عید اور کراچی

عبدالقادر حسن  جمعرات 15 اگست 2019
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

حج کی عظیم سعادت مکمل ہونے کے بعد پاکستانی قوم نے یوم آزادی بھی منا لیا ۔سرکاری سطح پر عید بھی سادگی سے منائی اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ یوم آزادی کے موقعے پر پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کے ساتھ کشمیر کا جھنڈا بھی سرکاری سطح پر لہرایا گیا جو کہ اس بات کا اظہار ہے کہ پاکستان کی حکومت اور پاکستانی عوام کے لیے کشمیر کی وہی حیثیت ہے جو پاکستان کی ہے یعنی پاکستان اور کشمیر لازم و ملزوم ہیں۔

عید کی تعطیلات میں میرے سندھی بھائیوں اور خاص طور پر کراچی کے باسیوں پر عید کے یہ دن قیامت بن کر گزرے۔ اللہ کی رحمت ایسی برسی کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کو پانی پانی کر گئی اور یوں لگ رہا ہے کہ سمندرکراچی کے اندر تک آگیا ہے ۔

یہ بڑے دکھ کی بات ہے مجھے آج یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اگرچہ میں ایک پنجابی ہوں مگر مجھے پنجاب سے زیادہ سندھ سے پیار ہے ۔ ایک پاکستانی کو اس طرح کسی صوبے کی بات کرنا زیب نہیں دیتا۔پنجاب ہو یا سندھ یا کوئی اور صوبہ یہ صرف انتظامی اکائیاں ہیں اور میں انتظامی تقسیم کی بنیاد پر اپنے پاکستان کی تقسیم برداشت نہیں کر سکتا مگر بد قسمتی سے نادان یا خود غرض حکومتوں کی وجہ سے کچھ ایسے نام نہاد لیڈر پیدا ہو گئے جو صوبائیت کا پرچار کر کے اپنی لیڈری چمکاتے رہے۔

میں نے ایک بار الیکشن کے موقعے پر ایک تعلیم یافتہ امیدوار سے کہا کہ تم برادری ازم کا پرچار کرتے ہو تمہیں شرم نہیں آتی۔ اس کا جواب تھا کہ میں برادری کے جذبات کو ہر ممکن طریقے سے ابھارتا ہوں تاکہ مجھے اس بنیاد پر ووٹ مل سکیں اگر میں ایسا نہ کروں اور برادری کا تعصب پیدا نہ کروں تو پھر مجھے ووٹ کون دے گا۔ یہی صورتحال صوبائیت کا پرچار کرنے والوں کی ہے ۔

ایک بار مجلسی گپ شپ میں کسی نے مجھ سے پوچھا کہ تمہیں کون سا شہر پسند ہے میں نے جواب دیاایبٹ آباداور پشاور اور پھر میں نے اس پسند کی وجوہات بھی پیش کیں لیکن میری پسند کا پشاور تو اب کہیں گم ہو چکا ہے فارسی بولنے اور سمجھنے والا یہ شہر مجھے وسط ایشیاء کا کوئی شہر لگتا تھا، ان دنوں ہم لوگ روس کے مقبوضہ وسطی ایشیاء کو بہت یاد کرتے تھے آج پشاور ایک پرہجوم اور پر شور شہر ہے جیسے لاہور ہے یا ایبٹ آباد۔ اب کوئی مجھ سے پوچھے تو میں جواب دوں گا کہ مجھے پاکستان پسند ہے اس کے کسی شہر کا میں نام نہیں لے سکتا ۔ میرے وطن عزیز کے شہروں کو ہم نے اپنی بد انتظامی سے بگاڑ دیا ہے۔

میں ان دنوں کراچی کو بہت یاد کر رہا ہوں وہاں بارشوں کی وجہ سے بہت تباہی ہوئی ہے کئی جانیں ضایع ہوئی ہیں ۔ میں لاہور میں بالکل محفوظ بیٹھا ہوں لیکن اپنے سندھی بھائیوں کو کیسے بھول جاؤں میں بھی ایک انسان ہوں میں جانتا ہوں کہ جب قدرتی آفات کی وجہ سے تباہی آتی ہے تو وہ اپنے پیچھے کتنی خوفناک داستانیں چھوڑ جاتی ہے۔ تین نوجوان بچوں کی تصویریں میری آنکھوں کے سامنے ہیں جو بجلی کا کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہو گئے، تینوں دوست دوستی نبھاتے ہوئے ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش میں اکٹھے جان سے چلے گئے۔ ایسے کئی سانحے ہیں جو میرے شہر کراچی پر گزر گئے مگر کراچی اور سندھ پر برسوں سے حکمرانی کرنے والوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی۔ وزیر اعظم نے نوٹس لیا ہے ۔

فوج امدادی کاموں میں مصروف ہے جو افتاد پڑی ہے درست ہے کہ فوری طور پر پانی پوری طرح مدد بھی نہیں کرنے دیتا ۔ لوگ گھروں میں مقید ہیں بجلی بند ہے گھروںمیں کھانے پینے کی اشیا کی قلت ہو گئی۔ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک دوسرے کی مدد کی کوشش بھی کی لیکن آفتوں کے دوران یہ کام حکومت کے ہوتے ہیں کوئی بھی پرائیوٹ تنظیم اس سطح کا امدادی کام نہیں کر سکتی جو حکومت کر سکتی ہے لیکن حکومتوں کی یہ حالت ہے سندھ میں ایک پارٹی کی حکومت ہے کراچی کسی اور پارٹی کے حوالے ہے جب کہ وفاق میں ایک تیسری پارٹی سندھ کے معاملات کو دیکھ رہی ہے۔

اس دھماچوکڑی میں کوئی بھی ڈھنگ کا کام نہیں ہو رہا ۔ اگر ایمانداری سے سندھ میں کام کیا جاتا تو آج پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور پاکستان کی معاشی شہ رگ کی یہ حالت نہ ہوتی جو ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک بارش کو بھی ہم نہیں سنبھال سکے ۔ کراچی جیسے خوبصورت شہر کو جس بے دردی کے ساتھ اجاڑا گیا تباہ و برباد کیا گیا اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی ۔تھوڑا بہت کام جماعت اسلامی کے ناظم اعلیٰ کراچی نعمت اللہ خان کی سربراہی میں کیا گیا جس کو اہل کراچی ابھی تک یاد کرتے ہیں لیکن ان سے پہلے اور بعد میں صرف لوٹ مار اور کراچی کے وسائل پر عیاشیاں جاری رہیں۔

سچل سرمست اور شاہ بھٹائی کی یہ سر زمین بہت ہی پیارے اور معصوم لوگوں کی زمین ہے مگر ان معصوم لوگوں کے حق پر دن دہاڑے ڈاکے ڈالے گئے جو ایک الگ داستان ہے ۔میرے پاس سندھی بھائیوں اور خاص طور پر کراچی کے باسیوں کے لیے سوائے دعا اور کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے مصائب اور مشکلات کو دور کرے اور وہ روشنیوں کے شہر میں روشنیاں بکھیرتے رہیں زندگی میں رنگ بھرتے رہیں جیتے رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔