ایک ’’آئی المفانہ تجویز‘‘

سعد اللہ جان برق  جمعرات 8 اگست 2019
barq@email.com

[email protected]

جب حکومت ہمارے لیے اتنا کچھ بلکہ اتنے کچھ کرتی رہتی ہے یہاں وہاں اپنے سو چھیدوں والی ہی سہی جھولی پھیلائے رہتی ہے۔اور آئی ایم ایف جیسی خرافہ کے ناز اٹھاتی ہے۔اور پھر اس کی فرمائش پر نہ جانے کیاکیا کرتی رہتی ہے۔تو ہمارا بھی فرض بنتاہے کہ حکومت کی مدد کریں اس کا ہاتھ نہیں بٹاسکتے تو کم ازکم اچھے اچھے مشورے اور مفید تجاویز تو پیش کرسکتے ہیں۔اور آج ہم یہی کرنا چاہتے ہیں۔

بظاہر تو ایسا لگتاہے کہ اس نے ہر ہر اس چیز پرٹیکس لگادیے ہیں جو ٹیکس کے قابل ہے۔اور جو چیزیں ٹیکس کے قابل نہ تھیں ان پراس سے بھی پہلے ٹیکس لگے ہوئے ہیں۔لیکن ابھی ایسی بہت ساری چیزیں باقی ہیں جن پر ٹیکس لگنا چاہیے لیکن حکومت کو سوجھ نہیں رہاہے کہ کیسے ان پرٹیکس لگائیں من جملہ ان چیزوں کے ایک یہ ’’ہوا‘‘ بھی ہے جس میں ہم بالکل مفت سانس لیتے ہیں۔بلکہ بعض لوگ تو جو محنت کاکام کرتے ہیں انتہائی فضول خرچی سے اتنی لمبی لمبی سانسیں لیتے ہیں کہ آٹھ دس لوگوں کی ہوا استعمال کرلیتے ہیں۔

سوچنے والی بات اور سمجھنے والی سوچ یہ ہے کہ انسان کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز ہوا اور سانس ہے، پانی اور خوراک کی چیزیں بہت بعد میں آتی ہیں۔پانی اور خوراک کے بغیر آدمی دو چار دن بھی نکال سکتاہے لیکن ہوا اور سانس کے بغیر دو چار منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔یوں اگر پورے ٹیکس سسٹم کا جائزہ لیں تو انتہائی ضروری چیزوں پرٹیکس عائد ہے لیکن ہوا جتنی اہم اور ضروری چیز لوگ بالکل مفت استعمال کرتے ہیں۔

انصاف بلکہ تحریک انصاف ہر لحاظ سے دیکھاجائے تو ہوا پرٹیکس حکومت کا حق ہے آخر اگر ملک کی زمین اس کی سڑکیں اس کا پانی مٹی ریت  منڈیاں بازار بجلی گیس سب کچھ حکومت کی ملکیت ہیں تو ہوا بھی حکومت ہی کی’’جائیداد‘‘ہے۔بلکہ کچھ زیادہ ہی جائیدادہے کہ اس میں حکومت کے سارے خوشبودار چٹے پٹے یعنی افسر وزیر لیڈر وغیرہ اپنی خوشگوار اور خوشبودار سانسیں بھی شامل کرکے اسے معطر ومطربناتے ہیں۔  راجکپور کی کوئی پرانی فلم تھی شاید شری چار سو بیس۔یاکوئی اور۔جس میں فٹ پاتھ پر ’’جگہ‘‘بیچنے کا کاروبار ہوتاہے اور جس جگہ کو بیچا جارہاتھا اس کی قیمت دوسری جگہوں سے بہت زیادہ بتائی گئی۔ وجہ پوچھی گئی تو بتایا گیا کہ اس کے سامنے سیٹھ امیرچند ہے جہاں بڑے خوشبودار اور مصالحے دار کھانے بنتے ہیں جن کی خوشبوئیں اس جگہ پہنچتی ہیں اس لیے اس کی قیمت زیادہ ہے۔

اس حساب سے ہمارے پاکستان کی ہوا میں ان اللہ والے خادموں صادقوں، امینوں اور نیک لوگوں کی سانسیں ملی ہوئی ہیں جس سے یہ ہوا اور زیادہ قیمتی ہوجاتی ہے۔اور اتنی قیمتی چیز کا یوں مفت بے تحاشا اور ’’منہ کھینچا‘‘استعمال لازماً ٹیکس کا متقاضی ہے۔بلکہ اب تو نیاپاکستان کے ساتھ اس کی قیمت اور بھی بڑھ گئی ہے جب کہ موجودہ حکومت کی اپنی بنائی ہوئی ’’ریاست مدینہ‘‘کی برکات بھی شامل حال ہیں۔

لیکن حکومت نہ جانے کیوں اس معاملے میں ابھی تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔اس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہے کہ ’’غور‘‘کرنے والے دوسرے معاملات میں پڑی ہے۔ مکانوں کارڈوں اور قرضوں اور نوکریوں کی تقسیم کا معاملہ درپیش ہے۔اور اس سلسلے میں ’’حق‘‘ کو ’’حق داروں‘‘تک پہنچانا بھی ایک بہت بڑا کام ہے۔

اور یا شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہوا اور سانس پر ٹیکس لگانے کا کوئی طریقہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔سورج اور شمسی یعنی سولرانرجی کا معاملہ تو طے پاگیاہے کہ متعلقہ سامان پرٹیکس لگایا گیا جس میں سورج کی توانائی کا ٹیکس خود بخود شامل ہوجاتاہے۔

لیکن ہوا کو براہ راست استعمال کیاجاتاہے ایسے کوئی آلات وغیرہ اس میں لگتے ہی نہیں جس پرٹیکس لگاکر ہوا کو بھی بیچا جاسکے لیکن کوئی بات نہیں حکومت کے خادموں کو کارڈوں قرضوں دکانوں نوکریوں اور ریوڑیوں میں مصروف رہنے دیجیے ہم ہی اپنی حکومت کی مدد کریں گے۔

اس معاملے پر ہم نے جب غور کے حوض میں چند لمبی لمبی ڈبکیاں لگائیں تو بڑا آسان حل ہاتھ لگ گیا۔ سانس لینے کے لیے نہ تو کسی’’میٹر‘‘کا بندوبست کیا جا سکتاہے اور نہ ہی انھیں لگوانے پر بھی خرچہ آئے گا اور پھر اپنے ہاں میٹر کو بائی پاس کرنے کے بھی سو طریقے موجود ہیں اگر نہیں ہیں تو متعلقہ اہل کار بجلی اور گیس کی طرح مناسب فیس لے کرسکھا دیں گے۔سانسیں گننے والوں کے ساتھ بھی وہ معاملہ ہوسکتاہے جو ایک بادشاہ کے خسر نے دریا کی لہریں گننے کے لیے ایجاد واختیار کیاتھا، مطلب یہ کہ میٹر اور گنتی کے آپشن ہرگزقابل عمل نہیں ہیں تو پھر۔پس چہ بائد کرد اے اقوام’’غرق‘‘

یقیناً آپ ہمارے ذہن رسا کی داد دیں گے حالانکہ ہمیں اپنی تعریف کروانا اچھا نہیں لگتا لیکن کسی کو’’حق بات‘‘کرنے سے روک بھی نہیں سکتے۔

ہمارے پاس اس سلسلے میں جو تجربہ ہے وہ بالکل فول پروف اور تیربہدف ہے۔کرنا صرف یہ ہوگا کہ حکومت ’’ماہرین‘‘یا پارلیمانی کمیٹی بناکر انسانی سانسوں کی اوسط نکالے کہ چوبیس گھنٹے میں ایک آدمی کتنی ’’ہوا‘‘خرچ کرتاہے پھر سانسوں کی قیمت ’’طے پا‘‘کرکے نرخ نامہ جاری کردے۔

یوں بغیرکسی میٹر یا میٹر ریڈنگ وغیرہ کے ’’بل‘‘ارسال کردیا کرے یہ لوگوں کی مرضی ہے کہ وہ ’’بل‘‘ میں ’’طے پا‘‘شدہ سانسیں پوری لیتے ہیں یاکم۔ لیکن بل پورا دینا ہوگا۔اس سلسلے میں یہ خیال خاص طور پررکھاجائے کہ بعض لوگ فضول خرچ بھی بہت ہوتے ہیں مثلاً مزدور کسان یا ایسے دوسرے لوگ زیادہ اور لمبی سانسیں لینے کی عیاشی کرتے ہیں اس لیے سانسوں کے اس ’’بل‘‘میں کیٹگیری ون میں ڈالے جائیں اور یہ تو سب کو پتہ ہے کہ جتنے زیادہ یونٹ،اتنا زیادہ بل۔بڑے لوگ وزیر امیر مشیر اور ایسے دوسرے لوگ ایک تو سانسیں کم لیتے ہیں دوسرے ان کی سانسیں خون کے آخری قطرے کی طرح عوام کے لیے ہوتی ہیں اس لیے ان کو مستثنیٰ کردیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔