کیا امریکا کے جدید ترین اور ’خفیہ‘ لڑاکا طیارے یہاں چھپائے گئے ہیں؟

ویب ڈیسک  جمعرات 2 جنوری 2020
سٹیلائٹ امیج میں چار سے پانچ ہینگرز ایسے ہیں جن میں سے لڑاکا طیاروں کے اگلے یا پچھلے حصے باہر کو نکلے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ (فوٹو: وار زون)

سٹیلائٹ امیج میں چار سے پانچ ہینگرز ایسے ہیں جن میں سے لڑاکا طیاروں کے اگلے یا پچھلے حصے باہر کو نکلے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ (فوٹو: وار زون)

نیواڈا: حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی ایک رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ امریکا نے نیواڈا میں اپنی ’ٹونوپاہ ٹیسٹ رینج‘ کی فوجی تنصیبات میں ممکنہ طور پر کئی جدید ترین اور خفیہ لڑاکا طیارے چھپائے ہوئے ہیں۔

یہ رپورٹ ’’دی ڈرائیو‘‘ کی ذیلی ویب سائٹ ’’وار زون‘‘ پر گزشتہ ماہ شائع کی گئی ہے جو بطورِ خاص جنگوں، فوجیوں، جنگی ہتھیاروں اور عسکری تحقیق کے بارے میں تازہ ترین خبریں اور تجزیئے شائع کرتی ہے۔

وار زون کے تجزیہ کار ٹائلر روگووے کے مطابق، ان تنصیبات پر نئے اور خفیہ لڑاکا طیاروں کی موجودگی کا امکان اس وجہ سے بھی زیادہ ہے کیونکہ سرد جنگ کے زمانے میں یہیں پر درجنوں امریکی بمبار اور لڑاکا طیاروں کے ابتدائی خفیہ تجربات انجام دیئے گئے تھے۔ مشہورِ زمانہ ’’ایف 117 اے‘‘ اسٹیلتھ طیارہ بھی ٹونوپاہ ٹیسٹ رینج پر جاری، امریکی فضائیہ کے متعدد خفیہ منصوبوں میں سے ایک کا نتیجہ تھا۔

ٹائلر روگوے نے اپنے دعوے کے ثبوت میں ایک پرائیویٹ سٹیلائٹ کمپنی ’’پلینٹ لیب‘‘ کے مصنوعی سیارچے ’’پلینٹ اسکوپ‘‘ سے کھینچی گئی ایک بڑی تصویر پیش کی ہے جس میں ٹونوپاہ ٹیسٹ رینج کی عمارتیں دکھائی دے رہی ہیں، جن میں وہاں بڑے لڑاکا طیاروں کےلیے بنائے گئے درجنوں ہینگرز بھی دکھائی دے رہے ہیں۔

تصویر میں یوں تو چار سے پانچ ہینگرز ایسے ہیں جن میں سے لڑاکا طیاروں کے اگلے یا پچھلے حصے باہر کو نکلے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں لیکن کم سے کم ایک چیز ایسی ہے جسے کھلی جگہ پر کھڑا ہوا لڑاکا طیارہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔

ٹائلر کے مطابق، یہ طیارہ اپنی ساخت میں ایسے کسی بھی لڑاکا طیارے سے مماثلت نہیں رکھتا کہ جس سے وہ لڑاکا طیاروں کے ایک ماہر کی حیثیت سے واقف ہوں۔ اسی بناء پر ان کا کہنا ہے کہ ٹونوپاہ تنصیبات میں کچھ نئے اور جدید ترین لڑاکا طیاروں پر تیزی سے کام جاری ہے۔

واضح رہے کہ ٹونوپاہ ٹیسٹ رینج، نیواڈا کے صحرا میں ’’ایریا 51‘‘ کے ساتھ ہی واقع ہے۔ یہ وہی ایریا 51 ہے جہاں ماضی میں اڑن طشتریاں دیکھنے کے دعوے بڑے تواتر سے سامنے آتے رہے ہیں لیکن عسکری تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہاں دراصل لڑاکا طیاروں کے علاوہ جدید قسم کے جیٹ انجنوں پر بھی خفیہ کام ہوتا رہا ہے۔ ان ہی تجربات کو عام لوگ اڑن طشتریوں اور پراسرار روشنیوں سے تعبیر کرتے رہے ہیں۔

ویسے تو آج سرد جنگ ختم ہوئے 30 سال ہونے کو آرہے ہیں اور یونی پولر ورلڈ میں امریکا کو نئے لڑاکا طیاروں کے خفیہ منصوبوں کی بھی بظاہر کوئی ضرورت نہیں لیکن قرین قیاس یہی ہے کہ لڑاکا طیاروں کے میدان میں روس، چین اور مختلف یورپی ممالک کی جانب سے مسلسل پیش رفت کے باعث امریکا کو ٹیکنالوجی کے اس شعبے میں برتری سے محروم ہونے کا خطرہ ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ ٹونوپاہ ٹیسٹ رینج پر جدید ترین ’’خفیہ لڑاکا طیاروں‘‘ والی خبر خود پنٹاگون ہی نے لگوائی ہو، کیونکہ جوائنٹ اسٹرائیک فائٹر (ایف 35) کے بعد، امریکا کی جانب سے لڑاکا طیاروں کے کسی نئے، جدید ترین اور غیرمعمولی منصوبے کی خبریں بہت کم رہ گئی تھیں، جس کی وجہ سے جنگی ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکا کی شہرت بھی متاثر ہورہی تھی۔

واقعہ کچھ بھی ہو، لیکن ایک تکنیکی ماہر کے تجزیئے کی موجودگی میں اگر نئے امریکی لڑاکا طیاروں کے خفیہ منصوبوں کا امکان قبول نہیں کیا جاسکتا تو اس امکان کو آسانی سے نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔