اندرون ملک پالیسیوں کا تسلسلـ…عالمی محاذ پر مزید پذیرائی ملے گی!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 26 اگست 2019
کشمیر کے حوالے سے عالمی سطح پر پاکستان کے مؤقف کو تقویت ملی جو بڑی سفارتی کامیابی ہے، ’’ ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں‘‘ کا ’’ایکسپریس فورم ‘‘ میں اظہارِ خیال

کشمیر کے حوالے سے عالمی سطح پر پاکستان کے مؤقف کو تقویت ملی جو بڑی سفارتی کامیابی ہے، ’’ ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں‘‘ کا ’’ایکسپریس فورم ‘‘ میں اظہارِ خیال

وزیراعظم پاکستان نے خطے کے سکیورٹی حالات کے پیش نظر مسلح افواج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع دی ہے۔

خطے کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لیا جائے تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دوبارہ اقتدار میں آکر کشمیر کے حوالے سے وہ مزموم کام کیا جو ’بی جے پی‘ کی دیرینہ خواہش تھی۔ بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور وہاں کرفیو لگا دیا۔ پاکستان نے بھارتی بربریت پر ٹھوس ردعمل کا اظہار کیا اور اس معاملے کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جس کے نتیجے میں55 برس میں پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں کشمیر کا مسئلہ زیر بحث آیا جو بڑی کامیابی ہے جبکہ اب پاکستان نے بھارت کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں جانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔

جس سے یقینا کشمیریوں کا مقدمہ مضبوط ہوگا۔ وزیراعظم پاکستان نے اس حوالے سے مختلف ممالک کے سربراہان سے بات چیت کی ، آزاد و جموں کشمیر اسمبلی سے خطاب کیا اور خود کو کشمیر کا سفیر بھی قرار دیا۔ ایک طرف کشمیر کا مسئلہ ہے جبکہ دوسری طرف افغان طالبان کے ساتھ امریکی فوجی انخلاء کے حوالے سے مذاکرات ہورہے ہیں جن میںپاکستان اہم کردار ادا کر رہا ہے۔آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر مقررین  کا کہنا تھا کہ اس سے اندرون ملک پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے گا اورپاکستان کو عالمی محاذ پر مزید پذیرائی بھی ملے گی۔

ان اہم معاملات کو دیکھتے ہوئے ’’آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع اور خطے کی سکیورٹی صورتحال‘‘ کے حوالے  سے ’’ایکسپریس فورم ‘‘میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

بریگیڈیئر (ر) عمران ملک
(دفاعی تجزیہ نگار)

غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے اندر اور باہر صورتحال نازک ہے اور یہ خطہ مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کے مغرب میں افغانستان ہے جہاں ایک طویل عرصے کے بعد جنگ ختم ہونے جارہی ہے جبکہ مشرق کی طرف کشمیر میں بھارت کے ساتھ جنگ ہونے کا خطرہ ہے لہٰذا ایسی صورتحال میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع بہتر قدم ہے۔ اس وقت امریکا سے بات چیت جاری ہے اور یہ بھی سمجھا جا رہا ہے کہ امریکا پاک بھارت کشیدگی میں ثالثی کردار ادا کرے گا۔

55 برس بعد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں کشمیر پر مشاورت ہوئی جو بڑ ی کامیابی ہے۔اس بات کو چھوڑ دیں کہ یہ کس کی وجہ سے ہوا۔ اہم یہ ہے کہ پاکستان نے جب یہ معاملہ اٹھایا تو 72 گھنٹوں کے اندر اندر ایک مشاوری سیشن ہوا جو ہماری سفارتی فتح ہے۔ ہمیں سفاری محاذ اور میڈیا پر جارحانہ انداز میں کشمیر کا مقدمہ لڑنا چاہیے اور بار بار اپنا موقف دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔

پاکستان عالمی عدالت انصاف میں بھی جا رہا ہے، مختلف ممالک کے سربراہان اور وزراء سے بات چیت بھی جاری ہے۔ سابق فارن سیکرٹری تہمینہ جنجوعہ جنیوا جا رہی ہیں جو وہاں جا کر پاکستان کا مقدمہ پیش کریں گی۔ ہمیں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی طاقت کو استعمال کرنا چاہیے اور دنیا کو اصل صورتحال سے آگاہ کرنا چاہیے۔ وزیراعظم پاکستان نے اچھی باتیں کی ہیں جنہیں بار بار دکھانا چاہیے۔ انہوں نے مودی کو ہٹلر سے تشبیہ دی ہے، ہندووآتہ کو نازی ازم سے تشبیہ دی ہے اور مودی کے گجرات اور کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم کی بات کی۔ بھارت اسرائیلی ماڈل پر عمل پیرا ہے۔

جس طرح فلسطین میں مسلمانوں کو سائیڈ لائن کیا گیا اسی طرح اب کشمیر میں 9لاکھ فوج کے ذریعے sweeping operation کیا جائے گا جس سے مسلمانوں کو آبادیوں سے نکال کر لائن آف کنٹرول کے قریب مہاجر کیمپوں میں رکھا جائے گا اور بعدازاں انہیں مجبور کیا جائے گا کہ وہ بارڈر کے اس طرف آئیں۔ پاکستان کے لیے پھر مشکل صورتحال ہوگی کہ انہیں پناہ دے یا نہیں۔ کشمیر میں خالی کروائے گئے علاقوں میں ہندو پنڈت اور ریٹائرڈ فوجی افسران آباد کیے جائیں گے تاکہ اگر اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق رائے عامہ سے فیصلہ ہوتا بھی ہے تو اسے پہلے ہی بیلنس کر لیاجائے۔ چین، پاکستان اور بھارت، تین ایٹمی طاقتیں کشمیر کے علاقے میں مل رہی ہیں، لداخ کی وجہ سے چین بھی مسئلہ کشمیر کا فریق بن گیا ہے جو ہمارے لیے بہتر ہے۔

امریکا، روس، فرانس، برطانیہ، چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کے بھارت کے ساتھ معاشی مفادات وابستہ ہیں، جن کی وجہ سے کوئی بھی ملک اسے ناراض نہیں کرنا چاہتا، اس کے باوجود یہ پاکستان کی کامیابی ہے کہ ہم نے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو منوالیا ہے تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ اسے حل کیسے کرنا ہے۔ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش پر سوالات اٹھ رہے ہیں، کیا اس نے پاکستان کو روکنے اور مودی کو حالات پر قابو پانے کیلئے وقت دینے کیلئے تو ایسا نہیں کیا ؟ ہمیں کسی ایک ملک کی ثالثی پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے لیے چین، ترکی، ایران، سعودی عرب و دیگر اہم ممالک کو شامل کرکے موثر حل نکالا جائے۔

ڈاکٹر امجد مگسی
(ماہرامور خارجہ و سیاسی تجزیہ نگار)

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع غیر معمولی بات نہیں تاہم سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ہمیں ادارے مضبوط کرنے کی جانب توجہ دینی چاہیے۔ بھارت کے حوالے سے عالمی سطح پر معاملات ہمارے حق میں زیادہ بہتر نہیں ہیں۔بھارت نے مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کشمیر کے حوالے سے قدم اٹھایا اور اس بارے میں اس نے اپنے دوست ممالک سے پیشگی رابطے بھی کیے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ ہم نے ڈونلڈ ٹرمپ سے ثالثی کی بات نہیں کی بلکہ انہوں نے خود اس کی پیشکش کی۔ ہمیں تو اس وقت ہی چوکنا ہو جانا چاہیے تھا کہ کشمیر کے حوالے سے کچھ چل رہا ہے۔ مودی الیکشن سے پہلے ہی یہ کہہ رہا تھا کہ آرٹیکل370 اور35(A) تبدیل کرے گا لہٰذا سوال یہ ہے کہ ہم نے اس پر کام کیوں نہیں کیا؟ ہم یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ مودی آئے گا تو مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا۔

افسوس ہے کہ ہم پیشگی کام کے بجائے ردعمل کے طور پر اقدامات کرتے ہیں، اب بھی ہماری سفارتکاری اس طرح نہیں ہوئی جیسے ہونی چاہیے تھی۔ بھارت نے کشمیر کے معاملے میں کچھ غلطیاں کی ہیں جن کا فائدہ پاکستان کو ہوگا۔ لداخ کی وجہ سے چین اس معاملے میں فریق بن گیا ہے جب کہ اب کشمیر کی ساری قیادت بھی ایک پیج پر آگئی ہے لہٰذا اگر کرفیو ختم ہونے کے بعد وہاں مضبوط سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوجاتی ہے تو بھارت مسئلہ کشمیرکے حل پر مجبور ہوجائے گا۔ عالمی سطح پر بھارت پر زیادہ دباؤ نہیں ہے۔ سلامتی کونسل کی طاقت بھی امریکا کے ہاتھ میں ہے اور امریکا کبھی بھی بھارت پر سختی نہیں کرے گا۔ ہم امریکا سے گلہ کرتے ہیں لیکن مسلم امہ کی طرف سے بھی مایوسی ہوئی۔

پہلے سعودی عرب نے نریندر مودی کو ’اعلیٰ ترین سول ایوارڈ‘ دیا اور اب متحدہ عرب امارات اسے یہ ایوارڈ دینے جارہا ہے۔ ان ممالک کابھارت کے ساتھ تجارتی حجم بہت زیادہ ہے۔ معاشی مفاد اب ملکی مفاد بن گیا ہے اور اسی پر ہی ممالک کے آپس میں تعلقات قائم ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کے خلاف کوئی بات نہیں کی جبکہ ملائشیا نے بھی ہمیں مایوس کیا۔میرے نزدیک ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہمارا مقدمہ عالمی سطح پر کمزور ہے۔ گھر کی لڑائی کی وجہ سے حق پر ہوتے ہوئے بھی دنیا میں ہماری آواز نہیں سنی جا رہی۔مودی کو یہ بھی اندازہ ہے کہ ہماری اندرونی صورتحال کیا ہے او ر اس کے پیش نظر ہی وہ کام کر ہا ہے۔  ہمیں سیاسی و معاشی استحکام پر توجہ دینی چاہیے۔

ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم ممالک کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم نہیں کرتے۔ ہم نے امریکا سے تعلقات میں چین کو دور کر لیا ہے حالانکہ چین کی وجہ سے روس بھی ہمارا پارٹنر بن چکا تھا۔ چین کے ساتھ تو ہماری دیرینہ دوستی ہے مگر اب چین اور روس ہمارا اس طرح ساتھ نہیں دے رہے جس طرح دینا چاہیے تھا۔ میرا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم صرف چین کے ساتھ تعلقات قائم کریں بلکہ ہمیں چین، امریکا و دیگر طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کرنا چاہیے۔ ہمیں ترکی کو بھی ساتھ ملانا چاہیے۔ بھارت کے عزائم شروع سے ہی خطرناک ہیں مگر پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے خطے میں توازن قائم ہے۔ بھارت نے آرٹیکل 370 کو سودے بازی کے لیے استعمال کیا ہے۔ جب بھارت کو مذاکرات کی میز پر آئے گا تو کہے گا کہ کشمیر کا پرانا سٹیٹس بحال کر دیتے ہیں۔

آزاد کشمیر پر حملے کی باتیں بھی اسی لیے ہیں کہ پاکستان کو کسی طرح کشمیر کے معاملے سے پیچھے دھکیلا جائے۔ پاکستان کو عالمی سطح پر مضبوط بیانیہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے تجربہ کار اور قابل لوگوں پر مشتمل وفود دنیا بھر میں بھیجے جائیں۔ پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں جانے کا بھی درست فیصلہ کیا ہے۔ ہمیں بھارت پر زیادہ سے زیادہ عالمی دباؤ ڈالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

محمد مہدی
(ماہر امور خارجہ)

پاکستان اس وقت مشکل حالات سے دوچار ہے۔ دنیا یہ سمجھ رہی ہے کہ پاکستان اپنے معاملات درست طریقے سے نہیں چلا پا رہا اور مودی نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے ۔ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی بات کی مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکا کا ہمارے ساتھ مفاد صرف افغانستان کی حد تک ہے لہٰذا اقوام متحدہ اور امریکا یہ نہیں چاہیں گے کہ پاک بھارت جنگ ہو۔ ہمیں ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے امریکا کے ساتھ معاملات کو کاغذی شکل دینی چاہیے۔

ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے روس کو افغانستان میں ہرایا مگر اس کے باجود امریکا نے ہمارا ساتھ نہیں دیا، اب بھی ہم امریکا کے لیے اپنی توانائی لگا رہے ہیں لہٰذا اس معاملے کو بہتر انداز میں آگے بڑھانا ہوگا۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے عالمی سطح پر ہمارے موقف کو موثر طریقے سے نہیں سنا جا رہا۔ ہمیںسکیورٹی کونسل میں اس طرح نہیں جانا چاہیے تھا، ہم نے اس حوالے سے دیگر ممالک سے موثر بات چیت نہیں کی۔ اب عالمی عدالت انصاف میں جانے کی باتیں کی جارہی ہیں، میرے نزدیک ہمیں لابنگ کرکے اور جب تک کوئی یقین دہانی نہ ملے، عالمی عدالت میں نہیں جانا چاہیے۔

اس وقت ضرورت یہ ہے کہ ہم بھارت سے تنگ ممالک جن میں تھائی لینڈ، نیپال، برما، سری لنکا و دیگر شامل ہیں،کو ملا کر ایک کلب بنائیں، اس طرح ہم بھارت پر بہتر طریقے سے دباؤ ڈال سکیں گے۔ ہمیں سفارتی محاذ پر بہتر پرفارم کرنا ہوگا، اس کے لیے پسند نا پسند کو پس پشت ڈال کر، قابل اور بیرون ممالک تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل وفود دنیا بھر میں بھیجے جائیں جو پاکستان کا مقدمہ لڑیں ، اس سے فائدہ ہوگا۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا دنیا کو اندازہ تھا، سوال یہ تھا کہ کتنی توسیع ملے گی۔

ڈاکٹر عاصم اللہ بخش
(سیاسی تجزیہ نگار)

کشمیر کے حوالے سے آرٹیکل 370 سے ہمیں غرض نہیں ہے بلکہ ہم اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتے ہیں۔ آرٹیکل 370 اور 35(A) بھارت کی جانب سے کشمیریوں کی دی جانے والی گارنٹی تھی مگر اب بھارت اس سے پھر گیا ہے اور دنیا یہ سب دیکھ رہی ہے کہ وہاں کس طرح بدترین مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، کرفیو نافذ ہے، سکولوں میں بچوں کی حاضری صفر ہے، دفاتر ، بازار اور انٹرنیٹ مکمل بند ہے۔عالمی میڈیا یہ سب بتا رہا ہے جبکہ بھارتی حکومت کہہ رہی ہے کہ ایسا کچھ نہیں۔ نریندر مودی نے ’سٹیٹس کو‘ دھرم بھرم کر دیا۔

ریاست جموں کشمیر کو ختم کردیا ، اسے دو حصوں میں تقسیم کر کے یونین ٹیرٹری بنا دیا ہے جبکہ لداخ میں اسمبلی بھی نہیں بنائی۔ پاکستان بھارتی بربریت کو عالمی سطح پر بے نقاب کر رہا ہے، 55 برس میں پہلی مرتبہ مسئلہ کشمیر پر سکیورٹی کونسل کا اجلاس ہوا، یہ بحث الگ ہے کہ سیشن فارمل تھا یا ان فارمل۔ گزشتہ چند برسوں میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے غیر رسمی میٹنگ کا طریقہ کار اپنایا ہے کہ ہنگامی اجلاس بلانے کے بجائے پہلے اس میٹنگ میں اپنی رائے قائم کرتے ہیں اور پھر اجلاس کی طرف جاتے ہیں کہ جس میں قرارداد منظور ہو یا کوئی بڑا فیصلہ سامنے آئے۔

پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں جانے کا بھی فیصلہ کیا ہے جو بہتر قدم ہے۔ اس میں کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم پر بات کی جائے گی۔ امریکا نے بھی بھارت کو کہا ہے کہ کرفیو ختم کیا جائے اور لوگوں کو محصور کرنے کے بجائے ان کے حقوق بحال کیے جائیں۔ میرے نزدیک مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر 50 ء کی دہائی کے بعد سے اتنی شدت سے اجاگر نہیں ہوا جتنی شدت سے آج ہوا ہے۔ ہمیں اس کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ کہیں حالات و واقعات کی رفتار ہماری توقع سے تیز نہ ہوجائے۔

ابھی تک تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت معاملات کو سمجھ رہی ہے اور انہیں مدنظر رکھتے ہوئے ہی آگے بڑھ رہی ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ یہ صرف کشمیر کا مسئلہ نہیں بلکہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے، بھارت نے آسام و دیگر علاقوں سے 40 لاکھ افراد کو نکال دیا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے شہری نہیں ہیں۔ ان لوگوں میں بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔ دوسری طرف بھارت یہ کہتا ہے کہ افغانستان یا پاکستان سے جو بھی ہندو یا سکھ ہجرت کرکے آئے گا اسے بھارتی شہری کا درجہ دیا جائے گا لیکن افسوس ہے کہ جو لوگ آسام و دیگر علاقوں میں تھے، ان کی شہریت ختم کردی حالانکہ یہ کئی نسلوں سے وہاں موجود ہیں اور انتخابی عمل کا حصہ بھی بنتے رہے ہیں۔

ماضی میں ہٹلر نے چھوٹی چھوٹی بستیاں بنا دی تھیں جہاں یہودیوں کو رہنا تھا، اب اسی طرز پر بھارت چل رہا ہے کہ مسلمانوں خصوصاََ کشمیریوں کو الگ کر دیں گے جس کے بعد انہیں کوئی حق حاصل نہیں ہوگا۔ ہمیں امریکا کی ثالثی اور مدد کی پیشکش کو بغور دیکھنا چاہیے۔ امریکا اخلاقیات نہیں مفادات کا چیمپئن ہے اور تب تک ہی ساتھ دیتا ہے جب تک اس کا مفاد ہو۔ امریکا، روس، فرانس، برطانیہ و دیگر ممالک کے بھارت کے ساتھ اربوں ڈالر کے منصوبے چل رہے ہیں۔امریکا، بھارت کو اپنے لیے اہم سمجھتا ہے۔

نریند مودی متحدہ عرب امارات جا رہے ہیں جہاں انہیں ’اعلیٰ ترین سول ایوارڈ‘ دیا جائے گا، میرے نزدیک اس کے پیچھے امریکا ہے۔ امریکا،چین کے بڑھتے ہوئے کردار خصوصاََ سی پیک منصوبے کو روکنا چاہتا ہے جس کے لیے اسے بھارت کی ضرورت ہے اور وہ اسے خطے کا ٹھیکیدار بنانا چاہتا ہے تاکہ اس کے مفادات کو تحفظ مل سکے۔ امریکا، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت پر مشتمل جو ‘QUAD’  ہے، یہ چین، سی پیک و دیگر حوالے سے بنایا گیا اس میں بھی بھارت کا کردار ہے، اس لیے امریکا و دیگر طاقتیں بھارت کی طرف داری کریں گی۔ ہماری معاشی حالت کمزور ہے، سیاسی عدم استحکام ہے، ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے، آئی ایم ایف کا معاملہ ہے اور خطے کی مشکل صورتحال بھی ہے مگر اس سب کے باوجود پاکستان نے اپنا راستہ بنایا ہے۔ لداخ کی وجہ سے چین، مسئلہ کشمیر کا فریق بن گیا ہے جس سے ہمیں مدد ملی ہے۔

دنیا کے بدلتے حالات میں روس کے مفادات چین کے ساتھ ہیں لہٰذا اس نے چین کی خاطر اس معاملے کو سکیورٹی کونسل میں زیر بحث لانے کو سپورٹ کیا حالانکہ بھارت یہ توقع کر رہا تھا کہ روس اسے ’ویٹو‘ کر دے گا۔ پاکستان اس وقت اپنی بھرپور کوشش کر رہا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ ہم آگے کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تجارت و دیگر حوالے سے ہماری پارلیمنٹ نے جو طے کیا ہے ہمیں اس میں نرمی نہیں کرنی چاہیے اور اس پر ڈٹے رہنا چاہیے، اس سے دنیا کا اعتماد حاصل ہوگا ۔

دنیا اس وقت تک سنجیدہ نہیں ہوگی جب تک ہم سنجیدہ نہیں ہوتے۔ اگر ہم کسی تھرڈ آپشن کی بات کریں گے تو دنیا پیچھے ہٹ جائے گی کہ یہ معاملہ حل کر لیں گے لیکن اگر ہم ڈٹ جاتے ہیں اور ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹتے تو پھر دنیا بھی ساتھ کھڑی ہوتی ہے کہ معاملہ حل کریں۔ ہم مدعی پارٹی ہیں، اگر ہم ہی کہنے لگیں کے ہم امن چاہتے ہیں اور بھارت اس سے پیچھے ہٹے تو یہ خواہش ہماری کمزوری بن جائے گی۔ کشمیر کی قیمت پر  امن کسی صورت قبول نہیں اور نہ ہی اس سے امن آئے گا بلکہ اس طرح ہمیں مزیدسمجھوتے بھی کرنے پڑ سکتے ہیں۔ جو بھی کریں مستقل مزاجی سے کریں اور قوم کو بھی اس کی عادت ڈالی جائے۔ ہماری افواج بہترین ہیں اور ان میں ہر چیلنج سے نمٹنے کی صلاحیت ہے، ہمیں ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ ہمیں ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے جس سے ایسا تاثر جائے کہ ایمرجنسی کی صورتحال ہے بلکہ ہمیں اداروں کو مضبوط بنانا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔