جسٹس قاضی فائز کیس؛ جس طرز کا خرچ ہے وہ آمدن کے مطابق نہیں، سپریم کورٹ

ویب ڈیسک  پير 11 نومبر 2019
وکیل نے دستاویز سے بتاناہے کہ جسٹس عیسی کی اہلیہ زیر کفالت ہیں یا نہیں، جسٹس عمر عطا بندیال فوٹو:فائل

وکیل نے دستاویز سے بتاناہے کہ جسٹس عیسی کی اہلیہ زیر کفالت ہیں یا نہیں، جسٹس عمر عطا بندیال فوٹو:فائل

 اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس عمر عطا بندیال نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کی سماعت میں کہا کہ جس طرز کا خرچ ہے وہ آمدن کے مطابق نہیں۔

جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اوردیگر درخواستوں پر سماعت کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کے ٹیکس معاملات پر معاون وکیل بابر ستار نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں قانونی مراحل کو اپنایا نہیں گیا، صرف ٹارگٹ کو مد نظر رکھ کر اقدامات کیے گئے، ٹیکس اتھارٹی نے اپنے اختیارات کادرست استعمال نہیں کیا، ٹیکس قوانین کے تحت آج تک کسی سول سرونٹ کیخلاف کارروائی نہیں ہوئی، سپریم جوڈیشل کونسل نے جائزہ لینا ہے کہ جج مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا کہ نہیں،کیا بلڈنگ کوڈ اور ٹریفک چالان بھی جج کے مس کنڈکٹ میں آئے گا؟۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان قانون دیگر انتظامی ٹربیونلز سے زیادہ جانتے ہیں، یہ نہ بھولیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل سینئر ترین ججز پر مشتمل ہوتی ہے، صرف ٹیکس کمشنر پر معاملہ چھوڑ دینا آرٹیکل 209 کی تضحیک ہوگی، ممکن ہے کونسل ٹیکس کمشنر کو مناسب فورم قرار دیتے ہوئے فیصلہ کرنے دے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بظاہر تینوں جائیدادیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی ہیں، آپ نے دستاویز سے بتاناہے کہ جسٹس عیسی کی اہلیہ زیر کفالت ہیں یا نہیں، جس طرز کا خرچ ہے وہ آ مدن کے مطابق نہیں، کیس میں جج کے مس کنڈکٹ کا الزام ہے۔

بابر ستار نے کہا کہ پانچ اگست 2009 کو جسٹس قاضی فائز عیسی چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ بنے، سپریم کورٹ میں آنا نئی تعیناتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ آنے پر ہائی کورٹ کا کنڈکٹ ختم ہو جاتا ہے۔ بابر ستار نے جواب دیا کہ جی بالکل یہ میری لیگل معروضات کا حصہ ہے کہ ہائی کورٹ کا کنڈکٹ سپریم کورٹ آنے پر ختم ہو جاتا ہے، ساڑھے سات ہزار پائونڈبیرون ملک جائیدادوں کی کل مالیت ہے جو اسلام آباد کی جائیدادوں کی مالیت سے زیادہ نہیں۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ الزام جائیدادوں کی مالیت کا نہیں سورس آف اِنکم کا ہے۔ بابر ستار نے کہا کہ صدرمملکت کے سامنے منی لانڈرنگ کا معاملہ نہیں آیا، صدر مملکت نے اگر آزاد ذہن استعمال کیا ہوتا تو ایسٹ ریکوری یونٹ اور ایف آئی اے کی رپورٹ پر معاملہ جوڈیشل کونسل کے سامنے نہیں آتا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ صرف منیر اے ملک کی اِنکم ٹیکس پر معاونت کرنے آئے تھے مہربانی کر کے اسی تک رہیں۔ بابر ستار نے کہا کہ ریفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اثاثہ ظاہر نہ کرنے کا الزام لگایا گیا، ہمارا موقف ہے کہ نہ اثاثے چھپائے گئے اور نہ غلط بتائے گئے۔

بابر ستار نے کہا کہ نیویارک میں میری تنخواہ اچھی تھی تو فلیٹ خرید لیا، اگر میرے والد جج ہوتے تو شاید انہیں بھی شوکاز نوٹس مل جاتا۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔