بھارتی سپریم کورٹ کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر مودی سرکار کو نوٹس

ویب ڈیسک  بدھ 28 اگست 2019
کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف دائر درخواستوں پر 5 رکنی بنچ اکتوبر سے سماعت کا آغاز کرے گا۔ فوٹو : فائل

کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے خلاف دائر درخواستوں پر 5 رکنی بنچ اکتوبر سے سماعت کا آغاز کرے گا۔ فوٹو : فائل

نئی دلی: بھارتی چیف جسٹس رانجن گوگوئی نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کیخلاف دائر درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے مودی سرکار سے جواب طلب کرلیا۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت کی عدالت عظمیٰ میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت ہوئی، بھارتی چیف جسٹس رانجن گوگوئی نے حکومت کو نوٹس جاری نہ کرنے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے مرکز کو جواب داخل کرنے کا حکم دے دیا۔

بھارتی چیف جسٹس رانجن گوگوئی نے آرٹیکل 370 کی منسوخی اور کشمیر کی موجودہ کشیدہ صورت حال سے متعلق تمام درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے 5 رکنی بنچ تشکیل دے دیا ہے اور اکتوبر سے ان درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہو گا جس میں مودی سرکار کو اپنا جواب داخل کرانا ہوگا۔

یہ خبر پڑھیں: بھارت کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم اور 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان

قبل ازیں وفاق کے نمائندے توشر میٹھا نے عدالت کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ درخواستیں سیاسی اختلاف رائے کی وجہ سے دائر کی گئی ہیں، سرحدوں پر موجود تناؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے ان درخواستوں کو خارج کیا جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت فیصلہ کرچکی ہے اور اب اسے واپس نہیں لیا جا سکتا۔

مودی حکومت نے آئین میں حاصل کشمیر کو خصوصی حیثیت اور نیم خود مختاری دینے والے آرٹیکلز 375 اور 35-اے کو لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بھاری اکثریت سے منسوخ کرادیا ہے جس کے بعد سے کشمیر میں تاحال صورت حال کشیدہ اور کرفیو نافذ ہے۔ سپریم کورٹ میں اس اقدام کیخلاف مختلف افراد کی جانب سے 10 سے زائد درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

واضح رہے کہ رواں ماہ کے آغاز پر کانگریس پارٹی کے رکن تحسین پونے والا کی جانب سے دائر درخواست پر جسٹس ارون مشرا، جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس اجے رستوگی نے کشمیر کی صورت حال کو حساس قرار دیتے ہوئے درخواست پر سماعت کو دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردیا تھا جب کہ سپریم کورٹ نے بھی کچھ درخواستوں کو نامکمل قرار دیتے ہوئے ازسرنو درخواستیں دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔