کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کے لئے شاندار احتجاجی مظاہرہ

شاہد حمید  بدھ 4 ستمبر 2019
یقینی طور پراس احتجاج کا مقصد بھی یہی تھا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی احتجاج سے علحیدگی نے اس پیغام کوکمزور کیا۔

یقینی طور پراس احتجاج کا مقصد بھی یہی تھا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی احتجاج سے علحیدگی نے اس پیغام کوکمزور کیا۔

پشاور:  وزیراعظم پاکستان عمران خان کی ہدایات پر جہاں ملک کے دیگرحصوں میں کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی اوربھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کاخصوصی سٹیٹس ختم کرنے پر مہذب انداز میں سڑکوں پر نکلتے ہوئے ٹریفک بلاک کرکے احتجاج کیا گیا وہیں خیبرپختونخوا کے طول وعرض میں بھی احتجاج کا یہی طریقہ اپنایا گیا۔

یوں تو صوبہ کے بندوبستی اور قبائلی اضلاع میں ہر جگہ ایسا ہی احتجاج کیا گیا۔ تاہم سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ پشاور کے خیبر روڑ پر کیا گیا جس کی قیادت گورنر شاہ فرمان، وزیراعلیٰ محمود خان اور سپیکرصوبائی اسمبلی مشتاق احمد غنی نے کی جبکہ پشاور کے کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل مظہرشاہین بھی اس میں شریک ہوئے۔

یہ احتجاج وزیراعظم کی ہدایات کے مطابق نصف گھنٹے تک جاری رہا اور ساڑھے بارہ بجے احتجاج ختم کرتے ہوئے گورنر اور وزیراعلیٰ وہاں سے رخصت ہوئے، احتجاج میں خیبرپختونخوا اسمبلی کے مردوخواتین ارکان بھی شریک ہوئے اور ایک بھرپور پیغام دیتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا کہ اس ایشو پر پوری قوم یکجا ہے ۔

یقینی طور پراس احتجاج کا مقصد بھی یہی تھا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی احتجاج سے علحیدگی نے اس پیغام کوکمزور کیا، درکار تو یہ تھا کہ گورنر، وزیراعلیٰ اور سپیکر صوبائی اسمبلی کے ہمراہ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی بھی شانہ بشانہ کھڑے ہوتے لیکن اپوزیشن جماعتوں نے یہ کہہ کر اس احتجاج میں شرکت نہیں کی جب وہ عمران خان کو وزیراعظم ہی نہیں مانتے تو ان کی کال پر ہونے والے احتجاج میں وہ کیوں شریک ہوں۔

اپوزیشن کی جانب سے یہ موقف اپناتے ہوئے مقبوضہ کشمیر اور کشمیری عوام کے لیے منعقد ہونے والے احتجاج سے لاتعلقی اختیار کرنا مناسب اقدام تھا یا نہیں،اس سے قطع نظر اپوزیشن کی جانب سے احتجاج میں شرکت نہ کرنے کے اعلان کے باوجود لچک موجود تھی اور اگر سپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق غنی اور وزیراعلیٰ محمودخان اس سلسلے میں خود اپوزیشن کے ساتھ رابطہ کرتے ہوئے انھیں احتجاج میں شریک ہونے کی دعوت دیتے تو غالب امکان تھا کہ اپوزیشن جماعتیں بھی اس احتجاج میں پاکستان تحریک انصاف کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتیں تاہم نہ تو اپوزیشن کے ساتھ رابطہ کیاگیا اور نہ ہی اپوزیشن جماعتیں اس احتجاج میں شریک ہوئیں۔

اگرچہ وزیراعظم کی کال پر منعقد ہونے والے احتجاج میں شرکت نہ کرنے کا اعلان اپوزیشن لیڈر اکرم درانی نے کیا تاہم ان کے بیان میں لچک موجود تھی کیونکہ انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اگر سپیکر کہیں تو ہم ان کے کہنے پر احتجاج میں شرکت کر سکتے ہیںاور پھر احتجاج کے موقع پر اپوزیشن لیڈر نے خود اسمبلی اجلاس سے غائب رہتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کی احتجاج میں شرکت کے لیے راہ مزید ہموار کر دی بس صرف اس راہ پر چلنے کی دیر تھی۔

جسے مزید سہل اے این پی کے پارلیمانی لیڈر سردارحسین بابک نے یہ کہہ کر بنادیا کہ اگرچہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم کی کال پرکشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے منعقد ہونے والے احتجاج میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے تاہم اس کے باوجود انھیں دس منٹ دیئے جائیں تاکہ وہ اپنی سیاسی پارٹیوں کی قیادت سے مشاورت کر سکیں،اس اعلان کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اپوزیشن اپنے لیے محفوظ راستہ دیکھتے ہوئے احتجاج میں شریک ہونے کی خواہاں تھی لیکن یہ راستہ کسی اور نے نہیں بلکہ خود حکومت نے بند کردیا۔

سپیکر کی جانب سے اپوزیشن کو مشاورت کی ہدایت کی گئی لیکن ساتھ ہی وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی کامران بنگش نے جارحانہ انداز میں تقریر کرتے ہوئے کہہ دیا کہ’’ہمیں اپوزیشن کی کوئی ضرورت نہیں، پی ٹی آئی کے اپنے ارکان اتنی تعداد میں ہیں کہ وہ اپنے طورپر احتجاج کرسکتے ہیں‘‘، یقینی طور پر پی ٹی آئی ارکان کی تعداد صوبائی اسمبلی میں اس وقت94 ہے اور وہ اپنے طور پر احتجاج کرنے اور بڑا شو کرنے کی پوزیشن میں ہیں تاہم اگر اپوزیشن جماعتیں بھی اس احتجاج میں شرکت کرتیں اور انھیں مشاورت کے نام پر محفوظ راستہ دیتے ہوئے احتجاج میں شرکت کا موقع دیا جاتا تو اس سے یقینی طور پر اجتماعی طور پر پیغام جاتا۔

اور قبائلی اضلاع کے انتخابی مرحلے کے بعد وہاں سے منتخب اور مخصوص نشستوں کے ذریعے ایوان کا حصہ بننے والے ارکان کی حلف برداری کا مرحلہ بھی طے ہوگیا ہے، قبائلی اضلاع سے مزید دو خواتین نے اسمبلی کا حصہ بننا ہے جن میں ایک پی ٹی آئی اور ایک خاتون بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے اسمبلی کا حصہ بنے گی۔

مذکورہ دونوں خواتین ارکان کی آمد سے ایوان مکمل اور ارکان کی تعداد145ہوجائے گی، یقینی طور پر صوبائی اسمبلی ارکان کی تعداد میں اضافہ بھی ہوگیا ہے اور یہ اب ایک بڑا ایوان بن گیا ہے جس کے بعد اب اگلا مرحلہ صوبائی کابینہ میں قبائلی ارکان کی شمولیت کا ہے ، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان نے تو پالیسی واضح کردی ہے کہ قبائلی اضلاع سے دو وزراء اور ایک معاون خصوصی کو حکومتی ٹیم میں شامل کیاجائے گا، قبائلی اضلاع سے جو تین ارکان حکومتی ٹیم کا حصہ بنائے جائیں گے ان میں ایک خاتون بھی شامل ہوگی جسے وزارت دیتے ہوئے قبائلی اضلاع کی خواتین کو مثبت اور امور حکومت میں شامل ہونے کا پیغام دیا جائے گا تاہم یہ بھی ایک مرحلہ ہے کیونکہ قبائلی اضلاع سے پی ٹی آئی کے اپنے پانچ امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ دو منتخب ارکان ان کے ساتھ شامل بھی ہوئے ہیں اور ان کے علاوہ دو خواتین اور ایک اقلیتی رکن بھی پی ٹی آئی کے کھاتے میں اسمبلی پہنچے ہیں۔

مذکورہ سلیکشن کے ساتھ وزیراعلیٰ کی نظر اپنی موجودہ ٹیم پر بھی ہے تاہم چونکہ صوبائی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی رپورٹ مرتب کی جا رہی ہے اور اس رپورٹ کے اجراء کے سلسلے میں صوبائی حکومت تقریب منعقد کرنے جا رہی ہے جس میں پی ٹی آئی کے چیئرمین وزیراعظم عمران خان خود شرکت کریں گے اس لیے انتظار کیا جا رہا ہے کہ وہ خود اس رپورٹ کا بھی جائزہ لیں اور اس کی بنیاد پر متعلقہ وزراء اور حکومتی ٹیم کے ارکان کی کارکردگی پر بھی نظر ڈالتے ہوئے ان کے مستقبل کا فیصلہ کریں ۔

تاہم یہ مرحلہ اور کام اتنا آسان نہیں جتنا کہ اسے سمجھا جارہا ہے، ٹیم سے فارغ ہونے والے بھی خاموش نہیں بیٹھیں گے اورایک سال سے اپنے محکموں کوڈیل کرنے والے بھی خاموشی سے انھیں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں جس کا اظہار حکومتی اجلاسوں میں بھی ہوچکاہے اس لیے وزیراعلیٰ سب کچھ اپنے سر لینے کی بجائے پارٹی چیئرمین کے لیے یہ کام چھوڑدیں گے تاکہ وہ خود ہی اس سلسلے میں فیصلے لیں اور جب وزیراعظم عمران خان بطور پی ٹی آئی چیئرمین فیصلہ لیں گے تو پھر اس سے روگردانی کرنا مشکل ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔