روزے کی فرضیت و فضیلت

رمضان کے روزوں کی جزا کو بے حد قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف منسوب کیا کہ اس کی جزا میں ہوں۔ فوٹو: فائل

رمضان کے روزوں کی جزا کو بے حد قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف منسوب کیا کہ اس کی جزا میں ہوں۔ فوٹو: فائل

ثقہ روایت کے مطابق روزے کی فرضیت کا حکم دوسری صدی ہجری میں تحویلِ کعبہ کے واقعہ سے دس روز بعد ماہِ شعبان میں نازل ہوا۔ آیت روزہ شعبان کے مہینے میں نازل ہوئی، جس میں رمضان المبارک کو ماہ صیام قرار دیتے ہوئے باری تعالی نے اہل ایمان سے ارشاد فرمایا: ’’پس تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے۔‘‘ (البقرۃ)

اس آیہ مبارکہ میں روزہ رکھنے کا حکم ہر اس صاحبِ ایمان کو دیا گیا ہے، جو اپنی زندگی میں اس ماہ مقدس کو پا لے۔ روزے کی فرضیت کا منکر کافر اور اس کا تارک گناہ گار ہے۔ روزہ انسان میں تقویٰ پیدا کرتا ہے۔

ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں کہ رمضان رمضاء سے مشتق ہے۔ اس کے معنی سخت گرم زمین ہے، لہذا رمض کے معنی سخت گرم ہوا۔ رمضان کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ جب عربوں نے پرانی لغت سے مہینوں کے نام منتقل کیے تو انہیں اوقات اور زمانوں کے ساتھ موسوم کر دیا، جن میں و ہ اس وقت واقع تھے۔ اتفاقاً رمضان ان دنوں سخت گرمی کے موسم میں آیا تھا، اس لیے اس کا نام رمضان رکھ دیا گیا۔ (مرقاۃ المفاتیح ) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رمضان کا لفظ رمض الصائم سے لیا گیا ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ روزہ دار کے پیٹ کی گرمی شدید ہوگئی۔ رمضان کو رمضان کا نام اس لیے دیا گیا کہ وہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔ (لسان العرب )

حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘ (صحیح البخاری)

احتساب کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے طلبِ ثواب کے لیے یا اس کے اخلاص کی وجہ سے روزہ رکھا اور روزے کی حالت میں صبر کا مظاہرہ اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہا۔ جو آدمی ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھتا ہے اور رمضان المبارک کی راتوں میں قیام کرتا ہے تو اس کے تمام صغائر معاف کردیے جاتے ہیں اور کبائر کی معافی کی امید رکھی جاسکتی ہے یا کبائر کا بوجھ ہلکا بھی ہوسکتا ہے۔

حضور نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں، ایک افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔‘‘ (صحیح البخاری)

ایک خوشی ہر روزے دار کو اس وقت میسر ہوتی ہے‘ جب وہ کڑے دن کی بھوک اور پیاس کے بعد لذتِ طعام سے آسودہ ہوتا ہے۔ دوسری خوشی حضور نبی کریم ﷺ کے ارشاد کے مطابق اس وقت نصیب ہوگی جب عالمِ اخروی میں اسے دیدارِ الٰہی کی نعمت ِ عظمیٰ سے نوازا جائے گا۔

حضرت ابوہریرۃؓ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ اس سے مستثنٰی ہے‘ کیوں کہ وہ میرے لیے ہے۔ اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)

اس حدیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بعض اعمال کا ثواب صدق نیّت اور اخلاص کی وجہ سے دس گنا سے بڑھ کر سات سو گنا تک بل کہ بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ ثواب ہوتا ہے‘ لیکن روزے کا ثواب بے حد اور بے اندازہ ہے۔ یہ کسی ناپ تول اور حساب کا محتاج نہیں ہے۔ اس کی مقدار اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔

روزے کی اس قدر فضیلت کے درج ذیل اسباب بیان کیے گئے ہیں۔ روزہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتا ہے‘ اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ جب کہ دوسری عبادتوں کا یہ حال نہیں ہے‘ کیوں کہ ان کا حال لوگوں کو معلوم ہوسکتا ہے۔ اس لحاظ سے روزہ خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہے۔ روزے میں نفس کشی‘ مشقت اور جسم کا نقصان ہوتا ہے۔ اس میں بھوک‘ پیاس اور دیگر خواہشاتِ نفسانی پر صبر کرنا پڑتا ہے‘ جب کہ دوسری عبادتوں میں اس قدرت مشقت اور نفس کشی نہیں ہے۔ روزے میں ریاکاری کا عمل دخل نہیں ہوتا‘ جب کہ دوسری ظاہری عبادات میں روزہ‘ حج‘ زکوۃ‘ صدقہ میں ریاکاری کا شائبہ ہوسکتا ہے۔ اس کے ثواب کی مقدار کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہے‘ جب کہ باقی عبادات کے ثواب کو رب تعالیٰ نے مخلوق پر ظاہر کردیا ہے۔

اس لیے یہ عبادت اللہ کے لیے مخصوص ہے۔ باقی تمام عبادات سے تو حقوق العباد کی کوتاہیوں کی تلافی ہوگی‘ لیکن روزہ اس مقصد کے لیے میدانِ حشر میں خرچ نہیں کیا جائے گا۔ روزہ ایسی عبادت ہے‘ جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ روزہ کی اضافت اللہ کی طرف شرف اور عظمت کے لیے ہے جیسا کہ بیت اللہ کی اضافت محض تعظیم و شرف کے لیے ہے‘ ورنہ سارے گھر اللہ ہی کے ہیں۔ روزہ دار اپنے اندر ملائکہ کی صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ اس لیے وہ اللہ کو محبوب ہے۔ صبر جزا کی حد نہیں ہے‘ اس لیے رمضان کے روزوں کی جزا کو بے حد قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف منسوب کیا کہ اس کی جزا میں ہوں۔

حضرت ابوہریرۃ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جب رمضان داخل ہوجاتا ہے تو آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاری)

آسمان کے دروازے کھلنا کنایہ ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ رحمت خداوندی پے در پے نازل ہوتی ہے اور نیک اعمال کسی رکاوٹ کے بغیر اوپر چڑھتے ہیں۔ اور دعا قبول ہوتی ہے اور جنت کے دروازوں کا کھولا جانا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ رمضان میں نیک اعمال کی توفیق ہوتی ہے جو حصولِ جنت کا باعث ہیں۔

اور دوزخ کے دروازوں کے بند کیے جانے سے مراد یہ ہے کہ روزہ دار کبائر سے بچتا ہے اور روزے کی برکت سے اس کے صغیرہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ شیطانوں کا جکڑ دیا جانا اس امر سے کنایہ ہے کہ شیطان لوگوں کو بہکانے سے باز رہتے ہیں اور اہل ایمان ان کے وسوسے قبول نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کی وجہ سے حیوانی قوت جو غضب اور شہوت کی جڑ ہے‘ جاتی رہتی ہے اور غضب اور شہوت ہی بڑے گناہوں کا باعث ہوتے ہیں۔ اور قوت ِ عقلیہ جو طاعت اور نیکیوں کا باعث ہے‘ روزے کی وجہ سے قوی ہوتی ہے‘ جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ رمضان میں اور دنوں کی نسبت گناہ کم ہوتے ہیں اور عبادت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا یہ معنی بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ رمضان المبارک کے روحانی ماحول میں چوں کہ روزہ دار نیکیوں میں مشغول اور برائیوں سے دور ہوجاتے ہیں۔ لہذا وہ شیطانی اغواء اور وساوس کے شر سے محفوظ رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔