اشرافیہ اور مڈل کلاس

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 8 اگست 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ایک ہوتی ہے عوامی جمہوریت۔ ایک ہوتی ہے ، خواصی جمہوریت۔ خواصی جمہوریت میں عوام کا دخل صرف اتنا ہوتا ہے کہ پانچ سال کے بعد ایک بار اشرافیہ کے شہزادوں اور شہزادیوں کو ووٹ ڈالے جاتے ہیں اور اشرافیہ اپنا حق سمجھ کر عوام کے ووٹ حاصل کرتی ہے۔

دوسری جمہوریت ہوتی ہے عوامی جس میں ووٹ تو عوام ڈالتے ہیں لیکن ان ووٹوں کا استعمال خواص کرتے ہیں دونوں صورتوں میں ووٹ کے مالک خواص ہوتے ہیں مغربی ملکوں میں ووٹ کے استعمال کی حد تک جمہوریت عوامی ہوتی ہے اس کے بعد ایسی خواصی ہو جاتی ہے کہ اس خواصی جمہوریت میں سے عوام کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا جاتا ہے پھر خواص ہوتے ہیں اور ان کی جمہوریت ہوتی ہے جس میں خواص بلاشرکت غیرے مالک ہوتے ہیں۔

پاکستان میں ابھی تک خواصی جمہوریت کا بول بالا ہے۔ پہلی بار ملک میں اشرافیہ کے بجائے مڈل کلاس کی جمہوریت قائم ہوئی ہے تو اشرافیہ نے اس کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی اٹھا دیا ہے اور انتہائی بے شرمی کے ساتھ فرما رہی ہے کہ ہم ہر حال میں مڈل کلاسر حکومت کو ختم کریں گے۔ اس سے قبل 71 سال تک کسی نہ کسی حوالے سے اشرافیہ برسر اقتدار رہی ہے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے وہ ایک شفاف اورکرپشن سے پاک حکومت ہے جس کا اعتراف اشرافیہ کو بھی کرنا پڑ رہا ہے۔

حکومت کس کی ہونی چاہیے اس کا فیصلہ عوام کوکرنا ہوتا ہے لیکن ہماری ’’ اسپیشل حکومت ‘‘ میں حکومت کس کی ہونی چاہیے اس کا فیصلہ اشرافیہ اس طرح کرتی ہے کہ ووٹ تو عوام کے ہی ہوتے ہیں لیکن ووٹ کس کو دیے جائیں اس کا بالواسطہ فیصلہ خواص ہی کرتی ہے۔

تاریخ میں پہلی بار ایک مڈل کلاسر حکومت برسر اقتدار آئی ہے تو اسے سو بہانے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اشرافیہ اقتدارکے بغیر ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اشرافیائی اقتدار تسلسل کے ساتھ ملک میں جاری و ساری ہے جسے کوئی چیلنج کرنے والا نہیں۔ کیونکہ بے چارے عوام ابھی سیاسی شعورکی اس منزل میں نہیں ہیں جو اقتدار پر حق کس کا ہونا چاہیے، اس کا شعوری فیصلہ کرسکیں اسی کمزوری کی وجہ سے ہماری اشرافیہ ڈھٹائی کے ساتھ نہ صرف حکمرانی کے دعویدار بن بیٹھے ہیں بلکہ کسی غیر خواصی کو اقتدار کے قریب آنے دینے کے لیے تیار نہیں۔ آج ملکی سیاست میں جو ہیجان ہے اس کی وجہ بھی اقتدار پر اشرافیہ کے حق ملکیت کا دعویٰ ہی ہے اور یہ دعویٰ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک عوام صرف ووٹر  رہیں گے۔ جس دن عوام کو یہ شعور آجائے گا کہ اقتدار جمہوریت میں اکثریت کو حاصل ہوتا ہے وہ صرف ووٹر ہی بنے رہیں گے۔

عوام کو شعور سے محروم رکھنے میں مڈل کلاس کا بڑا ہاتھ ہے۔ اشرافیائی حکومت کا پورا مینجمنٹ مڈل کلاس کے دلالوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور اشرافیہ اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہے اس لیے اسے کھلاتی پلاتی بھی ہے اور کچھ غیر خطرناک اختیار سے نوازتی بھی ہے۔ لیکن وہ مڈل کلاس کو اس سرخ بتی کے قریب نہیں آنے دیتی جہاں مڈل کلاس اس کے لیے خطرہ بن سکے۔ حالانکہ مڈل کلاس کا طبقاتی فرض ہے کہ وہ عوام میں سیاسی شعور پیدا کرے۔ لیکن کرپٹ اشرافیائی جمہوریتیں کسی قیمت پر عوام کو اقتدارکی ہوا تک نہیں لگنے دیں گی۔

اقتدار کی غلام مڈل کلاس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ اپنے طبقے ہی کی دشمن بن جاتی ہے پتا نہیں کیوں انقلابی لوگوں نے مڈل کلاس کو عوام دوست کہا ہے جب کہ وہ موقع پرست ہی نہیں بلکہ اس کا کردار عوام دشمن ہوجاتا ہے یہ موقع پرست مڈل کلاس کا کردار نہ صرف انقلاب دشمن بلکہ عوام دشمن بھی ہوتا ہے جب وہ اپنے طبقے سے غداری کرکے اشرافیہ کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتی ہے۔ اس کی زندہ مثال ہماری وہ  مڈل کلاس ہے جو اشرافیہ کی بے دام غلامی کا کردار ادا کرتی ہے لیکن وہ سب سے بڑی کرپٹ اور عوام دشمن کلاس ہوتی ہے اس پس منظر میں بلاتفریق مڈل کلاس کو انقلاب دوست یا عوام دوست کہنا ایک بڑی غلطی ہے۔

دوسرے پسماندہ ملکوں میں مڈل کلاس کا ایک حصہ عوام دوستی کا کردار ادا کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں مڈل کلاس کا کردار کبھی عوام دوست نہیں رہا۔ مڈل کلاس کی اس بددیانتی کی وجہ سے پاکستان میں عوام اب تک سیاسی شعور سے نابلد ہیں۔ اشرافیائی حکومتوں پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ حکمران طبقات بہت بڑی حد تک مڈل کلاس کے سہارے اپنی سیاسی گاڑی چلاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بہت محتاط بھی ہوتے ہیں کیونکہ بورژوا سیاست میں کوئی کسی پر اعتبار نہیں کرتا۔ آج ملک کی دو بڑی پارٹیوں پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پارٹیاں اشرافیائی سیاست کی روح رواں ہیں اور اشرافیہ ان پر اعتمادکرنے پر مجبور ہے۔

جو عناصر اپنے طبقے سے مخلص ہیں، ان کی پہلی ذمے داری ہے کہ وہ جہاں ورکنگ کلاس کی سیاسی تربیت کریں وہیں عوام کو اشرافیہ کی عوام دشمن فطرت سے واقف بھی کراتے رہیں۔آپ ذرا ملک کی دو بڑی پارٹیوں پر نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اشرافیہ بڑی حد تک مڈل کلاس پر اعتماد کرتی ہے حالانکہ اس کا سارا اعتماد اس کے طبقاتی کردار اور اشرافیہ کی غلامی سے مشروط ہے آج ہمارے ملک میں مڈل کلاس خاص طور پر دانشور طبقہ اشرافیہ کی حمایت کر رہا ہے اس سے عوام کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔