کراچی اپنے گمشدہ تشخص کی تلاش میں

شہر قائد کو اس کا تابناک ماضی واپس دلانے کے لیے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے


مچھیروں کی بستی سے عروس البلاد بننے تک کراچی نے طویل سفر طے کیا۔(فوٹو: انٹرنیٹ)

KABUL: کہتے ہیں کہ ہندوستان کے پانچ سو شہر اجڑے تھے تو سمندر کے کنارے شہر کراچی بسا تھا۔ مچھیروں کی بستی سے عروس البلاد بننے تک کراچی نے ایک طویل سفر طے کیا۔ کراچی ملک کے ہر کونے سے آنے والوں کے لیے ''ماں'' کا کردار ادا کرتا رہا۔ لوگ آتے گئے اور اس کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے رہے۔ جب سارا ملک سوتا تھا تو اس وقت کراچی کی راتیں جاگتی تھیں۔ ہر رنگ، نسل اور زبان بولنے والے ایک دوسرے کے کاندھے سے کاندھا ملائے اس شہر کی ترقی کے لیے کوشاں تھے۔ کسی کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ دوسرا کون سی زبان بولتا ہے، اس کا مذہب یا مسلک کیا ہے۔ یہاں کے ریائشی توانا سیاسی شعور رکھتے تھے۔ انہیں اپنے حقوق سے مکمل طور پر آگاہی حاصل تھی۔ کراچی کا علاقہ لیاقت آباد سیاسی تحریکوں کا مرکز ہوتا تھا۔ کہا جانے لگا تھا کہ لیاقت آباد سے اٹھنے والی تحریکوں کے سامنے حکمران بے بس ہیں۔

چینی کی قیمت میں صرف 25 پیسہ اضافہ کرنے پر یہاں سے وہ تحریک اٹھی جو ایک آمر کو اپنے ساتھ لے گئی۔ دور ایوبی میں چینی کی قیمت میں 25 پیسے فی کلو اضافے پر لیاقت آباد سے اٹھنے والی تحریک نے حکومت کو گھنٹے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ پھر شومئی قسمت ملٹری اور سول بیوروکریسی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آمرانہ اقدامات کے تحفظ اور اپنے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کا توڑ کرنے کے لیے کراچی کو ملک کی خلافت سے علیحدہ کرنے کا سنگدلانہ فیصلہ کیا۔ کہا جانے لگا کہ لیاقت آباد سے اٹھنے والی قومی تحریکوں کے سامنے موجودہ حکمران اور نظام بے بس ہے، جیسے تحریک اٹھتی حکومتیں تبدیل ہوجاتیں۔ فوجی حکومت کے دور میں دارالحکومت کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کے اعلان پر تیزی سے عملدرآمد شروع کردیا گیا اور آمرحکمرانوں نے اسی میں عافیت جانی کہ کراچی کو قومی قیادت سے محروم کردیا جائے۔

70 کی دہائی میں اس شہر کی قیادت مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور احمد، محمود اعظم فاروقی، پروفیسر این ڈی خان، پروفیسر شاہ فرید الحق، عبدالستار گبول جیسے مدبر سیاستدانوں کے ہاتھوں میں تھی۔ 70 کے الیکشن کے بعد وجود میں آنے والی اسمبلی میں کراچی سمیت ملک بھر سے اپوزیشن ارکان کی تعداد 13 تھی، جس نے اس وقت کی حکومت کو ناکوں چنے چبوادیے اور سوشلزم کے نعرے پر برسراقتدار آنے والے ذوالفقار علی بھٹو جمعہ کی چھٹی اورشراب پر پابندی جیسے اقدامات کرنے پرمجبور ہوگئے۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا متفقہ فیصلہ بھی اسی ایوان نے کیا اور ان فیصلوں میں کراچی سے تعلق رکھنے والے مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور احمد، محمود اعظم فاروقی سمیت دیگر کا کلیدی کردار تھا۔

شہر قائد سے دینی جماعتوں کے کردار کو ختم کرنے کے لیے منظم منصوبہ بندی کی گئی اور 1980 کے بعد عروس البلاد کراچی کو اندھیروں میں دھکیلنے کے لیے زبان اور نسل کی بنیاد پر نفرتوں کی فصیل کھڑی کردی گئی۔ 1985 میں سرسید کالج کی ایک طالبہ بشریٰ زیدی کے ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد اس شہر کی سیاست کا رنگ ہی بدل گیا۔ ہڑتالیں، جلاؤ گھیراؤ اور قتل و غارت کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ 30 سال تک جاری رہا۔



فلاحی تنظیموں کی ایمبولینسیں دن رات لاشیں اٹھانے کا کام سرانجام دینے لگیں۔ حکیم محمد سعید، مولانا یوسف لدھیانوی، مفتی نظام الدین شامزئی، علامہ حسن ترابی، عظیم احمد طارق، عبدالرازق خان، بدر اقبال، خالد بن ولید، سینیٹر محسن صدیقی، ڈاکٹرنشاط ملک، سید محمد اسلم، زہیر اکرم ندیم، ڈاکٹر پرویز محمود، اسلم مجاہد، ڈاکٹر اطہرقریشی سمیت سیکڑوں سیاسی و سماجی رہنماؤں، وکلا، سول سوسائٹی کے ارکان اور علما کرام کو چن چن کر ٹارگٹ کیا گیا، ہزاروں بے گناہ شہریوں کو قتل اور ان کی املاک کو نذر آتش کردیا گیا۔



ایک وقت میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کراچی کا کوئی ولی وارث نہیں، وہ شہر جو محبت کی زبان بولتا تھا وہاں نفرت نے اپنے پنجے گاڑ لیے۔ جس شہر کی راتیں جاگتی تھیں وہاں کی شامیں بھی ویران ہوگئیں۔ صبح گھر سے نکلنے والوں کو شام گھروں تک صحیح سلامت واپسی کی کوئی ضمانت نہیں تھی۔ وہ کون سی مافیا تھی جو اس شہر میں موجود نہ تھی۔ بھتہ خوری سے لے کر چائنہ کٹنگ تک ایسے نت نئے جرائم اس شہر میں متعارف ہوئے کہ سننے والے بھی حیران رہ گئے۔ ارباب اختیار کیا سوئے اس شہر کی قسمت ہی سوگئی۔ کوئی اس شہر کے درد کا درماں بننے کو تیار نہیں تھا۔



تین دہائیوں کے دوران ہزاروں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ کوئی ذمے داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس شہر بے اماں کی ایک فیکٹری میں سیکڑوں مزدوروں کو زندہ جلایا گیا اور اسی شہر کے نشتر پارک میں میلاد مصطفی ﷺ کے جلسے میں درود پڑھنے والے بارود کا شکار ہوگئے۔ اس سانحہ میں حافظ تقی، حاجی حنیف بلو، سنی تحریک کے اکرم قادری، افتخار بھٹی سمیت درجنوں مذہبی رہنما اور کارکن شہید ہوئے۔

سانحہ 12 مئی کو بھی شہری کبھی نہیں بھلا سکیں گے۔ اس دن کراچی کی سڑکوں پر خون کی وہ ہولی کھیلی گئی جس کو سوچ کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہاں طاہر پلازہ نامی عمارت میں وکیلوں کو بھی زندہ جلایا گیا۔ الغرض وہ کون سا ظلم تھا جو اس شہر میں رہنے والوں کے ساتھ نہیں کیا گیا۔



کراچی ملک کی تہذیب و ثقافت میں اپنی مثال آپ تھا۔ یہاں ایک دوسرے کو صاحب کہہ کر پکارنے کا چلن تھا۔ لوگ ایک دوسرے کو صدیقی صاحب، قریشی صاحب، فاروقی صاحب، جعفری صاحب، زیدی صاحب اور دیگر مہذب ناموں سے مخاطب کرتے تھے لیکن جب اس شہر پر جہالت اور دہشت کے سائے چھائے تو القابات کانے، لولے، لنگڑے، کن کٹے، دادا، فیضو، لاڈلہ، بھالو بن گئے۔ اس طرح شہر کا تشخص ہی بدل گیا۔

شہر کو جرائم پیشہ عناصر کے چنگل سے چھڑانے کے لیے یہاں متعدد بار آپریشن بھی کیے گئے۔ 1992 کا فوجی آپریشن اور 1995 میں بے نظیر کے دور حکومت میں ہونے والے نصیر اللہ بابر آپریشن کے ذریعے شہر کی روشنیاں بحال کرانے کی کوششیں کی گئیں لیکن یہ سب سیاسی مصلحت کا شکار ہوگئیں۔ میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں نے کراچی میں بدامنی کا ذمے دار ایم کیو ایم کو ٹھہرایا، لیکن سیاسی مجبوریوں کے باعث ان کو اپنی حکومتوں میں شامل کرتے رہے۔

2008 سے 2012 تک کا عرصہ کراچی کے لیے انتہائی کٹھن تھا۔ تشدد زدہ لاشیں ملتی رہیں، لوگوں کو بسوں سے اتارکر ان کے شناختی کارڈز چیک کرکے قتل کیا گیا اور اس شہر نے وہ منظر بھی دیکھا جب ایک دن میں مرنے والوں کی تعداد 100 سے بھی تجاوز کرگئی۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ شہری ایک دوسرے سے معلوم کرتے تھے کہ آج کیا ''اسکور'' رہا۔

2013 میں ہونے والے انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) برسراقتدار آئی اور اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر کراچی کو بدامنی سے پاک کرنے کے لیے آپریشن کا فیصلہ کیا۔ خوش آئند بات یہ تھی کہ اس مرتبہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حکمت عملی ماضی کے بالکل برعکس تھی۔ انہوں نے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر شہر میں قیام امن کے لیے اقدامات کیے۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے آپ بے شک لاکھ اختلاف کریں لیکن وہ اس آپریشن کی پشت پر کسی چٹان کی طرح کھڑے رہے اور کسی سیاسی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیا۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد کراچی کے شہریوں نے سکھ کا سانس لیا۔

تاہم اب بھی شہر قائد کو اس کا تابناک ماضی واپس دلانے کے لیے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

کراچی میں مستقل قیام امن ہر کسی کا خواب ہے، جس کے لیے موثر پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی کے لیے ٹھوس شواہد اور انٹیلی جنس بنیاد پر ٹارگٹڈ آپریشن کیے جائیں۔ شہر میں کچی آبادیوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ ان آبادیوں میں جرائم پیشہ عناصر آسانی سے روپوش ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ کچی آبادیوں کو ریگولرائز کیا جائے اور مزید کچی آبادیوں کو قائم نہ ہونے دیا جائے۔ سیاست کو جرم سے الگ کیا جائے اور اگر کسی سیاسی جماعت پر یہ شائبہ بھی ہو کہ وہ جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کررہی ہے تو اسے کالعدم قرار دیا جائے۔ لسانیت کے جن کو بوتل میں بند کرنے کے لیے ملازمتیں میرٹ کی بنیاد پر فراہم کی جائیں اور کہیں سے ایسا تاثر نہ دیا جائے، جس سے کراچی کے نوجوانوں کو حق تلفی کا احساس ہو۔ وفاقی اور صوبائی بجٹ میں شہر کے لیے خصوصی فنڈز مختص کیے جائیں۔

یہ وہ اقدامات ہیں جن پر اگر سنجیدگی سے عمل کیا جائے تو شہر قائد کو اس کا ماضی لوٹانے میں چنداں دشواری پیش نہیں آئے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں