اقتصادی گڈ گورننس ناگزیر

ایڈیٹوریل  بدھ 20 نومبر 2019
حکومت معیشت اور عوام کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں کوکم کرے، مہنگائی کنٹرول کرنے کو ترجیع دے۔  (فوٹو: فائل)

حکومت معیشت اور عوام کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں کوکم کرے، مہنگائی کنٹرول کرنے کو ترجیع دے۔ (فوٹو: فائل)

اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل بانکی مون نے کہا تھا کہ کائنات کو محفوظ بنانے، لوگوں کو غربت سے نکالنے کے لیے معاشی ترقی کے لیے انسانی کوشش اور مقصد یہی ہوکہ موسمیاتی تبدیلی، پانی کی قلت ، توانائی بحران ، صحت کی ابتر عالمی صورتحال اور خواتین کو معاشی اعتبار سے طاقتور بنانے کی جو تجویزیکجا ہوں ان سب کا ایک مشترکہ حل سامنے آئے۔

ایک معاشی مبصرکے مطابق معاشی امورکی بہتری اور درپیش بحران کا ہر یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ عوام پر ٹیکسزکا بوجھ بڑھا دیا جائے، اگر اقتصادی معاملات کو ریگولیٹ کرنے کے لیے صرف ٹیکس بڑھاؤ اسکیم پر انحصارکیا جائے گا تو اس سے اقتصادی ترقی کو زک پہنچ سکتی ہے اور عوام کو معاشی ریلیف سے جو طاقت اور آسودگی ملتی ہے۔ اس سے وہ محروم ہوجائے گا۔

ملکی اقتصادی اور معاشی صورتحال مذکورہ افکاروخیالات کی عکاسی کرتی ہے اور گزشتہ روزگورنراسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے اسی تناظر میں تاجر برادری سے گفتگو کی، انھوں نے کہا کہ شرح سود میں کمی کوافراط زرکی شرح میں کمی سے مشروط کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں بنیادی شرح سودکو دیگر ملکوں کے افراط زرکی شرح اور اپنی تاریخ سے موازنہ کیاجائے۔ جن ملکوں میں شرح سود کم ہے وہاں افراط زرکی شرح بھی کم ہے۔ یہ بات انھوں نے پیرکوکراچی چیمبر آف کامرس میں تاجر و صنعتکاروں سے خطاب کے دوران کہی۔

انھوں نے کہاکہ فی الوقت پالیسی ریٹ سوا 13 فیصد ہے اور افراط زرکی شرح 11سے12فیصد رہنے کی توقع ہے۔ مانیٹری پالیسی کے فیصلے آزادانہ طریقے سے ہوتے ہیں جو بنیادی شرح سود کا تعین کرتی ہے۔ اگر سود کا فیصلہ ہم نے کرنا ہے تواس کمیٹی کی افادیت ختم ہوجائے گی۔

ملک میں افراط زرکی شرح میں کمی ہوگی تو بنیادی شرح سود بھی کم ہوگی، اسٹیٹ بینک ترکی اور دیگر ملکوں کی ایران سے بینکاری کا جائزہ لے رہا ہے۔ ایران سے بینکاری کرنے کے لیے ایسا طریقہ اپنائیں گے جس سے بینکوں پراثرات نہ پڑیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان کے زیادہ تر بینک نجی شعبے میں ہیں، تجارت وصنعت کی ترقی سے ملکی معیشت کی بھی ترقی ممکن ہے، انھوں نے بتایا کہ معاشی حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں۔

ایکس چینج ریٹ اب بہتر ہورہے ہیں۔4ماہ قبل تک اسٹیٹ بینک کے اقدامات کوماہرین معیشت کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ معیشت کی شرح اورجی ڈی پی نمو میں ہونے والی کمی سے اتفاق کرتے ہیں۔کاروبار بڑھے گا تو معیشت بحال ہوگی۔ بلاشبہ جو انداز نظرگورنر اسٹیٹ بینک کا ہے اس کا ملکی معیشت کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو ٹھوس زمینی حقائق کوبھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت پڑے گی، اعداد وشمار اور نظریاتی حوالہ سے باتیں صائب ہیں مگر سوال میکرو اکنامک اور مائیکرو اکنامک میکنزم اور مارکیٹ عوام کی عوامی ریلیف سے پیوستگی ہے۔

کاروبار بڑھنے اور اور معیشت کی بحالی کی نوید اچھی تسلی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ عوام تک معیشت کی بحالی اور اس کے استحکام کی خبریں حقیقی معاشی ثمرات کی شکل میں عوام کی دہلیز تک نہیں پہنچ رہی ہیں، حکومت اور اس کے معاشی ماہرین کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ معیشت کی بحالی کا دستاویزی ثبوت شہریوں کے معاشی زندگی میں مثبت تبدیلیوں میں منعکس ہو، عام آدمی کو ٹماٹر مارکیٹ میں 17 روپے فی کلو دستیاب ہو تاکہ مشیر خزانہ کی بات سچ ثابت ہو، تاہم معلوم ہوا ہے کہ ایرانی ٹما ٹر کوئٹہ مارکیٹ میں اترا ہے اور کراچی کی منڈیوں تک آتے آتے دونوں جگہ اس کی قیمت 1400 روپے فی کلو ہوگئی۔

مارکیٹ مافیاؤں نے کام دکھا دیا ، گزشتہ روز کراچی کی سبزی منڈی میں ٹماٹر 300 روپے فی کلو بک رہا تھا۔ ادرک کے دام 600 روپے کلو تک جا پہنچے ہیں جب کہ حکومت کو صائب مشورہ دیا جاچکا ہے کہ وہ سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کا زریںموقع نہ گنوائے، معاشی شعبے پر توجہ دے، ایکسپلورکرے کہ کیسے ذخیرہ اندوز اور منافع خور مافیائیں عوام کا خوس چوس رہی ہیں، کہاں اندھیر نگری اور لوٹ مار مچی ہوئی ہے، گڈ گورننس معیشت کی بحالی اور استحکام کی شکل میں نظر آنی چاہیے، اور پرائس کنٹرولنگ اتھارٹیزکو ملک بھر میں اپنے فرائض تن دہی سے ادا کرنا ہونگے، بعض تجزیہ کاروں نے کا یہ خدشہ بلاجواز نہیں کہ آڑھتیوں اور مڈل مینوںکو کھلی چھوٹ ملتی رہی تو ملک کساد بازی کی نذر ہوسکتا ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک کا استدلال معقول اور درست ہے کہ اسٹیٹ بینک کا کام کاروبار کرنا نہیں بلکہ کاروبار کو سہولت دینا چاہتا ہے۔کاروباری حالات میں بہتری آگئی ہے۔ زراعت کے لیے کولڈ اسٹوریج ، ورکنگ کیپٹل اور متبادل توانائی دی گئی ہے، معیشت میں جی ڈی پی ترقی گزشتہ سال سے کم ہوگی ہے۔ایکسپورٹ میں حجم کے لحاظ سے اضافہ ہورہاہے،کاروباری برادری اصلاحات کے عمل کو اعتماد دے۔ ملک میں غیر ملکی سرمایہ آرہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے پاس غیر قرضہ جات زرمبادلہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔کاروبار میں آسانی کے ایشوز کو آہستہ آہستہ کم کررہے ہیں۔ فی الوقت آئی ایم ایف کا پہلاجائزہ مکمل ہواہے۔

پہلے فارن ایکس چینج نکل رہاتھا لیکن اب فارن ایکس چینج کی آمد شروع ہوگئی ہے۔ ملکی درآمدات کم ہورہی ہے ، برآمدات بڑھنا شروع ہوئی ہے۔ایکسچینج ریٹ مستحکم ہونے سے زرمبادلہ ذخائر بڑھ رہے ہیں۔ اب فی انوائس 10ہزار ڈالر فارن ایکسچینج بیرونی ملک لے جانے کی اجازت دی گئی ہے۔ اسی تناظر میں مشیر خزانہ کا بیان دل خوش کن ہے کہ معیشت مستحکم ہو رہی ہے، دسمبر 2020تک گردشی قرضہ ختم ہوجائیگا، اینکر پرسنز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومتی اقدامات کے نتیجہ میں رواں ٕ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 63.1 فی صدکمی آئی ہے، برآمدات بڑھانے کے لیے ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی۔

محصولات میں اضافہ اور اخراجات میں کمی کے لیے بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ وفاقی وزیر برائے توانائی عمر ایوب نے کہا کہ آئل ، گیس بلاکس کے لیے ایکسپلوریشن لائسنس پردستخط ہوگئے، ایکسپلوریشن ایکٹیوٹی سے دور دراز علاقے معاشی ترقی سے مستفید ہونگے۔

ادھرچیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کاکہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے ٹیکس ہدف کم کرنے کا مطالبہ نہیں مانا ، وزیراعظم کی قائم کردہ انداد (اسمگلنگ) کی قائمہ کمیٹی کی ہدایت کی روشنی میں شبر زیدی نے کہا کہ اسمگلڈ اشیا کے ساتھ ضبط گاڑی مالکان کے خلاف علیحدہ کارروائی ہوگی۔ چیئرمین کے مطابق چھوٹی گاڑیوں ٹرک، اور ٹرالر مالکان کارروائی سے نہیں بچ سکیں گے، اس سلسلہ میں دستاویزات کی تصدیق ہوگی اور ضبط شدہ گاڑیوں کی فارنسک لیب سے کرائی جانے کی جانچ پڑتال ہوگی۔

میڈیا کے مطابق کابینہ میں رد وبل کے نتیجہ میںاسد عمر دوبارہ کابینہ میں شامل ہو رہے ہیں، سابق وزیر خزانہ کو منصوبہ بندی کا قلمدان جب کہ خسرو بختیار کو وزارت پٹرولیم دی جا رہی ہے۔ معاشی ماہرین نے اس پیش رفت کو صائب قراردیا ہے۔ ادھر اسٹاک مارکیٹ میں تیزی اور کاروباری حجم29ماہ کی بلند ترین سطح پر آگیا ہے ، سرمایہ کاروں کے بڑھتے ہوئے اعتماد کے باعث اسٹاک ایکسچینج پر ملکی اقتصادی افق پر مثبت اطلاعات،زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور اس کی قدرمیں بدتریج کمی سے ڈالر کی رسد بڑھنے سے زبردست تیزی کا رجحان غالب رہا۔

ضرورت ’’ڈراسٹک‘‘ اقدامات کی ہے، حکومت معیشت اور عوام کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں کوکم کرے، مہنگائی کنٹرول کرنے کو ترجیع دے۔ حکمران عوامی اضطراب کی خاموش لہر سے آشنا رہیں اسے نظرانداز نہ کریں، خلق خدا غربت کی چکی میں پس رہی ہے اور جب لوگ دو وقت کی روٹی کو اقتصادیات کے پیچیدہ مسائل پر فوقیت دینے لگیں تو معاشی مسیحاؤں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔