گھریلو کام کاج میں روک ٹوک پر بہو نے مبینہ آشنا کے ساتھ مل کر ساس کو قتل کر ڈالا

عبدالستار مرزا  اتوار 12 جنوری 2020
تینوں ملزموں کا پہلے جرم کا اقرار پھر انکار، تحقیقات کے مطابق قتل انہوں نے ہی کیا، پولیس۔ فوٹو: فائل

تینوں ملزموں کا پہلے جرم کا اقرار پھر انکار، تحقیقات کے مطابق قتل انہوں نے ہی کیا، پولیس۔ فوٹو: فائل

گجرات: ماں دنیا کا وہ واحد ہستی ہے، جس کی محبت ہر قسم کے مفاد سے بالاتر ہوتی ہے، یہ دنیا میں رب کریم کا عطا کردہ ایسا انمول تحفہ ہے جسے خریدا نہیں جا سکتا اور اس ماں کے لئے سب سے بڑی خوشی کا دن وہ ہوتا ہے جب اس کا بیٹا شادی کی عمر کو پہنچ جاتا ہے۔

ہر ماں کے ارمان ہوتے ہیں کہ اس کے لئے نیک سیرت، حسین و جمیل لڑکی تلاش کر کے گھر کو جنت بنا لوں لیکن جب رخصتی کے بعد ماں کے سامنے اس کے ارمانوں کے برعکس ہونے لگتا ہے تو ماں اور بیٹے کی محبت تقسیم ہو کر رہ جاتی ہے۔ اگر بہو خوش اخلاق، خدمت گزار اور وفاشعار مل جائے تو گھر جنت کا نمونہ بن جاتا ہے لیکن کچھ ماؤں کو بہو کے روپ میں ناگن مل جائے تو اس کے زہر سے گھرانے تباہ ہو جاتے ہیں۔ گجرات میں بھی ایک بہو نے اپنی انا کی تسکین کے لئے ساس کو ڈسنے کا ایسا کھیل رچایا کہ تین ، تین گھرانوں کی خوشیاں چھین لیں۔

شہر کے وسط میں قائم محلہ بخشوپورہ میں 65 سالہ زاہدہ بی بی کو دوپہر ایک بجے قتل کرنے کا واقعہ رونما ہوا تو اس کا مقدمہ جائے وقوعہ سے چند گز کے فاصلے پر تھانہ اے ڈویژن نے مقتولہ کے گورنمنٹ میجر شبیر شریف شہید ہسپتال کنجاہ میں تعینات ای این ٹی سرجن بیٹے عدنان محمود کی رپورٹ پر نامعلوم افراد کے خلاف درج کرلیا گیا۔

ڈاکٹر برادری کے سراپا احتجاج بننے کے تیور دیکھ کر ڈی پی او گجرات، ڈی ایس پی سٹی رضا حسنین اعوان نے قتل کی لرزہ خیز واردات کے ملزمان ٹریس کرنے کے لئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دیدیں تو انسپکٹر اشرف گوندل نے دو ہفتے کے اندر اندھے قتل کا سراغ لگایا تو انکشاف ہوا کہ 65سالہ خاتون زاہدہ کو ڈکیتی کی واردات یا کسی دشمنی کی وجہ سے قتل نہیں کیا گیا بلکہ بہو ہی ساس کی قاتل تھی، جس نے خاوند کی دوسری شادی کا اصرار کرنے اورگھریلو کام کاج میں روک ٹوک کرنے پر ساس کوگھر میں پلمبر کا کام کرنے کے لئے آنے والے نوجوان،اپنے مبینہ آشناء کے ساتھ مل کر قتل کیا ہے۔

انسپکٹراشرف گوندل نے بتایا کہ 10مئی 2019ء کو قتل کی واردات کے بعد جب تحقیقات شروع کیں توجائے وقوعہ سے صرف خون آلود ہاتھ سیڑھیوں کی دیواروں پر لگے ملے جس سے کئی روز تک معاملہ گھمبیر رہا تاہم جب علاقے میں موبائل ٹاور کے ڈیٹا اور گلی کے موڑ پر لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج حاصل کر کے پلمبر محمد امین اصغر سکنہ شیخ پور کو شک کے دائرہ میں لا کر گرفتار کیا گیا تو اُس نے پولیس کی تفتیش کے سامنے چند لمحوں میں ہی قتل کی تفصیلات بتا دیںکہ اس کے ساتھ واردات میں شامل مدعی مقدمہ ڈاکٹر عدنان محمود کی بیوی منیبہ اور اس کا قریبی رشتے دار و آشناء عمران جاوید سکنہ حیات النبی شامل ہے جنہیں گرفتار کر کے پوچھ گچھ کی تو منیبہ نے ساری منصوبہ بندی سے آگاہ کرتے ہوئے بتادیا کہ مقتولہ زاہدہ بی بی اس کی سگی خالہ اور ساس بھی تھی، جو گھر کے کام کاج میں اسے ٹوکتی اور سختی کیا کرتی تھی۔

ساس جائیداد، دکانوں کی مد میں آنے والا تمام کرایہ بھی خود ہی وصول کرتی تھی اور 6 سال سے اولاد نہ ہونے پر اس کے میاں کی دوسری شادی کروانے پر بضد تھی کہ اُس نے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا، جس میں اُس نے اپنے قریبی رشتے دار و مبینہ آشناء عمران جاوید کو بھاری رقم دے کر راضی کیا، پھر اس منصوبے کی تکمیل کے لئے گھر میں واٹر سپلائی کے کام کے لئے آنے والے پلمبر امین اصغر کو رقم کی لالچ دے کر ساتھ دینے پر آمادہ کیا گیا۔ منیبہ پولیس تفتیش میں سارا ماجرا سنانے کے بعد جب میڈیا کے سامنے پیش ہوئی تو وہ تمام تر واقعہ سے انجان بننے کی کوشش کرتی رہی اور خاوند ڈاکٹر عدنان کے علیحدگی اختیار کرنے کے خوف پر عمران جاوید کیساتھ مبینہ تعلقات سے کبھی انکار، کبھی اقرار کرتی رہی۔

مقدمہ میں نامزد ملزم عمران جاوید نے تمام تر قصہ منیبہ کی نسبت بغیر کسی لمحے کے رُکے ازبر سنایا تو پولیس آفیسران کا بھی قتل کی واردات کا شک یقین میں بدل گیا۔ عمران جاوید کا کہنا تھاکہ وہ شادی شدہ ہے اور دو بچوں کا باپ ہے جو رکشہ چلا کر محنت مزدوری کرتا اُسے پیسوں کا لالچ دیا گیا تھا، منیبہ کو کہا تھا کہ زاہدہ بی بی ہماری بھی رشتے دار ہیں وہ نیک پرہیز گار خاتون ہیں انہیں کیوں قتل کروانا چاہتی ہو جس پر منیبہ نے جواب دیا کہ اس بات سے تمہارا کوئی تعلق نہیں جو کہا اتنا کرو تمہیں 8/10لاکھ روپے ملیں گے، وقوعہ کے روز واردات سے پہلے منیبہ نے اُسے بھاری رقم دی جسے بغیر گنے جیب میں ڈال لیا مگر قتل کے بعد خود پر خوف طاری ہو ا تواُس نے جائے وقوعہ پرساری رقم پھینک دی۔

منیبہ اور میرے تعلقات کا ڈاکٹر عدنان محمود کو شک تھا، واردات سے پہلے ساتھی ملزم امین اصغر سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہوا، وقوعہ کے روز منیبہ کے گھر میں ہی تعارف ہوا۔ واردات کے دوسرے ملزم امین اصغر کا کہنا ہے کہ چار سال قبل اُسکی شادی ہوئی تھی تاہم ابھی اولا د نہیں ہے سینٹری کا کام کر کے گزر بسر کررہا تھا کہ ڈاکٹر عدنان کے گھر کام کے دوران ان کی اہلیہ نے مجھے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی، میرے مسلسل انکار پر ایک اُس نے اپنے کپڑے پھاڑ کر خاوند کو بتانے کی دھممکی دی اور بعدازاں اپنی ساس کے قتل میں مدد پر معاف کرنے کا کہا اور ساتھ پیسے بھی دینے کا وعدہ کیا، جس پر میں لالچ میں آگیا۔

قتل کی واردات کے تینوں ملزمان کی گرفتار ی پر ڈی ایس پی سٹی رضا حسنین اعوان کا کہنا ہے کہ ملزمہ منیبہ حاملہ ہونے اور بیٹے کی پیدائش ہونے پراب عدالت سے ضمانت پر رہا ہو چکی ہے اور ملزمان عمران جاوید اور امین اصغر جیل میں ہیں، منیبہ کے بیٹے کے ڈی این اے ہونے پرمزید اصل حقائق سامنے آ سکتے ہیں۔ ہماری تحقیقات کے مطابق قتل تینوں نے مل کر کیا ہے تاہم پولیس کا روایتی ریمانڈ ختم ہونے پر عمران جاوید اپنے پہلے دئیے گئے تمام تر بیانوں سے مُکر گیا، جس کا کہنا تھا کہ پولیس نے تشدد کر کے یہ بیانات مجھ سے دلوائے ہیں، میرا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں۔ اگرتینوں ملزمان کا اپنا جرم ماننے سے اب انکار کرنا کہ قتل انہوں نے نہیں کیا تو پھراصل قاتل کون ہیں؟ اس کا فیصلہ آنے والا وقت یا پھر عدالت ہی کرے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔