اولپمک مقابلوں میں افغانستان کی خواتین کھلاڑیوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے آئی او سی کی رکن سمیرا اصغری میدان عمل میں آگئیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان کی انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی (IOC) کی رکن سمیرا اصغری نے طالبان حکام کے ساتھ جاری مذاکرات کو خوش آئند قرار دیا۔
انھوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات افغانستان کی خواتین کے بنیادی حقوق سے متعلق کسی مثبت تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں۔
سمیرا اصغری نے اس بات پر زور دیا کہ طالبان کو عالمی قبولیت چاہیے تو خواتین کے تعلیم اور کھیل کے حقوق تسلیم کرنا ہوں گے۔
انھوں نے مزید کہا کہ طالبان کو یہ حقیقت قبول کرنا ہوگی کہ عالمی سطح پر قبولیت اسی وقت ممکن ہے جب وہ خواتین کو تعلیم اور کھیل کے بنیادی حقوق دینے پر آمادہ ہوں۔
سمیرا اصفری کے بقول اگر پرائمری اسکولوں میں کھیلوں کی سرگرمیوں جیسی چھوٹی پیش رفت بھی ممکن ہو تو اسے ضرور اپنانا چاہیے۔
انھوں نے مزید کہا اس کا مطلب طالبان کی پابندیوں کو قبول کرنا نہیں ہوگا بلکہ یہ افغانستان کی لڑکیوں اور خواتین کو تنہا نہ چھوڑنے کی ایک کوشش ضرور ہے۔
سمیرا اصغر نے یاد دلایا کہ طالبان کے 1996 سے 2001 تک کے پہلے دورِ حکومت میں تعلیم سے محرومی نے ایک پوری نسل کو متاثر کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جب میں 12 سال کی تھی تو ایک 20 سالہ لڑکی میری کلاس میں بیٹھی تھی کیونکہ وہ پہلے تعلیم حاصل نہیں کرسکی تھی۔ وہ کھوئی ہوئی نسل کا حصہ تھی۔ میں چاہتی ہوں کہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔
سمیرا اصغری نے کہا کہ خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا خطرناک ضرور ہے مگر میں رابطے اور بات چیت پر یقین رکھتی ہوں۔ اس وقت طالبان افغانستان کی زمینی حقیقت ہیں اور ہم وقت ضائع نہیں کرسکتے۔
انھوں نے تسلیم کیا کہ ان حالات میں افغان خواتین کھلاڑیوں کی آواز بننا ایک مشکل ذمہ داری ہے مگر وہ خوفزدہ ہوئے بغیر اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ افغانستان سے تعلق رکھنے والی تمام ہی خواتین کھلاڑی غیر ملکی فوجیوں کے انخلا اور طالبان کی حکومت کے آتے ہی بیرون ملک منتقل ہوگئی تھیں۔
اس لیے افغان خواتین کی ایتھلیٹ، فٹبال اور دیگر کی ٹیموں کو تشکیل دینا اس وقت ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
البتہ یورپ اور آسٹریلیا میں رہنے والی کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم افغان وویمن یونائیٹڈ نے حال ہی میں فیفا کے عالمی مقابلے میں شرکت کی ہے۔
سمیرا اصغری کا کہنا ہے کہ یہ بیرونِ ملک کھلاڑیوں کے لیے پہلا قدم ہے۔ مجھے امید ہے فِیفا بھی طالبان کے ساتھ IOC کی بات چیت میں ہم آہنگی پیدا کرے گی۔