اگست 47 : جب سکھوں نے لاہور پر قبضہ کرنا چاہا

تنویر قیصر شاہد  جمعرات 15 اگست 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

ہر سال اگست کا مہینہ طلوع ہوتے ہی آزادی کے لیے خون سے جلائے گئے چراغوں کی لا تعداد یادیں پھر جھلملانے لگتی ہیں ۔ کئی پرانے زخم یاد آنے لگتے ہیں ۔زیادہ زخم وہ ہیں جو نہتے اور بیگناہ مسلمانوں کو تلواروں اور بھالوں سے مسلح سکھوں نے لگائے۔ سات عشرے کا طویل عرصہ گزرنے کے باوصف ان زخموں سے اب تک خون رِس رہا ہے ۔ کسی بھی طور انھیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انھیں بھُلا دینا دراصل اُس بے مثال جدوجہد کو بھُلانے کے مترادف ہے جس کی قیادت حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ فرما رہے تھے ۔

اِسی کے نتیجے میں آج پاکستان کے 22کروڑ سے زائد عوام آزادی کی بے شمار نعمتوں اور عنائتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ سکھوں نے مگر شاطر ہندوؤں کی شہ پر اسلامیانِ برصغیر ، خصوصاً پنجاب کے مسلمانوں پر، جو مظالم اور ستم ڈھائے ، اُن سے اب بھی ہماری تاریخ کے صفحات سُرخ ہیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد بھی سکھوں اور ہندوؤں نے باہمی سازش کرکے لاہور کو مسلمانوں سے ہتھیانا چاہا تھا مگر قائد اعظم کے ایک ہی زور دار جملے نے اُن کی سازش ناکام بنا دی ۔ قائد نے فرمایا:There will be no Pakistan without Lahore. آج کا لاہور لاریب قائد اعظم ؒ کی عطا کردہ ہمارے پاس امانت اور نعمت ہے ۔

قائد اعظم ؒ کی انتھک اور بے نظیر کوششوں سے لاہور بھی پاکستان میں شامل تو ہو گیا لیکن اس کے باوجود سکھوں نے لاہور پر زبردستی قبضہ کرنے کی کوششیں نہ چھوڑیں ۔ وہ مسلسل اس کے حصول میں لگے رہے ۔ اگر ہم معروف دانشور ، کئی کتابوں کے مصنف اور قائد اعظم ؒ کے عاشقِ صادق جناب منیر احمد منیر کی معرکہ خیز کتاب ’’مِٹتا ہُوا لاہور‘‘ کا مطالعہ کریں اور اس میں شامل کرنل (ر) محمد سلیم ملک (ساندہ، لاہور، والے) کا طویل انٹرویو پڑھیں تو منکشف ہوتا ہے کہ سکھوں نے لاہور پر قبضہ کرنے اور پاکستان کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی کیسی گھناؤنی اور مہلک کوششیں کی تھیں ۔

اور جب لاہور ہاتھ سے جاتا نظر آیا تو لاہور کے مسلمانوں کو شہید کرنے اور لاہور کو جلانے کے لیے ان لوگوں نے کیسے کیسے منصوبے بنا رکھے تھے ۔ قیامِ پاکستان کے وقت کرنل(ر) محمدسلیم ملک صاحب نئے نئے فوجی افسر بنے تھے۔وہ بتاتے ہیں :’’لاہورمیں ایک مسلمان مجسٹریٹ ، افضل غنی چیمہ، تھے ۔ قتل و غارت کے کیسوں کے سلسلے میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ساتھ اٹیچ تھے ۔لاہور کے سکھ شاہ عالمی دروازے میں باہر سے لاکر رائفلیں جمع کرتے تھے۔ افضل چیمہ نے ایک روز ایک سکھ پکڑ لیا اور اُس سے اگلوا لیا کہ سکھ یہ اسلحہ کہاں رکھ رہے ہیں اور کس دن سکھوں نے کارروائی کرنی ہے ۔پھر افضل چیمہ نے چھاپہ مار کر شاہ عالمی سے ساری رائفلیں برآمد کرلیں اور سکھ کارروائی نہ کر سکے۔‘‘ ( مٹتا ہُوا لاہور ۔ صفحہ 177) ۔

حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ اگست 47میں پاکستانی علاقوں کا باقاعدہ اعلان ہونے کے باوجود سکھوں نے کئی ایسے علاقوں پر زبردستی قبضہ کرلیا تھا جو پاکستان کے حصے میں آئے تھے ۔ مثال کے طور پر ، بقول کرنل (ر) محمد سلیم ملک، قصور کی طرف گنڈا سنگھ والا کے تھانوں پر سکھوں نے قبضہ کر لیا تھا اور اُدھر (ریڈ کلف ایوارڈ کے باوجود) سکھوں نے دریائے راوی کے پُل پر (نارووال سے پرے جسّڑ کے قریب) بھی قبضہ کر لیا تھا( یہ وہی جگہ ہے جس کے قریب ہی آج  کرتار پور راہداری بنائی جارہی ہے)نئے نئے بننے والے پاکستان  کے شیر جوانوں نے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر ان جگہوں کو خالی کروایا ۔

کرنل(ر) محمد سلیم ملک صاحب اس ضمن میں اپنی یادیں اور مشاہدات منیر احمد منیر سے شیئر کرتے ہُوئے بتاتے ہیں:’’پاکستان بننے کے بعد جسّڑ والا (دریائے راوی) پُل پر سکھوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ یہ قبضہ اُس( بھارتی) اسکیم کا حصہ تھا کہ پاکستان کو چھ ماہ بعد ختم کرنا ہے ۔مَیں نے جسّڑ والا پُل پر پاکستان کی طرف سے ، سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت میں ، ڈیوٹی دی ہے ۔ پُل کے درمیان ، سینٹر میں پول تھا۔ اس پر بھارتی سکھوں نے انڈیا کا جھنڈا لہرا رکھا تھا۔ جب وہ جھنڈا ہوا میں اُڑ گیا تو اُن کا بریگیڈئر کمانڈر اپنے سپاہیوں کے ساتھ آ گیا۔ کیپٹن فضل الرحمن ہماری طرف سے جسّڑ پُل کے انچارج تھے ۔ انھوں نے مجھے کہا ، اس میٹنگ میں تم نے جانا ہے اور انھیں انڈیا کا جھنڈا نہیں لہرانے دینا۔ مَیں گیا۔ سکھ فوجی افسر مجھے پنجابی میں کہنے لگا: ہم یہاں بھارتی جھنڈا لہرانے آئے ہیں ۔ میں نے کہا کہ ریڈ کلف ایوارڈ کی رُو سے یہ علاقہ ہمارا ہے ۔

میری بات سُن کر سکھ فوجی افسر نے پول کا بانس پکڑا اور کہا: یہ پول ہمارا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمارا جھنڈا یہاں لہراتا ہے ۔ مَیں نے اُسے بتایا: دیکھو، وہ دو ایل ایم جی ( گنز) لگی ہیں ، اگر تم نے یہاں انڈیا کا جھنڈا لہرانے کی کوشش کی تو مَیں نے انھیں ( گنرز کو) آرڈر دے رکھا ہے کہ ( جھنڈا لہرانے کی صورت میں) آپ میں سے کوئی بچ کر نہ جائے ، خواہ ہم بھی مارے جائیں۔ پھر میں نے کہا: سردار جی، ہم تین ہیں اور آپ 27ہیں ۔ وہ بولا نہیں اور چپ چاپ وہاں سے چلا گیا۔‘‘( مٹتا ہُوا لاہور ۔ صفحہ 178) یہ تھے وہ ظالم اور غاصب بھارتی سکھ جن کے تعصب اور قبضے سے ہمارے جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کو پاکستانی علاقے آزاد کروائے ۔ ہمارا سیلوٹ اور سلام ہے پاکستان کے کرنل(ر) محمد سلیم ملک ایسے فوجی افسروں اور جوانوں کو جنھوں نے قائد اعظم کے حکم پر پاکستان بچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی تھی اور ہمیں ایک آزاد ملک کا عظیم تحفہ دیا۔

سکھوں کے لیڈر، ماسٹر تارا سنگھ ، نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور پاکستان بننے کی سخت مخالفت کی تھی۔ اس سفاک سکھ نے لاہور میں پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر اپنی تلوار سونت کر یہ بَڑ بھی ماری تھی کہ جو پاکستان کی بات کرے گا، یہ تلوار اُس کا فیصلہ کرے گی ۔ پاکستان مگر اللہ کے فضل سے بنا اور ماسٹر تارا سنگھ سمیت تمام سکھوں اور سکھ لیڈروں کو شکستِ فاش ہُوئی ۔ پاکستان بننے کے بعد یہی پاکستان دشمن ماسٹر تارا سنگھ اپنے جتھے کے ساتھ لاہور آیا تو کرنل(ر) محمد سلیم ملک صاحب اُس سے ملے ۔ اس ملاقات کا تاریخی احوال کرنل صاحب یوں سناتے ہیں :’’ماسٹر تارا سنگھ نے مجھے مخاطب کرتے ہُوئے کہا ، مجھے افسوس ہے کہ مَیں نے اپنی (سکھ) قوم کو خراب کیا۔

مَیں تو یہاں آیا ہُوں کہ دیکھوں جناحؒ صاحب کا ہر چوک میں بُت بنا ہوگا کہ انھوں نے اتنا بڑا کام کیا ہے مسلمانوں کے لیے۔ میرا خیال تھا کہ پاکستان جاؤں گا تو (لاہوری ) مسلمان مجھے پتھر مار مار کر ہلاک کر دیں گے ۔ لیکن مجھے تو لاہور میں کسی نے بھی کچھ نہیں کہا۔ ماسٹرا تارا سنگھ نے مجھے مخاطب کرتے ہُوئے یہ بھی کہا تھا:آپ سمجھ نہیں سکے کہ جناحؒ صاحب کتنے بڑے لیڈر تھے ۔ انگریز، ہندو، سکھ ، ساری دُنیا چاہتی تھی پاکستان نہ بنے لیکن اکیلا بندہ ، جناحؒ کہتا تھا پاکستان بنانا ہے اور ضرور بنانا ہے ۔‘‘( مٹتا ہُوا لاہور ۔ صفحہ 180)اپنوں اور بیگانوں کی صورت میں ، لاتعداد دشمنوں اور مخالفوں کی موجودگی میں اکیلے محمد علی جناح ؒ نے پاکستان بنا کر دکھا دیا۔ اے قائد اعظمؒ، ہم آپ کے احسانوں کا بدلہ نہیں چکا سکتے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔