سنگاپور کا تعلیمی نظام اور پاکستان میں تعلیم کی زبوں حالی آخری قسط

جب تک ریاستی ترجیحات میں تعلیم سرفہرست نہ ہوگی، حالات میں سدھار خواب ہی رہے گا۔


زازے خان January 20, 2019
سنگاپور کا کامیاب تعلیمی ماڈل ہمارے ماہرینِ تعلیم کی راہنمائی کرسکتا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

کروڑوں بچوں کی تعلیم سے محرومی تشویشناک، مگر کیا غیر معیاری تعلیم اس مسئلہ کا حل ہے، یا خود ایک مسئلہ ہے؟ پاکستان میں تعلیم کے موضوع پر جس قدر تحقیق کی گئی، اخذ ہوا بچوں کی تعلیم سے دوری کی سب سے بڑی وجہ غیر معیاری تعلیم ہے۔ ناقص تعلیم والدین وریاست پر بے جا مالی بوجھ، بے روزگاری میں اضافہ، اور طبقاتی فرق کا باعث بن رہی ہے۔ ہم پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا ہمارا ریاستی تعلیمی نظام دور جدید کے تقاضے کماحقہ پورے کر رہا ہے؟ کیا ایسی تعلیم یافتہ نسل تیار ہو رہی ہے جو گلوبل ولیج کے تصورات کو سمجتھی اور درپیش چیلنجز کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال رہی ہو؟ کیا گلوبلائزیشن کے شدید ترین مسابقت والے اس دور میں ہم اپنی نسلِ نو کو مقابلہ کی فضا کے لیے تیار کررہے ہیں؟

جواب اگر تشفی بخش نہیں تو ہمارے پالیسی ساز اداروں کو ازسرنو سوچنا ہوگا، تنقیدی جائزہ لینا ہوگا۔ سنگاپور کا کامیاب تعلیمی ماڈل اس باب میں ہمارے ماہرین کی راہنمائی کرسکتا ہے۔

رائج مغربی تصور کے مطابق تکنیکی مضامین میں صلاحیت فقط چنیدہ طلبا کو حاصل ہوتی ہے، ہرایک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ سنگاپور کا تعلیمی نظام اس تصور کو رد کرتا ہے اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اگر تمام طلبا کو بغیر کسی تفریق کے سائنس و ریاضی کے مضامین میں ابتدائی سطح پر نگرانی میں رکھا جائے، انفرادی توجہ دی جائے تو ہر طالبعلم ان مضامین میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ یہ نظریہ ان آفاقی اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے جن کے تحت قدرت ہربچے کو ایک جیسی ذہنی استعداد ودیعت کرتی ہے۔ صلاحیتوں میں بہرکیف فرق ان عوامل کا نتیجہ ہوتا ہے جو والدین و اساتذہ کی تربیت، تعلیمی اور سماجی ماحول سے در آتا ہے۔

رپورٹ مرتب کرتے وقت امریکی تحقیق کار نے سنگاپور کے ایک اسکول کی جماعت ہشتم یعنی آٹھویں کلاس کا مشاہدہ کیا تو تاثرات کچھ یوں قلمبند کیے: ''درمیانے سائز کا کمرہ صاف شفاف، ضروری سازوسامان میز کرسیاں، سفید بورڈ، اور پروجیکڑ سے مزین تھا، جبکہ دیواروں پر کچھ سادہ ڈرائینگز آویزاں تھیں۔ سائنس کی کلاس کا آغاز ہوا تو معیار قابل تعریف تھا۔ بجلی کا سرکٹ بورڈ، جو ایک بڑی (LED) اسکرین سے منسلک تھا، کی اندرونی ساخت اور طریقہ کار سے متعلق پروگرامنگ سکھائی جا رہی تھی۔ پروگرامنگ کے کوڈز تبدیل ہوتے تو سرکٹ بورڈ پر روشنیوں کے رنگ بھی بدلتے۔ بچوں کی قابلیت کے بارے میں بات چلی تو انکشاف ہوا کہ گزشتہ سال اسی کلاس کے طلباء نے ایک خودکار ہاتھ تخلیق کیا، اور اس سال ربوٹک کار بنانے کا عزم ہے۔ مزید استفسار پر بتایا کہ یہ پروجیکٹ مختلف چھوٹے مراحل میں مکمل ہوگا۔ سرکٹ بورڈ کی یہ لائٹیں اسی کار میں نصب ہوں گی جو سگنلز ملنے پر مختلف روشنیاں خارج کریں گی۔ استاد کا یہ بھی کہنا تھا کہ بچے پروگرامنگ میں اس قدر شوق و آگاہی رکھتے ہیں کہ وہ خود سے ہی مختلف آئیڈیاز پر طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں۔''

رپورٹ کی ورق گردانی کرتے دفعتاً مجھے پاکستان میں تعلیمی ابتری سے متعلق ایک واقعہ یاد آیا۔ کچھ ہی روز قبل اپنی ایک عزیزہ جو راولپنڈی شہر میں واقع ایک قدرے معقول سرکاری اسکول میں میڑک کی طالبہ ہے، سے سائنس اور کیمپوٹر کے مضامین بابت پوچھا تو کہنے لگی کہ گزشتہ دو سالوں میں کبھی اسکول میں کیمپوٹر نہیں دیکھا، صرف درسی کتاب میں پڑھایا جاتا ہے۔ سائنس سبجیکٹ کی بھی سن لیں، جماعت نہم میں پچاس فیصدی بچیاں بورڈ کے امتحان میں فیل ہوئیں، وجہ ٹیچر کا دوران کلاس موبائل سے مشاغل، اور اپنے فرائض سے عدم دلچسپی تھی۔ اسے انفرادی معاملہ پر محمول نہ کریں، یہ پاکستان میں سرکاری تعلیمی اداروں کی مجموعی صورتحال کی منہ بولتی تصویر ہے۔ چونکہ تعلیم ریاستی ترجیح نہیں، تو استاد کی تربیت، اچھی بری کارکردگی پر سزا جزا کا بھی کوئی خاص تصور نہیں۔

سنگاپور کے کامیاب تعلیمی نظام سے یہ تصور ابھرتا ہے۔ ریاستی بجٹ کا شاید کثیر حصہ تعلیم کے لیے مختص ہے۔ ایسا ہرگز نہیں! ترقی یافتہ ممالک برطانیہ 6 فیصد اور سوئیڈن 8 فیصد کے برعکس سنگاپور تعلیم پر بجٹ کا محض 3 فیصد خرچ کرتا ہے۔ پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کے سپرد ہوچکا ہے۔ وفاقی حکومت نے بجٹ کا 6۔12 فیصد (جی ڈی پی کا تقریباً 3 فیصد)، جبکہ صوبائی حکومتوں نے 18۔2017 کے بجٹ میں تعلیم کے لیے پنجاب 18 فیصد، سندھ 19 فیصد، کے پی 28 فیصد اور بلوچستان حکومت نے 17 فیصد مختص کیا۔ ریاست پاکستان دستیاب وسائل میں اپنی مقدور بھر کوشش کرتی ہے کہ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے۔ تو بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ تعلیم کی صورتحال اس قدر دگرگوں کیوں ہے؟ جواب ہے ''بری گورننس'' !

تعلیم کے لیے مختص بجٹ کا 85 فیصد حصہ اساتذہ کی تنخواہوں پرخرچ ہوتا ہے۔ استاد بلا تفریق کسی بھی سماج کا سب سے قابل اور تعلیم یافتہ طبقہ خیال کیا جاتا ہے۔ جس دور میں وسائل کمیاب اور تعلیم دیگر کاروبار کی طرح نفع بخش صنعت نہ تھی، درختوں کے سائے میں ٹاٹوں پر تعلیم حاصل کرنے والے اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہوئے۔ وجہ تعلیم معیاری تھی۔ تو کیا استاد بھی مادیت پرستی کا شکار ہوگیا؟ عمومی راۓ یہی ہے کہ وہ اپنے شعبہ کے ساتھ کماحقہ انصاف نہیں کر پا رہے۔ واضح رہے، یہاں استثنائی صورتحال کی نہیں بلکہایک اکثریتی رجحان کا ذکر ہو رہا ہے۔

2015 ء میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ''اوسلو سربراہی کانفرنس برائے تعلیم و ترقی'' میں پاکستان کا شمار تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ترین ممالک میں کیا گیا جہاں کروڑوں بچے جدید دور میں بھی تعلیم سے محروم ہیں۔ یو این کی ہی ایک رپورٹ کے مطابق 30 فیصد بچے ''ڈراپ آوٹ '' والوں یعنی کچھ سال پڑھنے کے بعد تعلیمی سلسلہ موقوف کر دینے والوں کی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 59 فیصد لڑکیاں، جبکہ 49 فیصد لڑکے پرائمری کے بعد تعلیم کا سلسلہ ترک کر دیتے ہیں۔ سندھ میں معیارِ تعلیم کے بارے میں ایک سروے کیا گیا تو نتائج ہولناک تھے۔ پرائمری اسکول کی پانچ سالہ پڑھائی کے باوجود 30 فیصد بچے اردو و سندھی کی ایک سطر، اور 70 فیصد تو انگریزی زبان کے حروف تہجی پڑھنے سے قاصر تھے۔ تعلیمی گراوٹ کی وجوہات میں اساتذہ کی سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں، غیرحاضری اور شعبہ تعلیم کے لیے ناموزوں ہونا پایا گیا۔ پاکستان جو اپنے ہمسایہ ممالک سے پہلے ہی تعلیمی دوڑ میں پیچھے ہے، غیرمعیاری تعلیم کے باعث یہ شرح مزید بڑھ رہی ہے۔

پاکستان اگر اپنے دائمی امراض غربت، بےروزگاری اور معاشی تفاوت سے چھٹکارا چاہتا ہے تو واحد حل موثر تعلیمی نظام ہے۔ جب تک ریاستی ترجیحات میں تعلیم سرفہرست نہ ہوگی، حالات میں سدھار خواب ہی رہے گا۔ سنگاپور کا تعلیمی نظام ہمارے پالیسی ساز اداروں و افراد کو دعوت فکر دے رہا ہے کہ اگر سماج کی مجموعی بہبود، معاشی خوشحالی اور پائیدار ترقی مطمع نظر ہے تو اپنی توانائی، وسائل اور ترجیحات شعبہ تعلیم کی بہتری پر مرکوز کرنا ہوں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں