پاکستان اور بھارت کے امریکا سے بدلتے تعلقات

مزمل سہروردی  جمعرات 4 جولائی 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

امریکا کی جانب سے بلوچستان لبریشن آرمی کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا امریکا کی پاکستان کے حوالہ سے پالیسی میں تبدیلی کا ثبوت ہے۔ امریکا میں وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکا کی تیاری شروع ہو گئی ہے۔ اور بلوچستان لبریشن آرمی کو دہشت گرد قرار دینا اس سلسلہ کی ہی کڑی ہے۔ ایک طرف امریکا کی پاکستان اور بھارت کے حوالہ سے پالیسی میں تبدیلی نظر آرہی ہے۔ امریکا میں بھارت کے لیے محبت میں اور پاکستان کے لیے نفرت میں کمی نظر آرہی ہے۔

امریکا میں صدارتی انتخابات کی دوڑ شروع ہو چکی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مدت کے لیے انتخابی مہم شروع کر چکے ہیں۔ جب کہ اس بار ڈیموکریٹس بھی انھیں بھر پور طریقہ سے چیلنج کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھارتی انتخابات سے مرعوب ہو گئے ہیں۔ وہ مودی کی جیت کے سحر میں مبتلا ہو گئے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ وہ بھی مودی کی طرح امریکا میں ایک خاص جنگی ماحول بنا اکر اگلا صدارتی انتخاب جیتنا چاہتے ہیں۔ اس لیے امریکا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ چار جولائی امریکا کے یوم آزادی کے موقع پر ٹرمپ کی خواہش پر فوجی پریڈ منعقد کی جا رہی ہے۔ اس پریڈ میں امریکا کی فوجی طاقت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ ٹینک جنگی جہاز عوام کے سامنے مظاہرہ کریں گے۔

امریکا کی تاریخ میں ایسی فوجی پریڈ کا کوئی رواج نہیں ہے۔  پینٹاگون میں بھی اس کو پسند نہیں کیا جا رہا اور اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ واشنگٹن کی مقامی حکومت نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا۔ اس پریڈ کے اخراجات پر بھی سوال اٹھائے گئے کہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے اس طرح کی پریڈ کا کوئی جواز نہیں ہے۔ لیکن ٹرمپ بضد رہے۔ اور اب ان کی ضد کے آگے سب کو سرنگوں ہونا پڑا ہے۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ پر یڈ ٹرمپ کی سیاسی تاریخ کی بہت بڑی غلطی ہے اور امریکی ووٹر اس سے ناراض ہو گا۔ لیکن دوسری رائے یہ ہے کہ ٹرمپ امریکا میں ایک خاص ماحول بنا رہے ہیں۔ جس سے وہ اپنے کم پڑھے لکھے سفید فام ووٹر کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ گزشتہ انتخابات میں بھی ٹرمپ کم پڑھے لکھے سفید فام ووٹر کی وجہ سے ہی جیتے تھے۔ ٹرمپ ایک غیر روایتی سیاستدان ہیں۔ اور یہ پریڈ ان کے ووٹر کے مزاج کے عین مطابق ہے۔ ان کا ووٹر امریکا کی برتری اور طاقت کے مظاہرہ کو پسند کرتا ہے۔

جب امریکا بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات بنا رہا تھا تب بھارت کو خوش کرنے کے لیے حافظ سعید اور مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا تھا۔ لیکن آج بھارت اور امریکا کے درمیان بھی تجارتی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اس لیے اب بلوچستان لبریشن آرمی کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ بھارت کی ایک بہت بڑی ناکامی ہے۔

امریکا بھارت سے ناراض کیوں ہے اس کی وجہ بھی افغانستان ہے۔ امریکا افغانستان کی وجہ سے پاکستان سے خوش ہے۔ امریکا کو بھارت سے گلہ ہے کہ امریکا نے بھارت کو افغانستان میں مکمل طور پر کھل کر کھیلنے کی اجازت دی۔ بھارت نے افغانستان سے پاکستان کے خلاف بھی اپنی گیم کھیلی۔ بلوچستان لبریشن آرمی کی گیم بھی وہیں سے کھیلی جا رہی تھی۔ امریکا کا خیال تھا کہ بھارت اس سب کے جواب میں افغانستان میں بھارت کی مدد کرے گا۔

بھارت کا اب افغانستان میں اثر و رسوخ کم ہوتا جائے گا۔ افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ بھارتی سفارتخانے نے کئی سال جو کھیل کھیلا اب اس کو امریکی آشیر باد ختم ہو گئی ہے۔ اب بھارت افغانستان کو پاکستان کے خلاف لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال نہیں کر سکے گا۔ افغان صدر اشرف غنی کا حالیہ دورہ پاکستان بھی اس بات کا اشارہ ہے۔ اشرف غنی کو بھی امریکی پیغام مل چکا ہے۔ ورنہ یہ وہی اشرف غنی ہیں جو پاکستان کے خلاف نفرت کا اظہار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اب پی ٹی ایم جیسی دیگر تنظیموں کا کھیل بھی ختم ہوتا جائے گا۔

واشنگٹن میں یہ رائے ہے کہ بھارت کو اپنی فوجیں افغانستان میں بھیجنی چاہیے تھیں لیکن بھارت نے انکار کر دیا ۔ جس کی وجہ سے امریکا کی بھارت کے حوالہ سے  پالیسی تبدیل ہوئی ہے۔ اب واشنگٹن میں بھارت کے لیے وہ ماحول نہیں ہے جو ایک سال پہلے تھا۔ اب پاکستان کی بات ہو رہی ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان جہاں برف پگھل گئی ہے۔ وہاں توقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ امریکا کے پاس پاکستان کے لیے افغانستان میں ڈومو ر کی ایک لمبی لسٹ ہے۔ طالبان سے مذاکرات اور معاہدہ تو صرف آغاز ہے۔

امریکا افغانستان سے انخلا چاہتا ہے۔ ٹرمپ اپنے صدارتی انتخاب سے پہلے یہ انخلا چاہتے ہیں۔ وہ امریکی فوجیں واپس امریکا میں لانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ وہ افغانستان میں فوجی اڈے بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ٹرمپ کو پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے۔ طالبان کی مدد کی ضرورت ہے۔ طالبان کو امریکی اڈوں کو قبول کرنا ہوگا۔ یہ آسان نہیں ہے۔ لیکن یہی حقیقت ہے۔ پاکستان معاشی طور پر ایسے بھنور میں پھنس چکا ہے کہ پاکستان کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے ذریعے امریکا نے پاکستان کو معاشی طور پر دبوچا ہوا ہے۔ اس لیے ہم امریکی اشاروں پر ناچنے پر مجبور ہیں۔ لیکن کیا اس کھیل میں ہم چین کو ناراض کر لیں گے۔

ایک سوال ذہن میں ہے کہ پاکستان کو کیا ملے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ براہ راست امریکا سے کچھ نہیں ملے گا۔ عربوں سے جو مل رہا ہے وہ کوئی پاکستان کی سفارتی کامیابی نہیں ہے بلکہ امریکی اشارہ ہے۔ سعودی عرب سے جولائی سے ادھاری تیل کی سہولت امریکی اشارہ ہے۔ قطر اور متحدہ عرب امارات سے سرمایہ کاری بھی امریکی اشارہ ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ خود پاکستان کو کچھ دینے کے موڈ میں نہیں ہے۔ اس لیے امریکا سے کچھ امید رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس اچھے تعلقات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔