ملائیشیا میں متنازع بیان پر ذاکر نائیک سے تفتیش، ملک بدری پر بھی غور

ویب ڈیسک  جمعـء 16 اگست 2019
ہندو برادری وزیراعظم مہاتیر محمد کے مقابلے میں وزیراعظم نریندرا مودی سے زیادہ لگاؤ رکھتی ہے، ذاکر نائیک (فوٹو : فائل)

ہندو برادری وزیراعظم مہاتیر محمد کے مقابلے میں وزیراعظم نریندرا مودی سے زیادہ لگاؤ رکھتی ہے، ذاکر نائیک (فوٹو : فائل)

کوالا لمپور: بھارت سے جبری بے دخلی کے بعد ملائیشیا میں مستقل شہریت حاصل کرنے والے عالمی شہرت یافتہ مذہبی اسکالر ذاکر نائیک کے متنازع بیان کے بعد ان کی ملک بدری پر غور کیا جا رہا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ملائیشیا میں حال ہی میں اقلیتوں سے متعلق اپنے متنازع بیان کے باعث مشکلات میں گھرے عالمی شہرت یافتہ مذہبی اسکالر ذاکر نائیک کی ملک بدری کے بارے میں ممکنہ طور پر سوچا جا رہا ہے۔

ملائیشیا کے وزیر داخلہ محی الدین یاسین نے اپنے بیان میں کہا کہ مذہبی اسکالرذاکر نائیک سے ملک کے ہندو اقلیتوں سے متعلق متنازع بیان کے بارے میں پولیس پوچھ گچھ کرے گی، اس بیان سے اقلیتوں کی دل آزاری بھی ہوئی۔

یہ خبر پڑھیں : بھارتی عدالت کا ذاکر نائیک کی 5 جائیدادوں کو ضبط کرنے کا حکم

دوسری جانب بھارت سے ملائیشیا منتقل ہونے اور شہریت حاصل کرنے والے مذہبی اسکالر ذاکر نائیک نے موقف اختیار کیا ہے کہ ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا وہ اقلیتوں کا دل سے احترام کرتے ہیں۔

ادھر سنگاپور کے اخبار اسٹریٹ ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ متنازع بیان کے بعد ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی سربراہی میں کابینہ اجلاس میں ذاکر نائیک کو ملک بدر کرنے اور شہریت ختم کرنے کے حوالے سے اتفاق رائے ہوگیا ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیں : ملائیشیا کا ڈاکٹر ذاکر نائیک کو ملک بدر کرنے سے انکار

یاد رہے کہ ذاکر نائیک نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ ملائیشیا میں آباد قدیم ہندو برادری اب بھی ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد سے زیادہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی حمایت اور عزت کرتی ہے۔

واضح رہے کہ بھارت میں ہزاروں ہندوؤں کو اسلام میں داخل کرنے والے مذہبی اسکالر ذاکر نائیک کو دہشت گردی پر اکسانے کے مقدمات کے باعث ملک چھوڑنا پڑا تھا اور اُن کی جائیدادیں بھی ضبط کرلی گئی تھیں۔ ذاکر نائیک  سعودی عرب میں کچھ عرصے قیام کے بعد ملائیشیا پہنچے جہاں پچھلی حکومت نے انہیں مستقل شہریت دے دی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔