے ساتھ عضلات کمزور ہوکر سُکڑ جاتے تھے۔ سابقہ تجربات کی ناکامی کی کلیدی وجہ یہی تھی۔ نئی اپروچ سے اس کا سدباب ہوگیا۔ خود اُگائے گئے عضلات یا پٹھے زیادہ پائے دار اور مضبوط ثابت ہوئے اور تجربے کی کام یابی کی بنیاد بنے۔

عضلات اُگانے کے لیے محققین نے چوہوں سے حاصل کردہ خلیات خصوصی شیٹوں پر رکھے اور پھر یہ شیٹیں آہنی ڈھانچے پر منڈھ دی گئیں۔ دس ایام میں خلیے نموپاکر پٹھوں کی شکل اختیار کرنے لگ گئے تھے۔ عضلات کی مجموعی طوالت آٹھ ملی میٹر تھی اور یہ دس نیوٹن کی قوت کے ساتھ پھیلنے اور سکڑنے لگے تھے۔ عضلات ایک ہفتے سے زائد عرصے تک فعال اور اپنی اصل شکل میں رہے۔ یہ عرصہ سابقہ تجربات کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھا۔

محققین نے ان عضلات کے دو جوڑے تیار کیے تھے جنھیں روبوٹ میں بہ یک وقت لگایا گیا تھا مگر یہ مخالف سمتوں میں حرکت پذیر ہوتے تھے۔ یعنی ایک پھیلتا تھا تو دوسرا سکڑتا تھا۔ ہمارے جسموں میں بھی عضلات اسی طرح حرکت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہم اپنے بازو کو سیدھا کرتے یا موڑتے ہیں تو اس حرکت کے دوران کچھ عضلات پھیلتے اور کچھ سکڑتے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ کام یابی نہایت اہم ہے مگر اس کے بڑے پیمانے پر اطلاق کے لیے مزید دس برس درکار ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔